اسلام آباد ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کارکنوں کی گرفتاری، راستوں کی بندش سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی ، دوران سماعت چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے وکیل پی ٹی آئی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پرامن احتجاج آپ کا حق ہے مگرآپ عمومی حکم مانگ رہے ہیں،عدالت عمومی حکم جاری نہیں کر سکتی ۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے کارکنوں کی گرفتاری اور راستوں کی بندشوں سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی ۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی قیادت اور کارکنوں کوگرفتاراور ہراساں کیا جارہا ہے،کارکنوں کو اکٹھے ہونے سے نہیں روکا جاسکتا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ دھرنا کیس میں قواعد و ضوابط واضح کر چکی ہے۔دھرنوں اورجلسوں سے متعلق سپریم کورٹ کا احکامات واضح ہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں قواعدِ و ضوابط پرعمل کیا جائے،آپ پہلے ضلعی انتظامیہ سے اجازت لیں۔
بیرسٹرعلی ظفرنے کہا کہ مسئلہ اجازت کا نہیں ، ہمارے کارکنوں کو گرفتارکیا جارہا ہے۔ چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پرامن احتجاج آپ کا حق ہے،آپ عدالت سے عمومی حکم مانگ رہے ہیں،عدالت عمومی حکم نامہ جاری نہیں کرسکتی،کل کو خدانخواستہ کوئی واقعہ ہو جائے، یہ عدالت عمومی آرڈر جاری نہیں کرسکتی،سپریم کورٹ کے دھرنا کیس کے فیصلے کے مطابق ہدایات دے دیتے ہیں۔
بیرسٹرعلی ظفرنےعدالت کو بتایا کہ وکلا، سابق ججزکے گھروں تک پرچھاپے مارے جارہے ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا بیان حلفی دے سکتے ہیں کہ کوئی واقعہ نہیں ہوگا ،اگر ہوا تو آپ ذمہ دار ہونگے؟، بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ میں عدالتی فیصلوں کا جائزہ لے کرعدالت کی معاونت کر دیتا ہوں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ بیان حلفی نہیں دے سکتے تو پھر عدالت کیسے عمومی آرڈر جاری کردے؟ ۔عدالت نے بیرسٹر علی ظفر کو عدالتی فیصلوں کا جائزہ لینے کے لیے وقت دے دیا۔