ضیا چترالی:
براعظم افریقہ میں جہاں ایک طرف غربت اور قحط سالی نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ وہیں نبوت کے جھوٹے دعویداروں کی چاندی ہوگئی ہے، ایک جھوٹے نبی کو ملنے والی عزت و شہرت اور بے پناہ مال و دولت کے بعد کلیسا کے درجنوں کاہنوں نے نبوت کا دعویٰ کرکے لوگوں سے مال بٹورنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ عجیب و غریب امورسرانجام دینے والے ان افراد کے معتقدین میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، جن میں عوام کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے سرکاری عہدیدار، حکومتی وزرا اور سیاست داں بھی شامل ہیں۔
لندن سے شائع ہونے والے عربی اخبار ’’الحیاۃ‘‘ نے ترک خبر رساں ایجنسی ’’اناضول‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ افریقی ملک زمبابوے میں نبوت کے درجنوں جھوٹے دعویدار سامنے آئے ہیں۔ خود کو عیسائی مذہب کا پیروکار کہنے والے ان جھوٹے نبیوں کو ملک بھر میں غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی ہے۔ ان شعبدہ بازوں میں سے اکثر کلیسا کے کاہن ہیں۔ نبوت کے دعویدار جادو، سحر اور کہانت کی مدد سے عجیب و غریب کرتب دکھا کر لوگوں کو اپنا معتقد بنا رہے ہیں۔ گمشدہ اشیا کی برآمدگی، غربت اور مہلک و ناقابل علاج امراض سے نجات سمیت لوگوں کے مشکل مسائل کو حل کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ جبکہ کچھ لوگوں کے مسائل ان کے ذریعے حل ہونے کے باعث ملک بھر میں ان کی شہرت ہوگئی ہے۔ زمبابوے کے باشندے چونکہ غربت و قحط سالی کے ہاتھوں پس رہے ہیں، اس لیے انہوں نے ان شعبدہ بازوں کو نجات دہندہ سمجھ رکھا ہے اور روز بروز ان کے معتقدین میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مقامی ذرائع ابلاغ میں بھی ان کے کارناموں کے حوالے سے روز کوئی نہ کوئی خبر شائع ہوتی ہے۔ جن میں کسی مدعی نبوت کے ہاتھوں لاعلاج مریض کی شفایابی یا کسی غریب کو فقر و فاقے سے نجات ملنے کی خبریں شامل ہوتی ہیں، اس لیے عوام کے ساتھ ساتھ توہم پرستی کا شکار اعلیٰ سرکاری عہدیدار اور حکومتی وزرا اور سیاست دان بھی مدعیان نبوت کے معتقد بن رہے ہیں۔
زمبابوے میں سب سے پہلے نبوت کا دعویٰ عیسائی مبلغ ’’ایمانویل ماکنڈیوا‘‘ (Emmanuel Makandiwa) نے کیا تھا، اپنی شعبدہ بازی کے ذریعے اس نے ہزاروں افراد کو اپنا ’’امتی‘‘ بنایا۔ ماکنڈیلوا ابتدا میں عیسائی مذہب کا بہت بڑا واعظ اور داعی تھا۔ وہ بلا کا چرب زبان اور فصیح و بلیغ مقرر ہے۔ اس لیے اس کی تقریر سن کر لوگ اس کے دیوانے ہوجاتے ہیں۔ پہلے اس کے ’’امتیوں‘‘ کی تعداد 60 ہزار تھی۔ بعد میں ماکنڈیوا نے اپنے امتیوں کا ایک ملک گیر اجتماع منعقد کیا، جس میں ایک لاکھ افراد شریک ہوئے۔ دارالحکومت ہرارے میں ماکنڈیوا نے اپنا بہت بڑا چرچ قائم کیا ہے، رواں سال کے پہلے روز اس نئے مذہب کے پیروکاروں نے ایک جشن منایا، جس کا نام Feast of Resurrection (قیامت کی عید) رکھی گئی۔ اس تقریب میں لاکھوں افراد شریک ہوئے۔ زمبابوے کی تاریخ میں کسی بھی مذہبی اجتماع میں اتنا مجمع نہیں دیکھا گیا۔ یکم جنوری کی رات کو Judgment Night (قیامت کی رات) کے عنوان سے منایا گیا۔ ماکنڈیلوا کے معتقدین میں بڑے بڑے سیاست دان اور سرکاری عہدیدار اور وزرا بھی شامل ہیں، جن میں زمبابوے کے وزیر مواصلات ویبسٹر شامو اور سیاسی جماعت ’’زانو‘‘ کے جنرل سیکریٹری بھی شامل ہیں۔ اسی جماعت سے تعلق رکھنے والے رابرٹ موگابے زمبابوے کے صدر رہے ہیں، جو تین برس قبل فوت ہوگئے۔ جتنے بھی افراد نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے، وہ سب پہلے ماکنڈیلوا کے معتقد تھے۔ نبوت کے دعویدار خود کو عیسائی تعلیمات کا پیروکار قرار دیتے ہیں۔ تاہم وہ مروجہ بائبل کے بجائے Prosperity Gospel (خوشحالی والی انجیل یا انجیل رخائ) کو اپنی مقدس کتاب تسلیم کرتے ہیں اور اسی کی تعلیمات پر کاربند ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ ’’انجیل رخائ‘‘ گزشتہ صدی کے وسط میں امریکہ میں اٹھنے والی ایک عیسائی تحریک نے سامنے لایا تھا۔ اس انجیل میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کلیسا کے کاہنوں کو اگلی صدی میں غیر معمولی اختیارات تفویض کئے جائیں گے اور ان کے متبعین کو بے پناہ مالی فوائد اور روحانی برکات حاصل ہوں گی۔ اس انجیل میں مذہبی پیشوائوں کو شادی کی اجازت کے ساتھ ساتھ ہر خاتون سے جنسی تعلق قائم کرنے کو بھی جائز قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ یہ انجیل اپنے ماننے والوں کو ہر قسم کی آزادی بھی دیتی ہے۔ عیسائیوں کے اس نئے فرقے نے بعد میں International Church of the United family کے نام سے کلیسا کی بنیاد رکھی تھی۔ ایمانویل ماکنڈیوا بھی پہلے امریکہ میں مقیم تھا اور وہ اسی کلیسا کے ایک اہم عہدے پر فائز بھی رہ چکا ہے۔ اس نے زمبابوے میں بھی انجیل رخاء کی تعلیمات کو عام کیا ہے۔ ماکنڈیلوا کو دعوائے نبوت کے بعد اسے بے پناہ شہرت، عزت اور دولت ملی ہے۔ امریکہ سمیت کئی ممالک میں اس کا کاروبار ہے۔ ملک کے بیشتر امیر افراد اس کے مرید یا ’’امتی‘‘ ہیں۔ جبکہ سرکاری طور پر اسے وفاقی وزیر سے بھی بڑھ کر پروٹوکول حاصل ہے۔ اس کو ملنے والی اس شہرت و دولت کو دیکھ کر اس کے مریدوں میں سے کئی افراد نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ چونکہ ماکنڈیلوا سے براہِ راست ’’استفادہ‘‘ کا موقع ہر شخص کو ملنا مشکل ہے۔ اس لیے اب عوام کا زیادہ تر رجحان مقامی ’’نبیوں‘‘ کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ کاہن اور شعبدہ باز افراد غریب لوگوں سے خوب مال بٹور رہے ہیں۔ نبوت کا دعویٰ مالی فوائد کے ساتھ ساتھ شہرت حاصل کرنے کا بھی آسان ذریعہ بن گیا ہے۔ غربت کے ہاتھوں مجبور لوگ اپنے مالی حالات کو سدھارنے کے لیے ان شعبدہ بازوں کے پاس جاتے ہیں اور وہ ہر کام کی منہ مانگی اجرت وصولتے ہیں۔ ادھرعیسائی کلیسا نبوت کے ان جھوٹے دعویداروں کے حوالے سے کافی پریشان ہے۔ اس لیے کہ جھوٹے نبیوں کے سرغنہ ماکنڈیلوا کا دعویٰ ہے کہ اب زمبابوے میں سرکاری طور پر ہمارے چرچ کی حکمرانی ہوگی اور مذہبی اثر و نفوذ کا مرکز بھی یہیں ہوگا۔
