’’اسلام آباد میں دھرنے کا آپشن بھی زیرِغور‘‘

نواز طاہر/ احمد خلیل جازم
تحریکِ انصاف کا لانگ مارچ اگلے ہفتے حتمی مرحلے میں داخل ہوگا۔ جس کے بعد حالات کا جائزہ لے کر دھرنے کا فیصلہ بھی ہو سکتا ہے۔ آج عمران خان راولپنڈی پہنچنے کی اگلے ہفتے کی تاریخ کا اعلان کریں گے اور اس کا لائحہ عمل دیں گے۔ جبکہ حکومت نے بھی اسلام آباد میں غیر متعینہ جگہ پر جلسے اور دھرنے سے روکنے کیلئے مشاورت شروع کردی ہے۔ جس میں ممکنہ طور پر صدر عارف علوی بھی کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں۔
یاد رہے کہ تین نومبرکولانگ مارچ وزیر آباد کے اللہ والا چوک میں فائرنگ کے بعد بکھر گیا ہے اور عمران خان تب سے اپنے آبائی گھر میں مقیم ہیں۔ لیکن لانگ مارچ راستے اور شہر بدل کر مختلف علاقوں میں جاری ہے اور اب ان تمام جلسوں اور ملک کے دیگر علاقوں سے ایک بڑے اجتماع کی شکل میں راولپنڈی جمع ہوکر اسلام آباد پہنچنے کی پلاننگ جاری ہے۔ جمعہ کو وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی کی قیادت میں مرکزی روٹ جی ٹی روڈ پر گوجر خان اور سیکریٹری جنرل اسد عمر کی قیادت میں جی ٹی روڈ کے شمال مغربی شہر چکوال میں جلسے ہوئے۔ جن میں کارکنوں کو بھر پور تیاری کے ساتھ اسلام آباد پہنچنے کی تلقین کی گئی۔ جبکہ پی ٹی آئی کی صوبائی، ڈویژنل اور مقامی تنظیمیوں کو حتمی تیاری کی ہدایت کردی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق عمران خان نے خیبر پختون سے چلنے والے قافلے کے بارے میں مکمل بریفنگ لینے کے بعد سندھ میں لانگ مارچ موبلائزیشن کے بارے میں بھی بریفنگ لی۔ جس کے دوران انہیں یقین دلایا گیا کہ سندھ کے مختلف علاقوں سے ہزاروں افراد راولپنڈی پہنچنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں اور کال کے منتظر ہیں۔ سندھ اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف علیم عادل شیخ نے دعویٰ کیا ہے کہ سندھ کے مختلف اضلاع سے بیس سے تیس ہزار کارکن راولپنڈی میں عمران خان کے شانہ بشانہ ہوںگے۔ جبکہ سندھ حکومت ان کارکنوں کو روکنے کیلیے کئی ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے اور انہیں پریشان اور سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔

