سید علی حسن:
متحدہ لندن گروپ کی جانب سے جیل کے اندر سے نیٹ ورک چلائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ ایم کیو ایم لندن کے بدنام دہشت گرد رئیس مما نے صولت مرزا کی طرز پر سینٹرل جیل میں متحدہ لندن گروپ کو متحرک کر دیا ہے۔ جیل انتظامیہ کو ماہانہ 5 لاکھ روپے ادائیگی پر رئیس مما کو موبائل فون و انٹرنیٹ سروس، بی کلاس سہولیات، خدمتگار اور ملاقاتیں کرائی جاتی ہیں۔ رئیس مما جیل سے روزانہ کی بنیاد پر لندن قیادت سے واٹس ایپ، اسکائپ اور فیس بک میسنجر کے ذریعے رابطہ کرکے ملنے والی ہدایات اور پارٹی پالیسی اپنے نیٹ ورک کو فراہم کرتا ہے۔ رئیس مما جنوبی افریقی نیٹ ورک کے دہشت گردوں سے بھی رابطے میں ہے۔ چائنا کٹنگ کی رقم بھی رئیس مما کو پہنچائی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ رئیس مما 2018ء سے قتل و غارت گری اور دہشت گردی کے متعدد مقدمات میں کراچی سینٹرل جیل میں قید ہے۔ رئیس مما کے گروپ میں لیاقت آباد، اورنگی ٹاؤن، کورنگی، لانڈھی، ملیر، شاہ فیصل کالونی اور نیو کراچی کے دہشت گرد شامل ہیں۔ رئیس مما کے گروپ میں سینٹرل جیل میں قید اور آزاد دہشت گرد شامل ہیں۔ جن میں اعجاز گورچانی، جنید بلڈاگ، علی رضا، شاہ نواز، افسر زیدی عرف اورنگی والا، اسماعیل قریشی عرف لانڈھی والا، قاسم علی رضا، کاشف اور دیگر شامل ہیں۔ سینٹرل جیل میں قید رئیس مما جنوبی افریقی نیٹ ورک کے انچارج تراوش علی سے بھی رابطے میں ہے۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جیل انتظامیہ رئیس مما سے ماہانہ 5 لاکھ روپے وصول کرتی ہے اور اس کے عوض رئیس مما کو روزانہ کی بنیاد پر رات 8 بجے سے 11 بجے تک موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس فراہم کی جاتی ہے۔ روزانہ گھر سے کھانا منگوانے کی بھی اجازت ہے۔ جو اس کا بھائی معین الدین جیل میں اسے فراہم کرتا ہے۔ ذرائع کے مطابق رئیس مما کو جیل میں بی کلاس کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں اور بیرک نمبر 19 دی گئی ہے۔ جس میں ایک کمرہ اور ایک خدمتگار سمیت دیگر چیزیں شامل ہیں۔ رئیس مما جیل سے روزانہ لندن قیادت سے واٹس ایپ، اسکائپ اور فیس بک میسنجر کے ذریعے رابطہ کرتا ہے اور ملنے والی ہدایات اور پارٹی پالیسی اپنے نیٹ ورک کو فراہم کرتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ رئیس مما کے نیٹ ورک میں پاک سرزمین پارٹی کے کارکن ندیم مولانا کے قتل میں ملوث متحدہ لندن کے دہشت گرد جن کا تعلق شاہ فیصل کالونی سیکٹر لندن گروپ سے ہے، شامل ہیں۔ جیل میں قید مذکورہ دہشت گرد رئیس مما کے حکم پر سرگرمیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ لانڈھی کورنگی میں رئیس مما کے کارندے ان کا انٹرنیٹ اور کیبل کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ باغ کورنگی، چائنا کٹنگ اور زمینوں کی خرید و فروخت سے جمع ہونے والی رقم بھی رئیس مما کو فراہم کی جاتی ہے۔ ذرائع کے مطابق جیل قواعد کے برخلاف رئیس مما کی ملاقاتیں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے کمرے اور اس کے سامنے والے کمرے میں کروائی جاتی ہیں۔ اس دوران کوئی اہلکار کمرے میں داخل ہوجائے یا ملاقات میں خلل پیدا کرے تو رئیس مما اسے کھلے عام سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ رئیس مما جیل میں متحدہ بانی کی سالگرہ، اے پی ایم ایس او، مہاجر قومی موومنٹ اور ایم کیو ایم کے یوم تاسیس کے مواقع پر پروگرامات کا انعقاد بھی کراتا ہے۔ ان تقریبات پر رئیس مما متحدہ لندن گروپ کیلئے باہر سے کھانا منگواتا ہے۔ جو مخصوص جیل اسٹاف لاتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق رئیس کی جانب سے متحدہ لندن کے کارکنان کو لندن قیادت کی ہدایات کے تحت دلاسا دیا گیا ہے کہ وہ اپنے مقدمات کی پیروی کیلئے پریشان نہ ہوں۔ جلد اپنا دور آتے ہی مقدمات ختم کرادیئے جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم لندن کے دہشت گرد زیادہ تر اپنے مقدمات کی پیروی میں عدم دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ رئیس مما نے حالیہ ضمنی انتخابات میں ملیر، شاہ فیصل کالونی، پی آئی بی کالونی اور نیوکراچی میں متحدہ لندن کی چاکنگ بھی کروائی تھی۔ رئیس مما نے اپنے گروپ کے دہشت گردوں کو پی ایس پی کے لوگوں سے غیر ضروری مراسم سے منع بھی کر رکھا ہے۔ تاکہ کوئی لندن گروپ کا کارندہ پاک سر زمین پارٹی میں شمولیت اختیار نہ کرلے۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ رئیس مما اپنے کارندوں کے ذریعے اس وقت بھی لانڈھی کورنگی میں عید سمیت مختلف تہواروں پر رقوم جمع کراتا ہے۔ جو رئیس مما تک پہنچایا جاتا ہے۔ حال ہی میں جیل سے رہا متحدہ لندن کا دہشت گرد اعجاز گورچانی اس وقت بھی رئیس مما سے رابطے میں ہے اور رئیس مما کے انٹرنیٹ اور کیبل کے معاملات دیکھ رہا ہے۔ جبکہ انٹرنیٹ اور کیبل کی مد میں جمع ہونے والی رقم رئیس مما کی ہدایات کے مطابق استعمال کرتا ہے۔ اعجاز گورچانی کے علاوہ رئیس مما سے سب سے قریبی ساتھیوں میں سانحہ 12 مئی کیس سمیت دیگر مقدمات میں مفرور متحدہ لندن کا دہشت گرد جنید عرف بلڈاگ بھی شامل ہے۔ جو رئیس مما سے رابطے میں ہے اور اس کے گھر کے معاملات دیکھتا ہے۔ رئیس مما کی ہدایات پر عمل کرانے میں بھی جنید بلڈاگ متحرک ہے۔ جسے تاحال قانون نافذ کرنے والے ادارے گرفتار کرنے میں ناکام ہیں۔ ذرائع کے بقول رئیس مما گروپ کراچی میں متحدہ لندن گروپ کے اسماعیل قریشی عرف لانڈھی والا سے بھی رابطے میں ہے۔ اسماعیل قریشی نے 3 ماہ قبل گلستان جوہر اور سرجانی میں متحدہ لندن کے کارکنان کا اجلاس بلایا تھا اور متحدہ لندن کے کارندے قاسم علی رضا کے واٹس ایپ کے ذریعے کارکنان کی متحدہ بانی سے بات چیت بھی کرائی تھی۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ متحدہ لندن گروپ کے سینٹرل جیل میں موجود نیٹ ورک نے اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کے ذریعے یہ اطلاعات پھیلانا شروع کردی ہیں کہ متحدہ لندن کی کچھ طاقتور قوتوں سے بات چیت جاری ہے اور 2023ء کے شروع میں کراچی کے اندر متحدہ لندن کو جگہ مل جائے گی۔ ذرائع نے بتایا کہ رئیس مما نے 2 ماہ قبل جیل پولیس کی مدد سے بیماری کا بہانہ بناکر جناح اسپتال منتقلی کی بھی کوشش کی تھی۔ تاہم ایک سیکورٹی ادارے کی مخالفت پر اسے اسپتال منتقل نہیں کیا گیا۔ رئیس مما گروپ کراچی میں نیٹ ورک کو بڑھانے اور مزید مضبوط کرنے کیلئے 18 سے 25 سال کے نوجوانوں کو اپنے گروپ میں شامل کر رہا ہے اور ان نوجوانوں کو کراچی میں موجود پرانے ساتھیوں کی مدد سے تربیت بھی دلوارہا ہے۔ رئیس مما کا قریبی ساتھی کاشف اس وقت کورنگی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے جھنڈے تلے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ جبکہ کاشف کورنگی نمبر 5 کے نوجوانوں سے رات کے اوقات میں رئیس مما کی فون کے ذریعے گفتگو بھی کراتا ہے۔
ذرائع کے مطابق متحدہ دہشت گرد گواہوں اور تفتیشی افسران کو فون کے ذریعے ڈرا دھمکا کر بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جس سے ان کے مقدمات کمزور پڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح کے معاملات پہلے بھی دیکھے جاچکے ہیں۔ متحدہ دہشت گرد فرحان شبیر عرف ملا کے خلاف انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پولیس اہلکار حسان رضا کے قتل سے متعلق مقدمہ کی سماعت کے دوران تفتیشی افسر ڈی ایس پی چن زیب خان کی جانب سے تحفظ فراہم کرنے کی درخواست جمع کرائی گئی تھی۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ملزم فرحان شبیر عرف ملا پولیس اہلکار حسان رضا کے قتل میں گرفتار ہے۔ ملزم کو جے پی ایم سی سے علاج کرانے کی اجازت دی گئی تھی۔ ملزم اسپتال پہنچ کر مقدمہ کے گواہان کو بذریعہ فون دھمکیاں دے رہا ہے کہ گواہی کیلئے عدالت آئے تو جان سے مار دیا جائے گا۔ خود اسے بھی متعدد بار جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا چکی ہیں۔ ملزم کی جانب سے دی جانی والی دھمکیوں کے باعث گواہان کو عدالت میں پیش کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ استدعا ہے کہ سیکورٹی فراہم کی جائے۔ مذکورہ مقدمہ کا فیصلہ رواں سال اکتوبر میں سنایا گیا اور عدم شواہد کی بنا پر فرحان شبیرعرف ملا کو بری کردیا گیا ہے۔
ذرائع کے بقول ماضی میں بھی کراچی کی جیلیں جرائم پیشہ افراد کی تربیت گاہوں کے طور پر جانی جاتی رہی ہیں۔ ان جیلوں میں موجود سیاسی و بااثر قیدیوں کو دی جانے والی سہولیات کسی ہوٹل یا ریسٹ ہاؤس سے کم نہیں ہوتی تھیں۔ جیلوں میں مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں سمیت جرائم پیشہ افراد کے منظم نیٹ ورک موجود رہے ہیں اور قیدیوں کی جیل میں بیرکوں کی تقسیم بھی سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر ہوتی ہے۔ ماضی میں کئی پولیس اہلکاروں سمیت اہم شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کی منصوبہ بندی، ٹیموں کی تشکیل اور ان منصوبوں پر عملدرآمد تک جیلوں کے اندر سے ہوا ہے۔ ایسی وارداتوں کی تعداد کم از کم ایک درجن ہے۔ ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے کہ جیل انتظامیہ بہت کمزور تھی۔ طاقتور قیدی حاوی تھے اور انتظامیہ کو ڈکٹیشن دیتے تھے۔ ماضی میں بااثر قیدیوں پر قابو پانے کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کئی آپریشنز بھی کیے جا چکے ہیں۔ 2013ء اور 2017ء میں جیلوں میں آپریشنز بھی کیے گئے۔ ان آپریشنز کے دوران جیل سے موبائل فون سمیت دیگر کئی الیکٹرانک آئٹمز بھی برآمد کیے گئے تھے۔
ذرائع نے بتایاکہ سینٹرل جیل میں موبائل سگنل جیمرز نصب ہیں۔ تاہم انٹرنیٹ سروس موجود ہے جس کی رسائی جیل حکام اور عملے کے پاس ہے۔ بھاری رشوت وصولی پر خطرناک قیدیوں کو جیل میں موبائل سروس فراہمی کے خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ واٹس ایپ اور دیگر میسنجر کے ذریعے کوئی بھی دہشت گرد بیرون ممالک میں موجود افراد یا کالعدم تنظیم کے ذریعے منصوبہ سازی کرسکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق جیلوں میں عام قیدیوں کو بھی موبائل سروس فراہم کی جاتی ہے۔ ایک کال کرنے کیلئے مذکورہ قیدی سے ایک ہزار سے 5 ہزار روپے تک وصول کیے جاتے ہیں۔ پولیس اہلکار کال پر بات کرانے کے بعد موبائل واپس لے لیتے ہیں۔ اسی طرح سٹی کورٹ اور ملیر کورٹ میں پیشی پر جانے والے قیدیوں کی بھی رشوت وصولی پر موبائل سے بات چیت کرائی جاتی ہے۔
اطلاعات کے مطابق ملیر کورٹ میں پیشی پر لائے گئے قیدی کی پولیس اہلکار کی جانب سے رشوت وصولی پر بھارت میں موجود اس کے رشتہ داروں سے بات چیت کرائی گئی تھی۔ علاوہ ازیں ماتحت عدالتوں میں پیشی پر آئے قیدیوں سے جیل کی صورتحال سے متعلق بات چیت کی گئی تو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ جیل میں صورتحال اب پہلے کے مقابلے میں بہتر ہے۔ مگر پارٹی سسٹم اب بھی موجود ہے۔ جیل میں اب بھی پیسوں کا سسٹم چلتا ہے۔ پیشی پر جانے اور کورٹس میں اہلخانہ سے ملاقات سمیت سامان کے جیل کے آنے پر چلنے والا نظام اب بھی اسی طرح چل رہا ہے۔ دوسری جانب مذکورہ معاملے پر مؤقف جاننے کیلئے سینٹرل جیل کراچی کے سینئر سپرنٹنڈنٹ محمد حسن سہتو سے متعدد بار رابطہ کیا گیا۔ تاہم کال اٹینڈ نہ ہونے کی وجہ سے رابطہ نہیں ہوسکا۔