شہدا کے لواحقین کا معمولی پنشن میں گزارا مشکل ہوگیا-فائل فوٹو
شہدا کے لواحقین کا معمولی پنشن میں گزارا مشکل ہوگیا-فائل فوٹو

سانحہ بلدیہ کے بری ملزمان پر الزامات ثابت کرنا کڑا امتحان ہوگا

سید علی حسن :
پراسیکیوشن کے لئے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں بری ہونے والے متحدہ رہنما رؤف صدیقی سمیت 4 ملزمان پر الزامات ثابت کرنا کڑاامتحان بن گیا۔ دو سال بعد بریت کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں دائر اپیل میں ٹرائل کورٹ میں پیش کیے گئے ثبوت و شواہد سے جرم ثابت کرنا پڑے گا۔

ٹرائل کورٹ میں کیس کی پیروی کرنے والے پراسیکیوٹرز بری ہونے والے ملزمان کے خلاف شواہد نہ ہونے کا اعتراف کرچکے ہیں۔ دوسری جانب سانحہ میں جھلس کر جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کا پنشن کی مد میں ملنے والے ماہانہ 7 سے 8 ہزار روپے سے گزارا مشکل ہوگیا ہے۔ جبکہ لواحقین کے معاوضے کے معاملے دیکھنے والی مزدور تنظیم نے جرمنی کمپنی سے ملنے والی 5 ملین ڈالر کی رقم ایک انشورنس کمپنی میں انویسٹ کرنے کا معاہدہ کرلیا ہے۔ کمپنی سے لواحقین کی انشورنس اور ماہانہ پنشن ادائیگی کی جائے گی۔ تاہم معلومات نہ ہونے کی وجہ سے انشورنس پالیسی سمیت دیگر مراحل سے تاحال، لواحقین پریشان ہیں۔

سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں متحدہ رہنما رؤف صدیقی سمیت بری ہونے والے ملزمان باضابطہ طور پر کیس میں شامل ہوگئے ہیں۔ متحدہ رہنما رؤف صدیقی سمیت دیگر ملزمان کے وکلا کی جانب سے سرکار کی اپیل پر متعلقہ عدالت میں وکالت نامے جمع کرادیئے گئے ہیں اور بری ہونے والے ملزمان کی کیس میں پیروی شروع کردی گئی ہے۔ سرکار کی جانب سے بلدیہ فیکٹری کیس میں بری ہونے والے ملزمان کی بریت کے خلاف اپیل کے علاوہ ماتحت عدالت سے سزا پانے والے متحدہ دہشت گردوں رحمان بھولا اور زبیر چریا سمیت دیگر کی سزاؤں کے خلاف اپیلیں بھی سندھ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔

ملزمان نے اپنی اپیلوں میں موقف اختیار کیا کہ بھتہ مانگنے کا الزام بے بنیاد ہے۔ ٹرائل کورٹ نے شواہد کا باریک بینی سے جائزہ نہیں لیا۔ سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے ٹرائل کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد سے روکا جائے۔ سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس سے متعلق سزا یافتہ اور بری ہونے والے ملزمان کے حوالے سے اپیلیں یکجا ہوگئی ہیں اور تمام اپیلوں کی سماعت ایک ساتھ ہوگی۔ سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے پراسیکیوشن اور وکیل صفائی کو 400 گواہوں کی فہرست مرتب کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

اس سلسلے میں ماتحت عدالت میں ٹرائل کے دوران پیش کئے جانے والے 400 گواہان کی الگ الگ فہرستیں بھی مرتب کی جارہی ہیں، جن میں وقوعہ پر موجود گواہوں، لاشوں کی شناخت کرنے والوں، پوسٹ مارٹم کرنے والوں، ملزمان کو شناخت کرنے والوں سمیت دیگر گواہان شامل ہیں۔ گواہان کی فہرستیں مرتب ہونے کے بعد عدالت میں جمع کرائی جائیں گی جن پر وکلا کی جانب سے دو طرفہ دلائل بھی دیئے جائیں گے۔

سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس سے جڑے اہم ذرائع نے بتایاکہ پراسیکیوشن کی جانب سے 2 سال بعد مقدمہ سے بری ہونے والے متحدہ رہنما رؤف صدیقی سمیت دیگر کی بریت کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیل داخل کرائی گئی ہے اور اس اپیل پر ابھی فریقین کو پری ایڈمیشن نوٹس ہوئے ہیں۔ مذکورہ اپیل ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے جہاں دیکھا جانا ہے کہ اپیل قابل سماعت ہے یا نہیں۔ اور اس اپیل کو سناجانا ہے یا نہیں؟ امکان یہ بھی ہے کہ اس اپیل کو ابتدا میں ہی خارج کردیا جائے گا۔ کیونکہ فیصلوں کے خلاف اپیل داخل کرانے کا وقت مقرر ہوتا ہے مگر یہاں پر کیس کا فیصلہ آئے ہوئے 2 سال گزر چکے ہیں اور اپیل داخل کرانے میں تاخیر کی گئی ہے۔

اگر پراسیکیوشن کے مضبوط دلائل ہوئے اور اپیل باقاعدہ سماعت کے لئے منظور ہوجاتی ہے تو اس کے بعد کیونکہ سندھ ہائی کورٹ، اپیلیٹ کورٹ ہے جہاں ٹرائل کے دوران ریکارڈ پر موجود ثبوت وشواہد کو دیکھا جائے گا، جبکہ کوئی بھی نیا ثبوت یا شواہد نہیں دیکھا جائے گا۔ ٹرائل کورٹ میں پراسیکیوشن کی جانب سے پیش کردہ کوئی ثبوت یا شواہد نظر سے نہیں گزرا ہو تو اس کو بھی دیکھا جائے گا۔ ذرائع نے بتایاکہ متحدہ رہنما رؤف صدیقی سمیت بری ہونے والے ملزمان کے خلاف اپیل سماعت کے لیے منظور ہوتی ہے تو پراسیکیوشن کیلئے جرم ثابت کرنا کڑا امتحان بن جائے گا۔ جبکہ اپیل خارج ہونے کی صورت میں ملزمان کو فائدہ پہنچے گا جو ان کیلیے سپریم کورٹ میں بھی فائدہ مند ثابت ہوگا۔

اس سے قبل پراسیکیوٹرز، سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں بری ہونے والے متحدہ رہنمارؤف صدیقی، بزنس مین عمر حسن قادری سمیت 4 ملزمان کے خلاف ٹھوس ثبوت وشواہد نہ ہونے کا اعتراف کرچکے ہیں۔31 جنوری 2022ء کو سندھ ہائی کورٹ نے پراسیکیوشن کو سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں بری ہونے والے ملزمان کے خلاف شواہد کا جائزہ لینے کی ہدایت دی تھی۔ اس سلسلے میں پراسیکیوٹر جنرل سندھ کے دفتر کی جانب سے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل اور سانحہ بلدیہ کیس کی پیروی کرنے والے دو اسپیشل پبلک پراسیکیوٹرز کو لیٹر جاری کرکے وضاحت طلب کی گئی تھی۔

’’امت‘‘ کو حاصل ہونے والی دستاویزات کے مطابق 7 فروری 2022ء کو پراسیکیوٹر جنرل سندھ کی جانب سے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل اقبال اعوان، سابق اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر (رینجرز) ساجد محبوب اور ایڈیشنل اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر (رینجرز) رانا خالد کو وضاحت سے متعلق لیٹر لکھا گیا تھا۔ لیٹر نمبر No.PGS/Admin/P.F/2020/355 میں مذکورہ وکلا سے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں بری ہونے والے ملزمان سے متعلق وضاحت طلب کی گئی تھی۔

مذکورہ لیٹرز پر ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل اور ایڈیشنل اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر کی جانب سے پراسیکیوٹر جنرل سندھ کے دفتر میں اپنا جواب جمع کرایا گیا، جس میں انہوں نے بتایا کہ سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں بری ہونے والے ملزمان کے خلاف شواہد موجود نہیں ہیں اور نہ ہی فیکٹری مالک نے اپنے بیان میں انہیں قصور وار قرار دیا ہے۔ 27 اپریل 2022ء کو لکھا گیا مذکورہ لیٹر نمبر No.PGS/Pros/7.7/2010/1330 میں ساجد محبوب شیخ سے وضاحت سے متعلق ہدایت دی گئی۔ مذکورہ لیٹر پر سابق اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر (رینجرز) ساجد محبوب کی جانب سے 11 مئی 2022ء کو پراسیکیوٹر جنرل سندھ کو وضاحت سے متعلق تحریری جواب جمع کرایا گیا، جس میں کہا گیا کہ، سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کی پیروی بھی میں نے کی تھی۔