ذرائع کے مطابق عمران خان کا آٹھ دس روز میں درد کم ہوجائے گا اور وہ’ موو‘ کرنے کی پوزیشن میں ہوںگے۔ لیکن اس کا انحصار ڈاکٹروں کی رائے سے مشروط ہے۔ جبکہ وہ ڈاکڑوں کو بتا چکے ہیں کہ درد کم ہونے پر وہ زیادہ دیر تک بستر پر نہیں رہنا چاہتے۔ ان ذرائع کے مطابق عمران خان آج روات میں پی ٹی آئی کے لانگ مارچ جلسے سے خطاب میں کریں گے اور ممکنہ طور پر اگلے ہفتے کے وسط کی تاریخ دے سکتے ہیں۔ جب تحریکِ انصاف کے مختلف رہنمائوں اور اراکین اسمبلی سے رابطہ کیا گیا تو ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں بتا سکا کہ عمران خان کون سی تاریخ دینے والے ہیں اور وہ سب چیئرمین کے اعلان کے منتظر ہیں۔ ان میں سے کچھ اراکین نے اسلام آباد میں ممکنہ دھرنے کا بھی اشارہ دیا ہے۔ کچھ اراکینِ پنجاب اسمبلی نے تصدیق کی کہ پیر کے روز پنجاب اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر بھی لانگ مارچ کے حوالے سے اہم مشاورت ہوگی، جو اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ عمران خان ممکنہ طور پر منگل بائیس نومبر کے بعد کی کسی تاریخ کا اعلان کرسکتے ہیں۔
ادھر وفاقی حکومت نے عدالتی کارروائی کے ساتھ ساتھ انتظامی طور پر بھی پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں غیر مجاز جگہ مقام تک پہنچنے سے روکنے کی نئی پلاننگ پر کام شروع کردیا ہے۔ اس ضمن میں ذرائع نے بتایا ہے کہ صدر ممکت ڈاکٹرعارف علوی اپنے جماعت کو اسلام آباد میں حساس علاقے میں داخل ہونے سے باز رہنے میںکردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس کا اشارہ وہ مخصوص با اختیار حلقوں کو دے بھی دے چکے ہیں۔
دوسری جانب سپریم کورٹ آف پاکستان نے پی ٹی آئی لانگ مارچ کے خلاف سینیٹر کامران مرتضیٰ کی درخواست غیر مو ثر ہونے پر نمٹا دی ہے۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ، جس کی سربراہی چیف جسٹس سپریم کورٹ کررہے تھے، نے کہا کہ اگر حالات خراب ہوئے تو نئی درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔ جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ روز پی ٹی آئی سے کہا کہ اسے اسلام آباد میں جلسہ کرنا ہے تو وہ انتظامیہ کو نئی درخواست دے۔ پی ٹی آئی کے جلسے اور دھرنے کے لیے این او سی کے اجرا کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جس جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں ہوئی۔ دوران سماعت عمران خان پر جلسے کے دوران حملے کے خدشے کے حوالے سے رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔ یہ رپورٹ انٹیلی جنس ادارے کی طرف سے وفاق کو پیش کی گئی تھی۔ اسی عدالت میں اس سے پہلے رواں ماہ اسلام آباد کے شہریوں اور تاجروں کی طرف سے بھی ایک درخواست پیش ہوچکی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ عام سڑکوں کی بندش سے آدمی کی زندگی اجیرن ہوکر رہ گئی ہے۔ اسلام آباد کے تاجر اور شہری سڑکوں کی بندش اور لانگ مارچ کے پیش نظر وفاقی حکومت کی جانب سے سخت سیکورٹی کی وجہ سے اپنے گھروں میں محصور ہو چکے ہیں۔
سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان درخواستوں اور لانگ مارچ کے حق و محالفت میں ایک تسلسل سے کارروائیاں اور درخواستیں دی جا رہی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’اس سب کے بیچ، عمران خان لانگ مارچ اور دھرنے کا پلان مکمل کرکے بیٹھے ہیں۔ بظاہر تو یوں دکھائی دیتا ہے کہ وہ لانگ مارچ موخر یا معطل کرچکے ہیں۔ یہ بھی تصور ابھر رہا ہے کہ لانگ مارچ فیل ہوچکا ہے۔ لیکن کچھ ایسی قوتیں ہیں جو عمران خان کو ہر حال میں لانگ مارچ اور دھرنے پر مائل اور قائل کر چکی ہیں۔ اس میں ان قوتوں کے کیا فوائد ہیں؟ یہ ابھی تک تو بظاہر واضح نہیں ہے۔ لیکن اس کے پس پشت عوامل یہی ہیں کہ آرمی چیف کی تعیناتی سب سے اہم معاملہ ہے، جسے تحریک انصاف اور ان کی حامی قوتیں ہر حال میں موجودہ حکومت کو اتنی آسانی سے حل نہیں کرنے دیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک جانب عدالتوں میں لانگ مارچ کے معاملے پر درخواستیں دی جا رہی ہیں۔ جب کہ دوسری جانب قاتلانہ حملوں کے شبہات کے باوجود عمران خان نے پنڈی پہنچنے کا اعلان کردیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو صرف عدالت سے ایک خوف ہے کہ 25 مئی کے لانگ مارچ کے موقع پر عدالتی حکم نہ مان کر توہین عدالت کا ارتکاب کیا گیا، جس کی سماعت بھی گزشتہ روز ہوئی اور اس پر وزارت داخلہ نے شواہد جمع کرائے۔ اس کیس کا فیصلہ بھی لانگ مارچ اور دھرنے پربہت زیادہ اثرات ڈالے گا۔ عمران خان اور تحریک انصاف کی سینئر قیادت ابھی اس کیس پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہے۔

توہین عدالت کیس جواگلے ہفتے تک سماعت ملتوی ہونے کی وجہ سے آگے بڑھ گیا ہے، اس میں عمران خان کے تفصیلی جواب پر عدالت کیا کہتی ہے؟ یہ عدالت پر منحصر ہے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ عمران خان جلد از جلد راولپنڈی پہنچنا چاہتے ہیں اور موجودہ حکومت کوا تنا وقت نہیں دینا چاہتے کہ وہ آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرے۔ کیونکہ جہلم پہنچنے پر عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ جب مارچ پنڈی پہنچے گا تو اس کی قیادت خود کریں گے۔ یعنی تحریک انصاف کسی صورت ابھی تک لانگ مارچ یا دھرنے سے پیچھے نہیں ہٹ رہی۔ اس سوال پر کہ کہیں دھرنے اور لانگ مارچ کے صرف دعوے تو نہیں کہ پس پردہ عمران خان کسی ڈیل کے انتظار میں ہوں؟ تو ذرائع نے بتایا کہ ڈیل کا وقت گزر چکا ہے۔ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کافی بگاڑ پیدا کرلیا ہے۔ جوش خطابت میں انہوں نے ایسی باتیں بھی کردیں کہ ڈیل کی باتیں اب ہوتی دکھائی نہیں دیتیں۔ اگر ڈیل کا احتمال بھی ہوتا تو وہ لانگ مارچ اور پنڈی سے اس کی قیادت کی بات اس زور و شور سے نہ کرتے۔ شاید اسی لیے وفاقی حکومت بھی مطمئن ہے اور وفاقی دارالحکومت میں سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات کیے بیٹھی ہے۔ جب کہ تحریک انصاف، اسٹبلشمنٹ سے تقریباً نا امید ہوکرعدالتوں سے رجوع کرچکی ہے کہ کسی طرح اسے عدالتوں سے ریلف ملے اور وہ ایک بار اسلام آباد داخلے کا اجازت نامہ حاصل کرلے۔ باقی مقاصد وہ اسلام آباد جاکر حاصل کرنے کا پلان بنائے بیٹھے ہیں۔ یہ پلان کیا ہے؟ ہوسکتا ہے کہ چند روز میں اس کی جھلکیاں بھی قوم کے سامنے آجائیں۔