مجھے شوکاز نوٹس دینے والوں کی کوئی حیثیت نہیں- علی زیدی پہلے اپنی کرپشن کا بتائیں-فائل فوٹو 
 مجھے شوکاز نوٹس دینے والوں کی کوئی حیثیت نہیں- علی زیدی پہلے اپنی کرپشن کا بتائیں-فائل فوٹو 

’’لانگ مارچ خونیں ہونے کا معاملہ پارٹی کے اندر بھی اٹھایا تھا‘‘

علی جبران
تحریک انصاف کے رہنما فیصل واوڈا کا کہنا ہے کہ لانگ مارچ کے خونیں ہونے کا معاملہ وہ پارٹی کے اندر بھی اٹھاتے رہے ہیں۔ جبکہ پارٹی کی جانب سے دیئے جانے والے شوکاز نوٹس اور معطلی کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شوکاز دینے والوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ ان سے صرف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سوال کرسکتے ہیں۔

واضح رہے کہ بدھ کے روز فیصل واوڈا نے معروف صحافی ارشد شریف کے قتل سے متعلق پس پردہ حقائق کے حوالے سے ایک تہلکہ خیز پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اس واقعہ میں موجودہ اسٹیبلشمنٹ یا کسی عام سیاسی فرد کا ہاتھ نہیں۔ بلکہ انہیں ان سازشی عناصر نے ایک طے شدہ منصوبے کے تحت نشانہ بنایا۔ جن کے ڈرانے پر وہ ملک چھوڑ کر گئے تھے۔ تاہم انہوں نے ان سازشی عناصر کا نام بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ آنے والے دنوں میں وہ یہ نام بے نقاب کردیں گے۔

پریس کانفرنس کے دوران فیصل واوڈا کا یہ بھی کہنا تھا کہ ارشد شریف کے قتل میں ملوث سازشی عناصر اب پی ٹی آئی کے اعلان کردہ لانگ مارچ میں لاشیں دینا اور خون بہانہ چاہتے ہیں۔
اس پریس کانفرنس کو لے کر ’’امت‘‘ نے فیصل واوڈا سے خصوصی بات چیت کی۔ جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ لانگ مارچ کے خونیں ہونے سے متعلق اپنے خدشات وہ پارٹی اجلاسوں میں بھی بیان کرتے رہے ہیں۔ لیکن ان کے مشوروں پر توجہ نہیں دی گئی۔ اب وہ بلاخوف و خطر، حق و سچ کا علم لے کر میدان میں نکلے ہیں۔ یہاں یہ بتاتے چلیں کہ فیصل واوڈا سے یہ خصوصی گفتگو، ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی چشم کشا پریس کانفرنس سے پہلے کی گئی۔ تاہم اس پریس کانفرنس میں ارشد شریف کے واقعہ سے متعلق بیان کردہ بیشتر حقائق سے فیصل واوڈا کی باتوں کی تصدیق ہوتی ہے۔
جب فیصل واوڈا سے استفسار کیا گیا کہ انہوں نے لانگ مارچ سے متعلق اپنے خدشات کا اظہار کیا پارٹی اجلاسوں میں بھی کیا تھا؟ پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا ’’بالکل میں نے پارٹی کے اندر بھی یہی مشورہ دیا تھا کہ ہمارا احتجاج اگرچہ پرامن ہے۔ لیکن سازشی عناصر اس لانگ مارچ کی آڑ میں خون بہانا چاہتے ہیں اور لاشیں گرانا چاہتے ہیں۔ بعد میں یہ معاملہ ہمارے گلے پڑے گا۔ اگر اس سازش میں ارشد شریف کے بعد ایک بھی اور پاکستانی مرتا ہے تو ہمارے لئے اتنا ہی اہم ہے، جتنا اپنا کوئی قریبی عزیز ہوتا ہے۔ لہٰذا ہم نے مزید جانوں کو ضائع ہونے سے بچانا ہے۔ میں نے پورے خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ پارٹی چیئرمین عمران خان کو یہ مشورہ دیا تھا۔ اگر ان کی جگہ میرے والد ہوتے تو میں ان کو بھی یہی مشورہ دیتا‘‘۔
اس سوال پر کہ پارٹی چیئرمین عمران خان کا کیا ردعمل تھا اور یہ کہ آپ پارٹی میں موجود آستین کے سانپوں کے بارے میں بھی انہیں آگاہ کرتے رہے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ پارٹی کے چیئرمین نے آپ کے مشوروں پر عمل کیوں نہیں کیا اور ان سانپوں کو اب تک کیوں پالا ہوا ہے؟ فیصل واوڈا نے بتایا ’’لانگ مارچ کے بارے میں میرے خدشات پر انہوں (عمران خان) نے یہی کہا کہ تم بڑی سمجھداری کی بات کر رہے ہو۔ یقینا اس کا ہمیں بڑا خیال رکھنا پڑے گا۔ ساتھ ہی یہ حکومت کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ لانگ مارچ کے شرکا کی سیکورٹی کو یقینی بنائے۔ جہاں تک آستین کے سانپوں کا معاملہ ہے تو اس پر صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں، جب وہ (عمران خان) اس کی قیمت چکائیں گے تو پھر میری بات یاد کریں گے۔ میرا کام خلوص نیت سے اپنے سیاسی والد (عمران خان) کو سچ بتانا تھا۔ وہ میں نے بتا دیا۔ اگر وہ نہیں مانتے تو پھر میرا قصور نہیں۔ میں نے اپنا حق ادا کردیا‘‘۔
جب پوچھا گیا کہ حق ادا کرنے کے خمیازے کے طور پر آپ کو شوکاز نوٹس جاری کرکے پارٹی رکنیت معطل کردی گئی ہے۔ تو فیصل واوڈا کا کہنا تھا ’’میں نے کوئی غلط بات نہیں کی۔ صرف حق اور سچ کہا ہے۔ جہاں تک شوکاز نوٹس کی بات ہے۔ علی زیدی اور اسد عمر کو میں نے نہ پہلے کچھ سمجھا ہے اور نہ اب سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ مجھے نوٹس دینے کے بجائے علی زیدی اپنی کرپشن کے بارے میں بتائیں۔ البتہ خان صاحب (عمران خان) پوچھیں گے تو میں سو بار جواب دوں گا۔ وہ پارٹی سے بھی نکالنا چاہیں تو ان کی مرضی ہے‘‘۔
فیصل واوڈا نے ان خبروں کی تصدیق کی کہ انہیں پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے واٹس ایپ گروپ سے نکال دیا گیا ہے۔ ان کے بقول، کام شروع ہوچکا ہے۔ تاہم عزت، ذلت، رزق اور زندگی و موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ کسی بندے کے ہاتھ میں نہیں۔ پارٹی میں آنے سے پہلے ہی ان کے پاس بہت کچھ تھا۔ ان کا رزق پارٹی نہیں، اللہ کی طرف سے ہے۔
اس سوال پر کہ ارشد شریف کے قتل کے بارے میں آپ نے پریس کانفرنس میں جو کچھ کہا۔ اس کی بنیاد معلومات ہے یا آپ کا تجزیہ ہے؟ ۔

