پشاور ہائی کورٹ میں سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی ایف آئی اے طلبی کے خلاف درخواست پر عدالت نے ایف آئی اے کو آئندہ سماعت تک انکوائری سے روک دیا۔عدالت نے اسد قیصر کی درخواست پر مختصر فیصلہ جاری کردیا۔
عدالت نے ایف آئی اے سے چھ سوالات کا جواب مانگ لیا، کیا الیکشن کمیشن نے کارروائی کے لیے کوئی ہدایات جاری کی ہے؟ کیا وفاقی حکومت نے ایف آئی اے کو اس کیس میں تحقیقات کا کہا ہے؟
عدالت نے کہا کہ کیا پولیٹکل پارٹی آرڈر 2002 ایف آئی اے کے دائرہ کار میں آتا ہے؟ ایف آئی اے کا طلبی نوٹس بد نیتی اور سیاسی اثر و رسوخ پر مبنی تو نہیں؟۔
بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کمیٹی نے تمام اکاؤنٹس کا ریکارڈ خود چیک کیا، پارٹی نے 13 اکاؤنٹس سے لاتعلقی ظاہر کی، اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کا کارکن تھا اس نے الیکشن کمیشن میں کیس دائر کیا، اس اکاؤنٹ میں سب سے پہلے پیسے خود اکبر ایس بابر نے خود جمع کیے تھے۔
بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ کوئی بھی اکاؤنٹ اسد قیصر کا ذاتی نہیں یہ پارٹی کے صوبائی چیپٹر کے اکاؤنٹس ہیں، الیکشن کمیشن نے ایف آئی اے کو انکوائری کی کوئی ہدایت نہیں دی، ایف آئی اے کے پاس خود سے انکوائری کا کوئی اختیار نہیں، الیکشن کمیشن نے نوٹس دیا ہے وہاں اپنا مقدمہ لڑیں گے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے حکومت کو ہدایت دی اور حکومت اداروں کو ہدایت کرسکتی ہے، ایف آئی اے کے پاس اختیار ہے کہ وہ اکاؤنٹس کے بارے میں انکوائری کرے۔
اسد قیصر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے حکومت کو کوئی ہدایت نہیں کی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل وفاقی حکومت پر مزید بوجھ ڈال رہے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن نے ایف آئی اے کو انکوائری کا حکم دیا ہے؟ کیا الیکشن کمیشن نے وفاقی حکومت کو کارروائی کا حکم دیا ہے؟ عدالت نے سوالات پر ایف آئی اے سے 14 روز میں جواب طلب کرلیا۔