کراچی میں غیر قانونی پارکنگ سے کروڑوں کی بھتہ وصولی

نمائندگان امت:
کراچی میں 150 سے زائد غیر قانونی پارکنگ سے کروڑوں روپے بھتہ وصول کیا جا رہا ہے۔ شہر بھر میں قانونی و غیر قانونی چارجڈ پارکنگ سے اضافی وصولیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ ڈبل پارکنگ سے ٹھیکیداروں کی چاندی ہوگئی۔ 10 کی جگہ 30 اور 30 کی جگہ 100 روپے فی کس وصول کیے جارہے ہیں۔7 لاکھ روپے ماہانہ کے عوض ایک ہی ٹھیکیدار کو 31 سائٹ الاٹ کردی گئیں۔ پارکنگ مافیا نے کے ایم سی اور کنٹونمنٹ کی ملی بھگت سے عدالتی احکامات نظراندازکردیے۔ شہریوں سے اضافی لوٹ مار پر متعلقہ اداروں نے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے۔ پارکنگ چارجزادا کرنے کے باوجود موٹر سائیکلوں کی چوریاں بڑھ گئیں۔
کراچی میں پارکنگ مافیا بے لگام ہوگئی ہے۔ شہر کی مرکزی شاہراہوں، بازاروں، اسکولوں، اسپتالوں اور پوش علاقوں سمیت جدید شاپنگ مالز پر بھی پارکنگ مافیا کا شکنجہ مضبوط سے مضبوط تر ہوگیا ہے۔ شہر کے قومی و غیر ملکی بینکوں کے باہر بھی مافیا نے شہریوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے پارکنگ کیلئے مختص جگہ سے تجاوز سمیت مقرر کردہ پارکنگ فیس میں بھی من مانے اضافے کر دیے گئے۔ شہر کے مصروف ترین بازاروں میں ضلعی انتظامیہ کے زیر انتظام چلنے والی پارکنگ سائٹس سے گاڑیاں چوری ہونے کی وارداتیں بھی عام ہیں۔ بیشتر مصروف پارکنگ سائٹس پر دوسرے ضلع کی پارکنگ سلپ دیکر شہریوں کی گاڑیاں اڑانے والے گروہ کی جانب سے ضلعی انتظامیہ کی چشم پوشی بھی انتظامی شفافیت پر سوالیہ نشان بن گئی ہے۔

ضلعی میونسپل کارپوریشن جنوبی نے من پسند ٹھیکیدار کو خوش کرنے کیلئے کنٹونمنٹ کے علاقوں میں بھی چارجڈ پارکنگ قائم کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ گزشتہ برس 19 سائٹس کی مد میں 7 لاکھ روپے ماہانہ رشوت ڈی ایم سی جنوبی کو جاتی تھی۔ اس باراسی ٹھیکیدار کو 31 سائٹ سے نوازا گیا۔ عدالتی احکامات کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ریکس سینٹر صدر کے سامنے فٹ پاتھ پر موٹر سائیکلوں کی پارکنگ قائم کی گئی۔

’’امت‘‘ کو فٹ پاتھ پر موٹر سائیکل پارک کرنے پر ڈی ایم سی ساؤتھ کی پارکنگ فیس پرچی دی گئی۔ ڈی ایم سی کی جانب سے جاری منظور شدہ پارکنگ سائٹس کی فہرست کے مطابق مذکورہ پارکنگ کا ٹھیکیدار بھی محمود نامی ٹھیکیدار نکلا۔ 2020ء سے 2022ء تک چارجڈ پارکنگ کے ٹھیکوں کی نیلامی نہ ہونے کے باوجود ضلع جنوبی کے بیشتر پارکنگ کے ٹھیکوں سے ایک ہی ٹھیکیدار کو نوازا جاتا رہا ہے۔ اس ضمن میں ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ضلع جنوبی میں قائم منظور شدہ 65 چارجڈ پارکنگ میں سے 31 پارکنگ سائٹس سے عزیز الرحمٰن نامی ٹھیکیدار کو نوازنے کی وجہ مذکورہ ٹھیکیدار کے سیاسی تعلقات کے ساتھ ساتھ اس کی جانب سے ڈی ایم سی افسران کو منہ مانگی رشوت کی ادائیگیاں بھی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ برس مذکورہ ٹھیکیدار کے پاس 19 پارکنگ سائٹس تھیں۔ جن کی مد میں وہ ڈی ایم سی افسران کو 7 لاکھ روپے ماہانہ رشوت دیتا رہا۔ بعد ازاں 19 سائٹس کی مد میں وصول کی جانے والی رشوت کا سلسلہ بخیر و خوبی اپنے انجام کو پہنچا تو عزیز نامی اس ٹھیکیدار نے گزشتہ برس کے ٹھیکوں کو اپنے حق میں رکھنے کیلئے 20 لاکھ روپے رشوت کی مد میں میونسپل کمشنر جنوبی کو ادا کیے۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ ٹھیکیدار ضلع جنوبی میں قائم 65 چارجڈ پارکنگ میں سے 31 پارکنگ سائٹس کا مالک بن گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عزیز الرحمن نامی پارکنگ مافیا کے سرغنہ کے ضلع جنوبی کے میونسپل کمشنر و ایڈمنسٹریٹر سے معاملات طے ہوئے۔ جس کی درمیانی کڑی ڈی ایم سی ساؤتھ کا معطل افسر تنویر بنا تھا۔ اسی سبب گزشتہ سال بھی ٹھیکوں کے چالان جمع کرانے والے ٹھیکیداروں کو قانونی طور پارکنگ سائٹس کا چارج ہی نہیں دیا گیا۔ میونسپل کمشنر جنوبی کے من پسند ٹھیکیدار کی من مانیوں کا یہ عالم ہے کہ صدر کے مصروف بازار ریکس سینٹر فاطمہ جناح روڈ پر جو کنٹونمنٹ بورڈ کی حدود میں آتا ہے، نہ صرف عدالتی احکامات کے بر خلاف فٹ پاتھ پر موٹر سائیکلوں کی پارکنگ چلا رہا ہے۔ بلکہ پارک کی جانے والی موٹر سائیکلوں کے مالکان کو ڈی ایم سی ساؤتھ کی چارجڈ پارکنگ کی 20 روپے کی فیس والی پرچی بھی دی جارہی ہے۔
دوسری جانب ضلع جنوبی کی حدود میں ہی مصروف ترین شاہراہ پر خلاف قانون ہونے والی پارکنگ پر ٹریفک پولیس کی خاموشی بھی ٹریفک پولیس کی ایمانداری پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اس ضمن میں ٹریفک پولیس اہلکاروں کا کہنا ہے کہ وسائل کم ہیں، جہاں ڈبل پارکنگ ہوتی ہے وہاں سے وقتاً فوقتاً موٹر سائیکلیں ضبط کرتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹریفک پولیس چارجڈ پارکنگ مافیا سے ملی ہوئی ہے۔ مذکورہ پارکنگ ہو یا جنوبی میں قائم دیگر پارکنگ، ہر سائٹ سے ٹریفک پولیس اور آپریشنل پولیس کو مبینہ طور پر ہفتہ دیا جاتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ پارکنگ سے ٹریفک پولیس عبداللہ ہارون روڈ سیکشن کو ہفتہ 20 ہزار روپے، جبکہ آرٹلری تھانہ کی آپریشن پولیس کو 15 ہزار روپے جاتا ہے۔ جس کیلئے ٹریفک پولیس کا بندہ ہفتہ وار ریکوری کرنے آتا ہے۔ اس حوالے سے ’’امت‘‘ نے ایس او عبداللہ ہارون روڈ ٹریفک سیکشن سے استفار کیا تو ان کا کہنا تھا کہ پارکنگ کی بے قاعدگیوں پر قانونی طور پر جو ضروری کارروائیاں ہیں وہ ہم مسلسل کرتے ہیں۔
