امت رپورٹ :
مریم نواز کو نواز لیگ میں طاقتور عہدہ ملنے پر ناراض رہنمائوں کے بارے میں پارٹی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ دھول بیٹھ جائے گی۔ مطلب کہ یہ سب پرانی تنخواہوں پر کام کریں گے۔
واضح رہے کہ یہ خبریں تسلسل سے چل رہی ہیں کہ مریم نواز کو نون لیگ کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر بنائے جانے کے بعد سے پارٹی کے کئی سینئر رہنما ناراض ہیں۔ ان خبروں کو اس وقت تقویت ملی جب شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور خواجہ سعد رفیق نے اشاروں میں اس کا اظہار بھی کیا۔
خاص طور پر شاہد خاقان عباسی کے حوالے سے میڈیا میں یہ خبر بھی آئی کہ انہوں نے بطور سینئر صدر پارٹی کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ تاہم ان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم اس اختلاف کو اتنا آگے نہیں لے جائیں گے کہ واپسی کا راستہ نہ رہے۔
اس کی تصدیق ’’تصور نو پاکستان‘‘ کے پلیٹ فارم میں شاہد خاقان عباسی کے ہمنوا ایک سینئر سیاستدان سے کی گئی بات چیت سے بھی ہوتی ہے۔ مذکورہ سیاسی رہنما کے مطابق شاہد خاقان عباسی کو مریم نواز کو پارٹی کا تیسرا طاقت ور عہدہ دینے پر اعتراض ضرور ہے۔ لیکن وہ نواز شریف کے خلاف نہیں اور اب بھی انہیں اپنا لیڈر تسلیم کرتے ہیں۔ اس رہنما کے بقول ان خیالات کا اظہار ان سے خود شاہد خاقان عباسی نے کیا ہے۔ لہٰذا نواز شریف کی ایک ٹیلی فون کال پر ان کے تحفظات دور ہو سکتے ہیں۔ پھر یہ کہ شاہد خاقان عباسی کا پارٹی عہدے سے مستعفی ہونا الگ چیز ہے۔ وہ پارٹی نہیں چھوڑیں گے۔ اس بارے میں ان کا موقف واضح ہے۔
لاہور اور لندن میں موجود نون لیگی ذرائع نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ خود نواز شریف بھی شاہد خاقان عباسی کی قدر کرتے ہیں اور انہیں کہیں نہیں جانے دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی عہدے سے ان کے استعفے کو تاحال منظور نہیں کیا گیا ہے۔ ان ذرائع کے مطابق چند دنوں میں نواز شریف کی جانب سے شاہد خاقان عباسی کو براہ راست فون کال متوقع ہے۔
ادھر مریم نواز نے بھی شاہد خاقان عباسی کو پارٹی کا اثاثہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ خود ان سے مل کر تحفظات دور کریں گی۔ لہٰذا امکان یہی ہے کہ شاہد خاقان عباسی کو جلد ہی منالیا جائے گا۔ اس کا اندازہ ان کے ترجمان حافظ عثمان عباسی کی جانب سے جاری اس بیان سے بھی ہوتا ہے۔ جس میں پارٹی عہدے سے استعفے کی خبر کو بے بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ اس سے قبل پارٹی کے ایک اور رہنما اور مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر نے سابق وزیر اعظم کے پارٹی عہدے سے استعفے کی تصدیق کی تھی۔ دلچسپ امر ہے کہ خود شاہد خاقان عباسی بھی تاحال استعفے کی تردید یا تصدیق سے گریزاں ہیں۔
