دارالحکومت میں بھی صورتحال 24 گھنٹوں کے اندر معمول پر آجائے گی- ذرائع-فائل فوٹو
 دارالحکومت میں بھی صورتحال 24 گھنٹوں کے اندر معمول پر آجائے گی- ذرائع-فائل فوٹو

مٹھی بھر مظاہرین نے وفاقی دارالحکومت کو یرغمال بنا لیا

امت رپورٹ/ احمد خلیل جازم/ نواز طاہر:
عمران خان نے اسلام آباد کے علاوہ باقی شہروں میں احتجاج ختم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ تحریک انصاف کے مٹھی بھر کارکنوں نے احتجاج کے نام پر پچھلے دو دن سے تمام داخلی و خارجی راستے بند کر کے وفاقی دارالحکومت کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ منگل کی رات اس رپورٹ کے فائل کرنے تک درجن بھر افراد پر مشتمل ٹولیوں نے راولپنڈی کے بیشتر مقامات پر راستے بدستور بند رکھے ہوئے تھے۔ اسی طرح اسلام آباد کے داخلی و خارجی راستوں کی بندش بھی برقرار تھی۔
وفاقی دارالحکومت میں موجود اہم ذرائع کے بقول عمران خان کی جانب سے مختلف شہروں میں احتجاج ختم کرنے کی ہدایت کے بعد آئندہ چوبیس گھنٹوں میں اسلام آباد کا محاصرہ ختم کرنے کا اعلان بھی متوقع ہے۔ کیونکہ پی ٹی آئی قیادت کو خاموش پیغام دے دیا گیا ہے کہ شہریوں کو پریشان کر کے مزید بد امنی پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ جس کے بعد ہی عمران خان کی جانب سے ماسوائے اسلام آباد کے باقی شہروں میں احتجاج ختم کرنے کا ہدایت نامہ جاری ہوا۔ بظاہر انہوں نے اپنے بیان میں اس کا سبب عوام کو درپیش مشکلات بتایا ہے۔ اگلے مرحلے میں چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے اسلام آباد کا محاصرہ ختم کرنے کا اعلان متوقع ہے۔ ذرائع کے مطابق ایک پیغام میں پنجاب حکومت کو بھی انتباہ کیا گیا کہ اہم شاہراہوں کو بلاک کر کے شہریوں کی نقل و حمل روکنا آئین کی مختلف شقوں کی خلاف ورزی ہے۔ لہٰذا پولیس کے ذریعے مظاہرین کو فوری منتشر کرا کے راستے کھولے جائیں۔ ورنہ نتائج بھگتنے ہوں گے۔ یوں ایک بار پھر وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ جو انہیں وزیر آباد حملے کی ایف آئی آر سے متعلق درپیش تھی۔ ذرائع کا دعویٰ تھا کہ آئندہ چوبیس گھنٹوں میں جڑواں شہروں میں صورتحال معمول پر آنے کا امکان ہے۔ اگر وفاقی دارالحکومت کا محاصرہ مزید جاری رکھا گیا تو پھر وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کو مجبوراً پولیس کو حرکت میں لانا پڑے گا۔ اس سے انہوں نے عمران خان کو آگاہ کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ بھی انتباہ کر چکے ہیں کہ خیبرپختونخوا اور پنجاب کی صوبائی حکومتیں شاہراہیں کھلوانے کے لئے اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ ورنہ سنگین آئینی نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ دوسری جانب وفاقی حکومت نے خیبرپختونخوا اور پنجاب حکومت کے چیف سیکریٹریز کو دوسری بار خط لکھ کر کہا کہ راستے بند کرنے والے مظاہرین کو فوری ہٹایا جائے۔ تاکہ لوگوں کی آمدورفت ہو سکے۔ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومتیں آئینی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہو رہی ہیں۔ حالات کنٹرول کرنے کے بجائے پولیس تماشائی بنی ہوئی ہے۔ چھوٹے گروپس، موٹر وے، ہائی وے اور لنک روڈ بند کر کے لوگوں کی آمدورفت، سامان کی ترسیل میں رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں۔ بچے اسکول جانے سے قاصر ہیں۔