’’امت‘‘ کو ذرائع نے بتایا کہ کئی سائٹ کا ٹھیکیدار عزیز ڈی ایم سی کے خلاف عدالت چلا گیا تھا۔ سول سوٹ فائل کرنے کے بعد اسے جنوبی کی بیشتر سائٹس دے دی گئیں۔ تاہم اگست 2020ء کے بعد سے تاحال مذکورہ سوٹ پر قابل ذکر سنوائی ہی نہیں ہوئی۔ البتہ فریقین کو 2 بار نوٹسز جاری کئے گئے ہیں۔ عزیز الرحمٰن نے سول سوٹ کو ہتھیار بناتے ہوئے خودساختہ اسٹے آرڈر کو بنیاد بناکر میونسپل کمشنر جنوبی کی سرپرستی میں چارجڈ پارکنگ کے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے رکھے ہیں۔
ادھر صدر کے مصروف بازار و شاپنگ سینٹر کے سامنے ٹریفک پولیس کی جانب سے ڈبل پارکنگ قانوناً جرم ہونے بورڈ کے باوجود ڈبل لائن پارکنگ کی طویل قطاریں لگا دی گئی ہیں۔ مصروف ترین بازار میں دن بھر موجود رہنے والے ٹریفک پولیس اہلکاروں کی موجودگی کے باوجود پارکنگ مافیا من مانی میں آزاد ہے۔ اس حوالے سے ’’امت‘‘ نے جب صدر کے مصروف ترین بازار زینب مارکیٹ کے عقب میں ریکس سینٹر نامی شاپنگ سینٹر کا وزٹ کیا تو مشاہدے میں آیا کہ ایٹریم مال سے ریکس سینٹر تک جانے والی فاطمہ جناح روڈ پر دونوں جانب موٹر سائیکلوں کی ڈبل لائن اور کہیں 3 لائنوں میں پارکنگ کی گئی ہے۔ ’’امت‘‘ سروے میں دیکھنے میں آیا کہ ایک جانب تو نہ صرف ڈی ایم سی جنوبی کی جانب سے منظور شدہ اس چارجڈ پارکنگ سائیڈ پر خلاف قانون سنگل لائن کے علاوہ بھی پارکنگ کی گئی ہے۔ بلکہ ریکس سینٹر کے سامنے موجود طویل فٹ پاتھ جو کنٹونمنٹ بورڈ کی حدود میں آتا ہے، پر موٹر سائیکلوں کی طویل پارکنگ قائم ہے۔ ’’امت‘‘ نے جب مذکورہ فٹ پاتھ پر موٹر سائیکل پارک کی تو پارکنگ کی مد میں 20 روپے وصول کیے گئے اور اس کے بدلے میں ڈی ایم ساؤتھ کی چارجڈ پارکنگ کی پرچی بھی دی گئی۔
شہر بھر میں سب سے زیادہ ڈبل پارکنگ ضلع جنوبی کے علاقوں میں ہے۔ جن میں عبداللہ ہارون روڈ کی مرکزی سڑک کے دونوں اطراف، جبکہ لائٹ ہاؤس کے ایم سی بلڈنگ کے بالمقابل قائم پارکنگ سمیت ایم اے جناح روڈ سے ٹاور، اولڈ سٹی ایریا اور ٹمبر مارکیٹ تک کی سڑکیں بھی پارکنگ سے گھری ہوئی ہیں۔ دوسری جانب طارق روڈ سے بہادر آباد تک اورگلشن اقبال کی مرکزی و کاروباری مراکز کی سڑکیں بھی پارکنگ کے عذاب کا شکار ہیں۔

بلدیہ عظمیٰ کراچی کے اعداد و شمار کے مطابق چارجڈ پارکنگ کے ایم سی کے تحت شہر بھر میں صرف34 منظور شدہ پارکنگ سائٹس قائم ہیں۔ جبکہ 16 تجرباتی پارکنگ سائٹس ان کے علاوہ ہیں۔ اسی طرح ضلعی میونسپل کارپوریشنز شرقی، غربی، وسطی،جنوبی، کیماڑی اور کورنگی کے تحت چلنے والی پارکنگ سائٹس کی بات کی جائے تو بلا مبالغہ قانونی و غیر قانونی 200 سے زائد پارکنگ سائٹس قائم ہیں۔ ذرائع کے مطابق ایک جانب شہر بھر میں کے ایم سی اور ڈی ایم سیز کے تحت چلنے والی پارکنگ سائٹس سے کے ایم سی اور ڈی ایم سی کے ملازمین وصولیاں کرتے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف غیر قانونی پارکنگ سائٹس سے بھی کے ایم سی اور ڈی ایم سیز ملازمین و افسران کی ایما پر دیہاڑی دار افراد کو وصولیوں پر لگایا گیا ہے۔ جن کی مدد کیلئے علاقائی آپریشنل و ٹریفک پولیس کے اہلکار و افسران ہفتہ وار وصولیوں کی مد میں دن رات خدمات فراہم کرتے ہیں۔