لندن میں شریف خاندان سے قریب ذرائع کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ مریم نواز کو پارٹی میں دوسرا طاقتور عہدہ ملنے پر بعض سینئر رہنمائوں کو تحفظات تھے۔ لیکن یہ تحفظات دور ہو چکے ہیں۔ ایک دو جو رہ گئے ہیں۔ ان سے بھی بات ہو رہی ہے۔ ان ذرائع کا دعویٰ تھا کہ معاملہ اتنا سنگین نہیں جتنا میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر چرچا کیا جا رہا ہے۔
نون لیگ برطانیہ کے ایک عہدیدار کے بقول شاہد خاقان عباسی تاحال بڑے میاں صاحب (نواز شریف) کی گڈ بک میں ہیں۔ لیکن ساتھ ہی اس عہدیدار کا یہ بھی کہنا تھا کہ شاہد خاقان عباسی کو یاد رکھنا چاہئے کہ گزشتہ الیکشن میں وہ اپنے آبائی حلقے مری سے بھی سیٹ نہیں نکال سکے تھے۔ پارلیمنٹ کا حصہ بننے کے لئے انہیں لاہور سے الیکشن لڑنا پڑا تھا۔ جہاں نواز شریف اور شہباز شریف نے پارٹی کے مضبوط حلقے سے ان کی جیت کو یقینی بنایا تھا۔ اپنے آبائی حلقے میں شاہد خاقان عباسی کے پندرہ سے سولہ ہزار ذاتی ووٹ ہیں۔ باقی ووٹ انہیں نون لیگ کا پڑتا ہے۔ عہدیدار کے بقول انہیں وزیر اعظم بنانے والے بھی پارٹی قائد تھے۔ شاہد خاقان عباسی کو خود بھی ادراک ہے کہ پارٹی چھوڑنے سے وہ صفر ہو جائیں گے اور ان کی حالت چوہدری نثار سے مختلف نہیں ہوگی۔ لہٰذا وہ ناراضی میں ایک حد تک جا سکتے ہیں۔
تاہم مفتاح اسماعیل کے بارے میں نون لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف ان سے سخت ناراض ہیں کہ انہوں نے پارٹی کی سینئر قیادت پر براہ راست تنقید کرکے اپنی پوزیشن خراب کرلی ہے۔ لندن میں موجود ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جس طرح نواز شریف نے چوہدری نثار کے نام پر کراس لگا رکھا ہے اور اسی سبب پارٹی کے بیشتر سینئر رہنمائوں کی خواہش کے باوجود ان کی پارٹی میں واپسی ممکن نہیںہو پا رہی۔ اب یہی صورتحال پارٹی میں مفتاح اسماعیل کو درپیش ہے۔ کیونکہ ان کی تنقید کا نشانہ زیادہ تر وزیر خزانہ اسحاق ڈار بن رہے ہیں۔ جو نواز شریف کے سمدھی ہیں۔ اس سے بھی ان کی پوزیشن مزید خراب ہوئی ہے۔
ذرائع کے مطابق پارٹی کی مرکزی قیادت مفتاح اسماعیل کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کر چکی ہے۔ نون لیگی ذرائع کے مطابق جہاں تک خواجہ سعد رفیق اور پارٹی کی دیگر سینئر قیادت کا تعلق ہے، تو ان کی جانب سے شاہد خاقان عباسی یا مفتاح اسماعیل کی طرح کھل کر سامنے آنے کا زیادہ امکان نہیں۔ اس لئے غالب گمان یہی ہے کہ مریم نواز کے پارٹی عہدے کی مخالفت کرنے والے تمام رہنما پرانی تنخواہوں پر کام کریں گے۔
واضح رہے کہ سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر کا عہدہ ملنے کے بعد مریم نواز اپنے والد نواز شریف اور چچا شہباز شریف کے بعد پارٹی کی تیسری طاقتور ترین شخصیت بن گئی ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق نواز شریف پارٹی میں عہدہ نہیں رکھ سکتے۔ یوں عہدے کے لحاظ سے اب مریم نواز اپنے چچا اور پارٹی صدر شہباز شریف کے بعد پارٹی میں دوسری طاقتور شخصیت ہیں۔ یعنی شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، خواجہ آصف، تنویر حسین، سردار ایاز صادق، خواجہ سعد رفیق اور راجہ ظفر الحق سمیت دیگر سینئر رہنمائوں کو مریم نواز کے ماتحت کام کرنا پڑے گا۔