فیصل واوڈا کا کہنا تھا ’’وہ (ارشد شریف) میرا دوست تھا۔ مجھ سے رابطے میں تھا۔ اس لئے مجھے بہت کچھ معلوم ہے۔ ان میں سے بہت سی باتوں کی تصدیق میرے موبائل فون سے ہو سکتی ہے۔ اسی لئے میں نے کہا ہے کہ میرا موبائل فون فرانزک کے لئے حاضر ہے۔ وقت آنے پر میں بالکل یہ بھی بتائوں گا کہ ارشد شریف کو کس نے پاکستان سے ڈرا کر بیرون ملک بھیجا۔ کوئی خوف مجھے سازشی عناصر کو بے نقاب کرنے سے نہیں روک سکتا۔ میں اب لڑنے مرنے کے لئے تیار ہوچکا ہوں۔ اور سمجھتا ہوں کہ یہ تماشا اب بند ہونا چاہئے۔ ارشد شریف کے قتل کو حادثے کا رنگ دینا، اس کے بچوں کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ وہ ایک جواں مرد آدمی تھا۔ آج جو کچھ ارشد شریف کے ساتھ ہوا۔ کل وہ کسی اور کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ لہٰذا میرا چپ رہنا ممکن نہیں‘‘۔
اس سوال پر کہ سازشی عناصر کے نام کب منظر عام پر لائیں گے۔ آپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ارشد شریف کے قتل کے پیچھے نہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ ہے اور نہ عام سیاسی لوگ اس میں ملوث ہیں۔ بلکہ اصل بینیفشری وہ ہیں جو اپنے ذاتی عزائم کی تکمیل چاہتے ہیں۔ قوم جلد سے جلد جاننا چاہتی ہے کہ یہ بینیفشری کون ہیں؟ فیصل واوڈا نے کہا ’’اپنی پریس کانفرنس میں یہی سوال تو میں نے اٹھایا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ میری پریس کانفرنس کے بعد یہ نام کھلتے ہیں یا یہ بھی مجھے آکر بتانا پڑے گا۔ اگر بتانا پڑا تو میں ضرور بتائوں گا کہ مجھے کسی کا ڈر نہیں۔ بات اب اس طرف چل پڑی ہے کہ پانی کے بہائو کی طرح اپنا راستہ خود بناتی چلی جائے گی۔ میں زیادہ سے زیادہ دو چار دن اور انتظار کروں گا۔ پھر میں ارشد شریف کے قتل سے جڑے کچھ مزید حقائق سامنے لائوں گا۔ اس کے بعد بھی اصل نام سامنے نہیں آئے تو ارشد شریف کے قتل کے بینیفشری (فائدہ اٹھانے والا) کا نام میں خود سامنے لے آئوں گا‘‘۔

فیصل واوڈا سے جب استفسار کیا گیا کہ آپ کی پریس کانفرنس کے بارے میں تاثر دیا جارہا ہے کہ وہ طے شدہ تھی، اور یہ کہ نون لیگ یا حکومت اس کے پیچھے تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پوری پریس کانفرنس سرکاری ٹی وی پر بھی براہ راست دکھائی گئی؟ فیصل واوڈا کے بقول یہ بات وہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ اپنے سیاسی مخالفین سے نفرت کرتے تھے اور کرتے رہیں گے۔ اب اگر حقائق پر مبنی ان کی ایک سچی پریس کانفرنس حکومت کو سوٹ کرتی ہے، اور وہ اس کو براہ راست دکھاتی ہے، اور ایکسپلائٹ کرتی ہے تو یہ سیاست میں ہوتا ہے۔ انہیں تو پریس کانفرنس کے دوران پتہ چلا کہ پی ٹی وی پر بھی پریس کانفرنس، براہ راست دکھائی جارہی ہے۔ دراصل ان کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ کیونکہ پریس کانفرنس کا موضوع ارشد شریف کا قتل تھا۔ اس لئے سب نے براہ راست پریس کانفرنس دکھائی۔ کہنے کا مقصد ہے کہ اہمیت موضوع کی تھی، ان کی نہیں۔