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نمبر 7 میں مقدمہ کی پیروی کرتے ہوئے ملزمان کے ٹرائل کے دوران 400 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرائے گئے اور 400 سے زائد گواہوں کے نام واپس بھی لئے گئے تھے۔ مقدمہ کے ٹرائل کے دوران مجھ پر 5 مرتبہ حملے بھی ہوچکے ہیں۔ استغاثہ مرکزی ملزمان رحمان عرف بھولا اور زبیر عرف چریا و دیگر کے خلاف جرم ثابت کرنے میں کامیاب رہا تھا۔

جبکہ بھتہ لینے کے الزامات میں نامزد ملزمان رؤف صدیقی، ڈاکٹر عبدالستار، اقبال ادیب خانم اور عمر حسن قادری کو بری کردیا گیا تھا۔ مقدمہ میں نامزد ملزم رؤف صدیقی کو تفتیش کے دوران بے قصور قرار دیا گیا تھا جبکہ جے آئی ٹی میں بھی اس کو بطور ملزم نامزد نہیں کیا گیا تھا۔ جبکہ اس کے خلاف کوئی ثبوت بھی موجود نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بری ہونے والے دیگر ملزمان ڈاکٹر عبدالستار، اقبال ادیب خانم اور عمر حسن قادری کے خلاف بھتہ وصولی سے متعلق شواہد موجود نہیں ہیں۔ فیکٹری مالک ارشد بھائیلہ نے بھی اپنے ویڈیولنک کے ذریعے عدالت میں دیئے گئے بیان میں انہیں بے قصور قرار دیا۔ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد مجھے پراسیکیوٹر جنرل سندھ کے دفتر میں بلایا گیا تھا اور کیس سے متعلق تفصیلی بات چیت کے بعد فیصلہ کیا گیا تھا کہ بری ہونے والے ملزمان کے خلاف اپیل داخل نہیں کی جائے گی۔

دوسری جانب سانحہ کے لواحقین کی داد رسی کے لئے جرمن کمپنی کی جانب سے بھیجی جانے والی رقم کو انشورنس کمپنی میں انویسٹ کیا جارہا ہے۔ لواحقین کی انشورنس کرائی جائے گی۔ معلومات نہ ہونے کی وجہ سے انشورنس پالیسی سمیت دیگر مراحل سے تاحال لواحقین پریشان ہیں۔

اس حوالے سے نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن پاکستان کے جنرل سیکرٹری ناصر منصور نے ’’امت‘‘ کو بتایاکہ ’’سانحہ بلدیہ کے 260 شہدا و زخمی مزدوروں کے لواحقین اور مزدور تنظیموں کی پاکستان اور بین الاقوامی جدوجہد کے نتیجے میں جرمن برانڈ ’’کک‘‘ KIK ایک معاہدہ کے تحت پانچ اعشاریہ ایک ملین ڈالرز لانگ ٹرم کمپنسیشن کے طور ادا کرنے پر راضی ہوا تھا۔

اس معاہدے پر انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے زیراہتمام بین الاقوامی مزدور تنظیموں انڈسٹریال گلوبل یونین اور کلین کلاتھ کیمپین کے ساتھ جرمن برانڈ کے نمائندے نے 2016ء میں دستخط کئے۔ اسی معاہدے کے تحت یہ رقم آئی ایل او کے جینیوا آفس کے حوالے کی گئی۔ معاہدے کے تحت رقم کی تقسیم اور اس سے متعلقہ دیگر معاملات کو طے کرنے کے لئے پاکستان کی سطح پر ’’اوور سائیٹ کمیٹی‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں حکومت، لواحقین، مالکان اور مزدور تنظیموں کے نمائندے شامل تھے۔

مزدور تنظیموں اور لواحقین کا مطالبہ تھا کہ معاہدے کی رو سے جرمن برانڈ کی جانب دی جانے والی رقم پاکستان لائی جائے اور اسے باہمی مشاورت سے انوسٹ کیا جائے کہ وہ لواحقین کی مالی معاونت کو تا حیات یقینی بنائے۔ اس سلسلے میں مزدور تنظیموں اور لواحقین کی تنظیم نے پاکستان کے نامور قانون دانوں کی مشاورت سے ایک انوسٹ منٹ پلان بھی آئی ایل او سے شیئر کیا تاکہ رقم کو تاحیات ادائیگی کا حامل بنایا جا سکے۔ لیکن اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