چارجڈ پارکنگ کے افسران کے مطابق کسی بھی سائٹ کا ٹھیکہ جاری کرتے وقت ٹھیکیدار کمپنی کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ قانونی طور پر منظور شدہ فیسوں کے مطابق موٹر سائیکل پارکنگ کی فیس 10 روپے اورکار و دیگر بڑی گاڑیوں کی پارکنگ فیس 20 روپے ہے۔ اس کے علاوہ جو رقم مذکورہ پارکنگ سے وصول کی جائے گی وہ غیر قانونی ہوگی۔ تاہم شہر کی تقریبا تمام پارکنگ سائٹس کے سروے میں دیکھنے میں آیا کہ قانون و غیر قانونی پارکنگ سائٹس پر تعینات عملہ موٹر سائیکل پارکنگ کی فیس 20 سے 30 روپے، جبکہ کار و دیگر گاڑیوں کی پارکنگ فیس 30 روپے سے 100 روپے تک وصول کی جارہی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں اگر کوئی شہری قانونی پارکنگ فیس ادا کرنے پر بضد رہتا ہے تو پارکنگ پر تعینات عملہ نہ صرف شہریوں کو ذاتی طور پر ہراساں کرتا ہے۔ بلکہ موقع پر موجود ٹریفک پولیس کے اہلکاروں اور ضرورت پڑنے پرعلاقائی آپریشنل پولیس سے مدد لیتا ہے جو عام شہریوں کے بجائے مبینہ طور پر مافیاز کو ہی مدد فراہم کرتی ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ شہر کے کاروباری مراکز کے بعد سب سے مہنگی پارکنگ سائٹس پوش ایریاز میں قائم ہیں جو پارکنگ مافیا کیلئے سونے کی کان ثابت ہوتی ہیں۔ اس ضمن میں شہر کی سب سے مہنگی پارکنگ سائٹس کلفٹن، ڈیفنس، بن قاسم پارک، ہائپر اسٹار، ساحل سمند، گلشن اقبال اور گلستان جوہر کے علاقوں میں قائم ہیں۔ جہاں قیمتی گاڑیوں کی پارکنگ اور حفاظت کی مد میں پارکنگ پر تعینات عملہ شہریوں سے من مانے پیسے وصول کرتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ پاکنگ سائٹس بھی مبینہ طور پر متعلقہ ڈی ایم سیز، کنٹومنٹس اور کے ایم سی افسران کی سرپرستی میں چلائی جاتی ہیں اور ان پارکنگ سائٹس سے حاصل ہونے والی خطیر رقم میں سے بھی تمام سرپرستوں کو نیچے سے اوپر تک باقاعدگی سے حصہ پہنچتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شہر بھر کی تمام قانونی و غیر قانونی پارکنگ سائٹس کی شروعات سے لے کر روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی کمائی مجموعی طور پر ماہانہ کروڑوں روپے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سونے کی کھانوں سے انتظامیہ ہر حال میں چشم پوشی اختیار کیئے رکھتی ہے۔