یاد رہے کہ دو روز قبل پرویز خٹک نے اعلان کیا تھا کہ پی ٹی آئی اسلام آباد کے تمام داخلی و خارجی راستے بند کر دے گی۔ اس کے بعد سے جڑواں شہروں میں صورتحال ابتر ہے۔ چند درجن مظاہرین کی جانب سے موٹر وے ایم ون، ایم ٹو اور جی ٹی روڈ بند کر دیئے گئے۔ پنجاب میں چونکہ پی ٹی آئی کے اتحادی وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کی حکومت ہے۔ لہٰذا پولیس نہ صرف خاموش تماشائی ہے۔ بلکہ مبینہ طور پر مظاہرین کو پولیس کی سرپرستی حاصل ہے۔ اب تک لاکھوں شہری، جن میں بزرگ، خواتین، بچے اور مریض شامل ہیں۔ ان مٹھی بھر مظاہرین کے احتجاج کے سبب بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اسکول بند، کئی امتحانی پرچے ملتوی اور لوگ دفاتر جانے سے قاصر ہیں۔ مظاہرین نے چونکہ اسلام آباد آنے اور جانے والے تمام راستوں کو بند کر رکھا ہے۔ لہٰذا اس محاصرے کے نتیجے میں وفاقی دارالحکومت میں داخلہ تقریباً ناممکن ہے۔ جبکہ ٹریفک جام میں متعدد ایمبولینسیں بھی پھنسی رہیں۔
اسلام آباد سے نمائندہ ’’امت ‘‘ کے مطابق تحریک انصاف کے کارکنان کے مظاہروں کی وجہ سے جڑواں شہروں، راولپنڈی اور اسلام آباد کے مکین شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ مری روڈ کی بندش اور شمس آباد میں مظاہرین کی جانب سے سڑک بند کرنے کے سبب آمدورفت معطل رہی۔ خاص طور پر طلبا، مریضوں اور ملازم پیشہ خواتین کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لوکل ٹرانسپورٹ کے ساتھ پرائیویٹ گاڑیاں بھی سڑکوں سے غائب رہیں۔ اس کے نتیجے میں راولپنڈی سے اسلام آباد جانے والے سینکڑوں افراد رات گئے تک پھنسے رہے۔ منگل کی رات تک مری روڈ مکمل بند تھا۔ جبکہ فیض آباد کے مقام پر بھی پی ٹی آئی کے درجن بھر کارکنان نے راستے بند کر رکھے تھے۔ لوگ سامان اٹھائے میلوں پیدل چلنے پر مجبور تھے۔ سڑکیں بدستور سنسان رہیں۔ البتہ صرف پی ٹی آئی کے جھنڈے اور اسٹکرز والی گاڑیاں شاہراہ پر دکھائی دیں۔ اس دوران اگلے دو روز تک انتظامیہ نے راولپنڈی کے اسکول اور دیگر تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کیا۔ منگل کو ایم ٹو موٹر وے پر دوسرے روز بھی احتجاج جاری رہا۔ جس کے باعث اسلام آباد ایئرپورٹ جانے والے مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مظاہرین نے موٹر وے کے اطراف میں لگی جھاڑیاں اور درخت جلا ڈالے۔ مری روڈ اورایم ٹو موٹر وے دونوں اطراف سے بند کرکے خیمے لگا دیئے گئے تھے۔
جڑواں شہروں کو ملانے والی اسّی فیصد شاہراہوں پر ٹولیوں پر مشتمل پی ٹی آئی کارکنان نے احتجاج کیا۔ ٹریفک جام ہونے سے شاہراوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں جن میں ایمبولینسیں بھی پھنسی رہیں۔