زمبابوے کے ایک معروف پادری گوڈین فیری نے خبر رساں ادارے اناضول سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماکنڈیلوا سمیت تمام مدعیان نبوت جھوٹے اور شعبدہ باز ہیں۔ ان کا مقصد لوگوں سے مال بٹورنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست دان اور اعلیٰ سرکاری عہدیدار بھی اپنی اور اپنی پارٹیوں کی ترقی کے لیے ان لوگوں کی طرف رخ کرتے ہیں۔ ادھر ماکنڈیوا کا اثر و رسوخ اتنا بڑھ گیا ہے کہ حکمراں جماعت زانو کے بڑے سے بڑے رہنما بھی اس کے خلاف زبان ہلانے سے ڈرتے ہیں۔ ماکنڈیلوا نے فیس بک پر (Prophet Emmanuel Makandiwa) کے نام سے اکائونٹ کھولا ہے۔ اس صفحے پر خود کو نبی باور کراتے ہوئے اس نے لکھا ہے کہ بعض لوگ نبی (ماکنڈیلوا) کی شان میں ’’گستاخی‘‘ کر رہے ہیں اور وہ سر عام کہہ رہے ہیں کہ وہ شعبدہ باز ہے اور اس کے معجزات میں شک ہے، حالانکہ ’’نبی‘‘ کے بارے میں ایسی باتیں کرنا انتہائی نامناسب ہے۔
ماکنڈیوا نے مزید لکھا ہے کہ ’’نبی (ماکنڈیوا) کو بھی حضرت یسوع مسیحؑ جیسے معجزات دیئے گئے ہیں، (خدا کی پناہ) جس سے اس کا غیر معمولی انسان ہونا ثابت ہوتا ہے۔ جبکہ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ یسوع مسیح میری صورت میں دوبارہ زمین پر آئے ہیں اور ان کے معجزات میرے ہاتھ سے رونما ہورہے ہیں۔ جو شخص معجزات کے اظہار پر قادر ہو، وہ عام انسان نہیں ہوتا۔‘‘ اس نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ مستقبل بھی حضرت مسیحؑ کی طرح مُردوں کو زندہ کرکے دکھائے گا۔ اس حوالے سے اپنے فیس بک کے صفحے پر اس نے کئی ویڈیوز کلپ بھی اپ لوڈ کی ہیں۔ جن میں وہ مختلف قسم کے کرتب دکھاتا ہے اور انہیں اپنا معجزہ قرار دیتا ہے۔ دوسری جانب افریقہ میں ان جھوٹے نبیوں کی بھرمار سے عیسائی کلیسا کے وجود کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ وہ ان کے خلاف کھل کر کچھ کرنے کی پوزیشن میں تو نہیں ہے۔ تاہم سوشل میڈیا اور مذہبی تقریبات میں عیسائی عوام کو ایسے شعبدہ بازوں سے بچنے کی تاکید کی جاتی ہے۔ مسیحی مذہبی شخصیات کا کہنا ہے کہ نبوت کے جھوٹے دعویداروں نے عیسائی مذہب کے عقائد کو مذاق بنا رکھا ہے۔ اس قسم کے دھوکے بازوں نے ماضی میں بھی لوگوں کو بے وقوف بنا کر ان سے مال لوٹتے رہے ہیں۔
ماکنڈیوا کے اپنے قریبی ساتھی جو کہ مسیحی واعظ اور مبلغ ہیں، کا کہنا ہے کہ اس نے متعدد بار لوگوں کے ساتھ فراڈ کر کے رقوم اینٹھی ہیں۔ ہرارے میں واقع زمبابوے کے مرکزی کلیسا کے پادری گوڈین چٹنڈا (Goodwin Chetsinda) نے جھوٹے نبیوں کو واضح الفاظ میں دھمکی دی ہے کہ وہ اپنے دعوئوں سے باز آجائیں، ورنہ ان کے کرتوت میڈیا کے سامنے لائے جائیں گے۔ تاہم اس کے باوجود ہر گزرتے دن کے ساتھ زمبابوے میں جھوٹے نبیوں کے متبعین میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ماکنڈیلوا سمیت جتنے افراد نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا ہے، ان میں سے بیشتر دھوکہ دہی اور خواتین کی عصمت دری سمیت کئی گھناؤے جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں۔ ماکنڈیلوا کے بارے میں ایک شادی شدہ خاتون نے کورٹ میں عصمت دری کا مقدمہ بھی دائر کررکھا ہے، تاہم اس شخص کو حاصل غیر معمولی اثرو رسوخ کے باعث خاتون کو انصاف ملنے کی امید بہت کم ہے۔