شہر کے مصروف ترین کاروباری مرکز صدر میں قائم معروف موبائل مارکیٹ کے اطراف ضلعی میونسپل کارپوریشن کی جانب سے لگائی جانے والی پارکنگ کے ٹھیکیدار و عملہ کی جانب سے شہریوں سے پارکنگ کی مد میں زائد فیس کی وصولی کے بعد ایک اور انوکھے طریقہ واردات کا انکشاف ہوا ہے۔ ’’امت‘‘ نے جب صدر موبائل مارکیٹ میں اپنی موٹر سائیکل پارک کی تو فوراً ہی پارکنگ عملہ کی جانب سے 20 روپے ادائیگی کا اصرار کیا گیا۔ عملہ کو جب کہا گیا کہ واپسی پر پیسے لے لینا تو عملہ نے کہا کہ واپسی کا کوئی بھروسہ نہیں۔ میں یہاں نہیں ہوا تو کیا ہوگا؟ اس پر 20 روپے پارکنگ فیس کی ادائیگی کرنے کیلئے ’’امت‘‘ کی جانب سے پارکنگ فیس کی پرچی طلب کی گئی تو عملہ نے انتہائی بد تمیزی سے جواب دیا کہ ’’پرچی کسی کو نہیں دی جاتی۔

گاڑی کھڑی کرنی ہے تو کرو ورنہ ہٹاؤ یہاں سے‘‘۔ عملہ کی بدتمیزی پر جب وہاں موجود انچارج یا ٹھیکیدار کے بارے میں جاننے کی کوشش کی گئی تو عملہ نے فٹ پاتھ پر لگے ایک اسٹال کے ساتھ بیٹھے ایک نوجوان کی جانب اشارہ کیا کہ ’’وہ بیٹھا ٹھیکیدار، جا کر بات کر لو اس سے‘‘۔ ٹھیکیدار سے جب عملہ کی بد تمیزی اور پرچی نہ دینے کی شکایت کی گئی تو اپنا نام محمود بتانے والے ٹھیکیدار نے انتہائی بے دلی سے سوال کیا کہ آپ ہو کون؟ جس پر محمود نامی ٹھیکیدار کو ادارے کا کارڈ دکھایا گیا تو اس نے فوری طور پر اپنے عملے کو اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں پرچی دو، اور پھر وہاں سے اٹھ کر روانہ ہوگیا۔ بعد ازاں عملہ کی جانب سے پرچی وصول کی گئی تو پتہ چلا کہ عملہ نے جو پرچی جاری کی ہے۔ وہ پرچی ضلعی میونسپل کارپوریشن جنوبی کی چارجڈ پارکنگ کے بجائے ضلع شرقی کی چارجڈ پارکنگ کی ہے۔

پرچی وصول کرنے کے بعد اسی پارکنگ میں موجود پارکنگ کرانے والے عملہ سے سوال کیا گیا کہ ’’آپ لوگ پرچی دینے میں اتنی ناراضگی کیوں دکھاتے ہو؟ تو اس کا کہنا تھا کہ بھائی جسے دیکھو ہمیں باتیں سناتا ہے۔ جب ہمیں ٹھیکیدار پرچی دینے کیلئے خود منع کرتا ہے تو ہم کیسے پرچی دے دیں؟ عملہ سے جب سوال کیا گیا کہ بنا پرچی کے لوگ گاڑی کھڑی کیسے کر دیتے ہیں۔ جبکہ تم لوگوں کا کچھ پتہ بھی نہیں ہوتا کہ واپسی پر تم یہاں ہوگے بھی یا نہیں۔ تو عملہ نے جواب دیا کہ یہاں اتنا رش ہوتا ہے کہ چلنے کی جگہ نہیں ملتی۔ ایسے میں اپنے کاموں سے آئے ہوئے لوگوں کو بس گاڑی کھڑی کرنے کا آسرا نظر آتا ہے تو وہ فوراً اپنے کام نمٹا کر یہاں سے نکلنے کی کوشش میں بحث ہی نہیں کرتے۔
معلوم ہوا ہے کہ کراچی کے 11 ٹریفک سیکشنز میں 65 چارجڈ پارکنگ ہیں۔ مذکورہ منظور شدہ پارکنگ سائٹس میں نبی بخش پولیس اسٹیشن کی حدود میں گل پلازہ، ماسٹن روڈ، سینٹرل پلازہ سے رینو سینٹر وحید مراد روڈ تک کی حدود پہلی پارکنگ سائٹ میں گنی جاتی ہے۔ مریم مارکیٹ، نیو جامع مال، بزانجی اسٹریٹ، غریب نواز دسترخوان نزد سول اسپتال کی حدودتک پارکنگ سائٹ دوسری پارکنگ سائٹ، جبکہ برنس وارڈ سول اسپتال اور سیلانی دسترخوان چاند بی بی روڈ تک تیسری پارکنگ سائٹ حدود مانی جاتی ہیں۔