اس موقع پر لوگوں نے پنجاب پولیس اور خاص طور پر پنڈی پولیس کے رویے پر سوالیہ نشان اٹھائے۔ جو اس ساری صورتحال سے لاتعلق رہی۔ پولیس کے سامنے چند درجن کارکنان املاک کو نقصان پہنچاتے رہے۔ ٹائر جلاتے رہے اور درخت کاٹ کر اہم شاہراہیں بند کرتے رہے۔ کئی مقامات پر مظاہرین نے خواتین سمیت مختلف شہریوں سے بدتمیزی بھی کی۔
ایک سے زائد شہریوں نے ’امت‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کارکنوں کو کھلی چھوٹ دینے سے متعلق راولپنڈی پولیس کا رویہ شرمناک ہے۔
دوسری جانب منگل کے روز اسلام آباد کے اندر تمام سڑکیں پورا دن کھلی رہیں۔ تاہم وفاقی دارالحکومت کے بین الاضلاعی راستے بند رہے۔ پشاور موٹر وے اور لاہور موٹر وے کو کئی جگہ سے بند کیا گیا۔ اسی طرح مری روڈ پر شامیانے لگا کر سڑک بند رکھی گئی۔ اس دوران پی ٹی آئی کے کارکنان موٹر وے پر کرکٹ کھیلتے رہے۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے ایم ٹو، نزد اسلام آباد ٹول پلازہ سے ٹریفک کا رُخ موڑ کر ٹھلیاں انٹرچینج کی طرف کر دیا تھا۔ اسی طرح کورال انٹر چینج سے راولپنڈی جانے والے پرانے ایئرپورٹ روڈ کے راستوں کو اسلام آباد ایکسپریس وے کی طرف موڑ دیا گیا تھا۔ اسی طرح آئی جے پی روڈ اور پشاور روڈ کے سنگم پر ٹریفک کے لیے متبادل راستے کھولے گئے تھے۔
لاہور سے نمائندہ ’’امت‘‘ کے مطابق پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے کوشش کی جارہی ہے کہ کسی طرح حالات خراب کرکے اگر مارشل لا نہیں تو کم از کم ایمرجنسی کا راستہ ہموار کر دیا جائے۔ تاکہ ملک میں سیاسی استحکام نہ آسکے۔ ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں کو تحریری طور پر سادہ زبان میں اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کا کہا ہے۔ تاہم اسے ایک انتباہ کے طور پر لینا ہوگا۔ اگر صوبائی حکومتوں نے آئین کے تحت اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کیں تو شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے کیلئے ممکنہ طور پر اگلے ہفتے میں وفاقی حکومت آئین کے تحت حاصل اختیارات استعمال کر سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں گورنر راج لگایا جا سکتا ہے۔ شاید اسی تپش کو محسوس کرتے ہوئے عمران خان نے پہلے مرحلے میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج ختم کرنے کی ہدایت کی اوراگلے مرحلے میں وہ اپنے کارکنوں کو اسلام آباد کا محاصرہ ختم کرنے کی ہدایت بھی کرسکتے ہیں۔

اس حوالے سے بزرگ سیاستدان اور قانون دان احسان وائیں کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے آئین کے اندر رہتے ہوئے صوبائی حکومتوں کو اپنی ذمے داری ادا کرنے کے بارے میں باور کرایا ہے۔ اگر صوبائی حکومتیں اس پرعمل نہیں کرتیں تو پھر واحد راستہ گورنر راج ہے اور وہ لگ سکتا ہے۔ کیونکہ اس کی آئین میں گنجائش موجود ہے۔ ایک سوال پراحسان وائیں کا کہنا تھا کہ دو صوبوں میں پولیس کی مدد سے چند سو افراد کو اکٹھا کرکے راستے اور کاوبار بند کیے جارہے ہیں۔ احتجاج کرنا لوگوں کا حق ہے۔ لیکن یہی حق آئین عام شہریوں کو بھی دیتا ہے۔ جن کی زندگی احتجاج کے نام پر مشکل بنادی گئی۔