ماہرین صحت نے اینٹی بائیوٹیک دواؤں کی مزاحمت کے اثرات پر قابو پانے کے لیے قانون سازی کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ ساری دنیا میں اس خطرے کو محسوس کرتے ہوئےمتعد د اقدامات کیے گئے ہیں لیکن پاکستان میں ان دواؤں کے غلط اور زائد استعمال کو روکنے کے لیے اقدامات نہیں کیے جارہے جبکہ ہیلتھ کیئر پروفیشنلز کو انفیکشنز کی روک تھام کے لیےبھی حفاظتی اقدامات کرنے چاہئیں ۔ اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس(اے ایم آر)پر قابو پا نےکے منصوبے ہونے کے باوجود بھی عمل درآمد سے محروم ہیں، یہ باتیں ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے پروفیشنل ڈیولپمنٹ سینٹر اور انفیکشیئز ڈیزیز ڈپارٹمنٹ کے زیر اہتمام آراگ آڈیٹوریم میں "اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس،تھریٹ ٹو ماڈرن میڈیسن” کے عنوان سے منعقدہ سیمینارسےخطاب کرتے ہوئے کیں۔
سیمینار کی مہمان خصوصی ڈاؤ میڈیکل کالج کی پرنسپل پروفیسر صباء سہیل تھیں۔سیمینار کا انعقاد تعلیمی سیشن کے طور پر کیا گیا جس کابنیادی مقصد اینٹی بائیوٹک ادویات کا غلط اور زائد استعمال سے پیدا ہونے والے خطرات سے آگاہ کرنا تھا، ساتھ ہی ساتھ انفیکشن کے پھیلاؤ کی روک تھام سے متعلق معلومات بھی فراہم کی گئیں ۔سیمینار میں زور دیا گیا کہ طبی ماہرین اے ایم ریزسٹنس کے متعلق آگاہی فراہم کرکے ان کی درست رہنمائی کی جائے۔ اینٹی بائیوٹک ادویات کا استعمال صرف ڈاکٹر کی ہدایت پر کیا جائے۔ادویات کا غلط استعمال خطرے کا باعث ہے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ اے ایم آر ایک خطرہ ہے جس پر قابو پانا نہایت ضروری ہے ۔اہم بات یہ ہے کہ اس سے بچاؤ اور نمٹنے کے لیے چند تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے۔ منصوبوں کی موجودگی کےساتھ ان پر سختی سے عملدرآمد کی بھی ضرورت ہے۔تاکہ بروقت اس خطرے پر قابو پایا جاسکے۔ سیمینار سے ڈاکٹر عفت خانم اسسٹنٹ پروفیسر انفیکشنز ڈیزیز اینڈپروگرام ڈائریکٹر آئی ڈی فیلوشپ آغا خان، پروفیسر ڈاکٹر عافیہ ظفر چیئرپرسن پیتھالوجی لیب میڈیسن آغا خان ، ڈاکٹر ثمرین سرفرازکنسلٹنٹ انفیکشنز ڈیزیزسی آئی سی پی ڈی ڈائریکٹر آئی ڈی فیلوشپ انڈس اسپتال ، ڈاکٹر سارہ سلمان ہیڈ سب آفس ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سندھ نے خطاب کیا۔ڈاکٹر سارہ سلمان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں چند احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس میں بلا ضرورت اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال کو روکنا اوردواساز کمپنیوں کو معیاری تبدیلی اور ان کی فروخت کو اعتدال میں لانا ضروری ہے۔ جانوروں کے ذریعے کئی انفیکشنز منتقل ہوتے ہیں اور اس کی وجہ ان میں اینٹی بائیوٹک دواؤں کا غلط استعمال ہے۔ جس پر ویکسین کے ذریعے قابو پایا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر عفت خانم نے اپنے خطاب میں کہا کہ اینٹی بائیوٹک کا بے حد استعمال انسانی جسم پر مضر صحت اثرات مرتب کرتاہے۔ اسی لیے یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ کیسے درست اینٹی بائیوٹک تجویز کی جائے۔اے ایم آر کے باعث اموات کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے ادویات تجویز کرنے سے قبل بیماری کی درست تشخیص کی جائے۔ اس کے علاوہ مریض کے تفصیلی معائنہ کے ساتھ طبی مسائل کی تفصیلات بھی طلب کی جائیں۔ درست مقدار اور صحیح وقت میں اینٹی بائیوٹک ادویات کا استعمال مضر صحت نہیں ۔ سیمینار سے خطاب میں ڈاکٹر عافیہ ظفر کا کہنا تھا کہ دیکھا جائے تو پاکستان میں اے ایم آر دواؤں کی مزاحمتی خطرات سے بچاؤ کی صورتحال تشویشناک ہے، ان حالات میں خطرات سے بچاؤ پر قابو پانا باہمی کوششوں اور مدد سے ممکن ہے۔ لوگوں میں بروقت اور درست تشخیص اس سے روک تھام میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ موجودہ ویکسینز سے انفیکشنز سے بچاؤ ممکن ہے۔
ڈاکٹر ثمرین سرفراز نے اپنے خطاب میں کہا کہ صحت سے منسلک انفیکشنز (ایچ اے آئی) کے باعث سالانہ 4 ملین افراد متاثر ہورہے ہیں۔وبائی امراض کا پھیلاؤ، ناقص صفائی اور اسپتالوں میں بد انتظامی کے باعث ہے۔ طبی ماہرین/ہیلتھ پروفیشنلز اصول صحت یعنی ہائی جین کی پابندی سے انفیکشن کی روک تھام میں مدد کرسکتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہاتھوں کی صفائی اور صاف ماحول انفیکشنز کی روک تھام میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ڈاکٹرز اور ہیلتھ پروفیشنلز کی جانب سے کیے گئے اقدامات سے کسی حد تک انفیکشن کا پھیلاؤ روکا جاسکتا ہے۔ سیمینار کے اختتام پر سوال وجواب کا سیشن بھی ہوا۔ جس میں تمام اسپیکرز سمیت پروفیسر امان اللہ عباسی ، سربراہ میڈیکل یونٹ3اور ڈاکٹر شبانہ جونیجو نے شرکاء کے سوالات کے جوابات دئیے۔ تقریب کے اختتام پر ڈاؤ میڈیکل کالج کی پرنسپل پروفیسر صبا سہیل کی جانب سے اے ایم آر جیسے موضوع پر آگاہی سیمینار منعقد کرنے پر سراہا گیا۔ علاوہ ازیں تمام مہمان اسپیکرز کو اعزازی شیلڈ بھی تقسیم کی گئی۔ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز ، ڈیپارٹمنٹ آف انفیکشن ڈیزیز، ڈاؤ میڈیکل کالج اور ڈاکٹر رتھ کے ایم فاؤ سول اسپتال کراچی کی جانب سے اینٹی بائیوٹک ادویات کی مزاحمت کے اثرا