عید گاہ تھانہ کی حدود میں علی محمد دینا روڈ کے بالمقابل لنڈا بازار والی پارکنگ سائٹ، رسالہ تھانہ کی حدود میں مولانا محمد علی جوہر پارک (ککری گراؤنڈ) کے قریب امبیکمنٹ روڈ سے میزان بینک لی مارکیٹ برانچ اور نواب محبت علی خان جی روڈ لیاری کی پارکنگ سائٹ، کھارادر پولیس اسٹیشن کی حدود میں مچھی میانی مارکیٹ جی الانہ روڈ کی پارکنگ سائٹ، میٹھادر پولیس اسٹیشن کی حدود میں نکل روڈ اور بولٹن مارکیٹ پارکنگ سائٹس، آرام باغ تھانہ کی حدود میں برہانی اسپتال کے سامنے والی پارکنگ، باٹا شاپ، نواب منزل اور آرام باغ روڈ سے میٹروپولس گورنمنٹ سیکنڈری اسکول کی حدود تک قائم پارکنگ سائٹ، ایلینڈر روڈ، پاور ہاؤس نزد خیر آباد ہوٹل، بی ماؤنٹ روڈ، پی آئی ڈی سی اور انٹرنل اسٹریٹ والی پارکنگ، سول لائن تھانہ کی حدود میں امپیریل کورٹ بلڈنگ کے دونوں اطراف کی پارکنگ، کراچی کلب اور سیف الدین ٹرسٹ بلڈنگ کی پارکنگ سائٹس، بوٹ بیسن تھانہ کے حدود میں پارک ٹاور، باغ ابن قاسم، کلفٹن ایدھی اسٹریٹ کی پارکنگ، بوٹ بیسن اسٹینڈر چارٹرد کے سامنے سے موٹاس سپر مارٹ تک کی پارکنگ، ایمرالڈ ٹاور کلفٹن نزد دو تلوار کی پارکنگ، ڈرائیونگ لائسنس برانچ سمیت حاتم علوی روڈ کی اندرونی سڑکوں پر قائم پارکنگ سائٹس، ریڈ ایپل سے چائنہ ٹاؤن کلفٹن بلاک 5 کی پارکنگ، بوٹ بیسن سروس روڈ پر قائم کوکو چین والی پارکنگ، فیرئیر تھانہ کی حدود میں شیل ہاؤس کلفٹن کی پارکنگ، پی ایس او ہاؤس کے سامنے والی پارکنگ سائٹ، آرٹلری تھانہ کی حدود میں زینب مارکیٹ، دی سینٹر صدر اور زیب النسا اسٹریٹ کی پارکنگز، فاطمہ جناح روڈ پر ایٹریم مال کے سامنے ریوو اور ریکس سینٹر کی پارکنگ، پریڈی تھانہ کی حدود میں کوآپریٹو مارکیٹ و عبداللہ ہارون روڈ کی پارکنگز، راجہ غضنفر علی روڈ بوہری بازار صدرکی پارکنگز، ریگل ٹریڈ اسکوائر، اسکن اسپتال صدر، پریڈی اسٹریٹ کیمرا مارکیٹ، کریم سینٹر، کیفے جارج فوڈ مینشن، شاہراہ لیاقت صدر کی پارکنگز، موبائل مارکیٹ عبداللہ ہارون روڈ (اطراف کی تمام سڑکوں و موبائل مال کی پارکنگز)، جہانگیر پارک کے سامنے اور عقب والی پارکنگز، زینب مارکیٹ سگنل سے جدہ سینٹر تک کی پارکنگ، میگزین لائن سیلانی سینٹر والی گلی کی پارکنگ، این ایم آئی اسپتال صدر، ایمپریس مارکیٹ اور رینبو سینٹر تک کی تمام پارکنگز شامل ہیں۔ تاہم مذکورہ پارکنگ سائٹ سے یومیہ لاکھوں روپے غیر قانونی طور پر شہریوں کی جیبوں سے وصول کیے جارہے ہیں اور پارکنگ مافیا کے ساتھ ساتھ متعلقہ ادارے عدالتی احکامات کی دھجیاں بکھیر تے نظر آتے ہیں۔