لواحقین اور مزدور تنظیموں کے مسلسل اصرار کے باوجود آئی ایل او پچھلے پانچ سالوں سے متاثرین کی رقم روکے بیٹھا تھا اور اسی رقم میں سے ہر ماہ سندھ سوشل سیکورٹی انسٹیٹیوٹ کے ذریعے لواحقین میں رقم تقسیم کرتا رہا جس سے اصل رقم میں مسلسل کمی ہونے کی وجہ سے رقم ایک بڑا حصہ ختم ہوگیا۔ جس کے بارے میں ابھی تک نہ تو لواحقین کو مطلع کیا گیا ہے اور نہ دیگر فریقین کو آگاہ کیا گیا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید بتایاکہ ’’سندھ حکومت نے اوور سائیٹ کمیٹی کو ختم کردیا ہے۔ جبکہ رقم کے معاملات آئی ایل او کو دیکھنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔

15 دسمبر 2022ء کو آئی ایل او نے ایک اجلاس بلایا اور اس اجلاس میں آئی ایل او اور ایک انشورنس کمپنی کے درمیان ایک ایسے معاہدے کی توثیق کی گئی جو اجلاس سے پہلے ہی بلا مشاورت سائن کیا جا چکا تھا۔ آئی ایل او نے ایک انشورنس کمپنی کو انویسٹمنٹ کے لئے لواحقین کو ملنے والی رقم دے دی ہے۔ جبکہ معاہدے کے نہ توڈرافٹ اور نہ ہی اس کے مندرجہ جات سے اب لواحقین اور متعلقہ مزدور تنظیموں کو آگاہ کیا گیا۔ لواحقین کو یہ تک نہیں معلوم کہ ان کوکتنے پیسے اور کب سے ملیں گے؟

ہم نے آئی ایل او کو لیٹر لکھے ہیں تاکہ تمام معاملات معلوم ہوسکیں۔ کیونکہ انشورنس کمپنی انویسٹمنٹ کا آغاز کرتی ہے اور پھر لواحقین کو ادائیگی کی شروع کرتی ہے۔ جس کے دوران کسی لواحقین کو پیسے نہ ملے تو اس سے مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ آئی ایل او یہ ذمہ داری نہیں لے رہی۔ لواحقین کو بھی کچھ نہیں معلوم ایسی صورت میں لواحقین کہاں جائیں گے اور در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجائیں گے۔ ہم قانونی ماہرین سے مشورہ کررہے ہیں اگر لواحقین کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا اور معاہدے کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا جاتا تو ہم سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے۔

ادھر سانحہ میں جھلس کر جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کا پنشن کی مد میں ملنے والی ماہانہ معمولی رقم سے گزارہ مشکل ہوگیا ہے۔ لواحقین میں شامل خواتین کو بچوں کی پرورش میں دشواری کا سامنا ہے۔

سانحہ میں جاں بحق ہونے والے 26 سالہ شاہ عالم کے والد صابر نے ’’امت‘‘ کو بتایاکہ ’’اس دردناک سانحہ نے ہماری دنیا ہی بدل کر رکھ دی۔ شاہ عالم میرا سب سے بڑا بیٹا تھا اور اس کی تنخواہ سے ہمارا گزر بسر بہت اچھا ہوجاتا تھا۔ جرمن کمپنی کی جانب سے ملنے والی معاوضے کی رقم سے مجھے پنشن کی مد میں ماہانہ ساڑھے 7 ہزار روپے ملتے ہیں، ان پیسوں سے کیسے گزارا ہوسکتا ہے۔ میرا دوسرا بیٹا اب بڑا ہوگیا ہے وہ پرانی سبزی منڈی پر ایک کمپنی میں ملازمت کرتا ہے جو گھر چلانے میں مدد کرتا ہے ۔ ان کے علاوہ دو بچے ابھی چھوٹے ہیں جنہیں سرکاری اسکول میں تعلیم دلوا رہا ہوں۔ پہلے ہمیں سندھ ایمپلائز کی طرف سے پیسے ادائیگی ہوتی تھی۔ مگر اب کسی انشورنس کمپنی کے حوالے کردیا گیا ہے جوپنشن کی ادائیگی کرے گی۔ جبکہ ہمیں پیسے کیسے ملیں گے کون دے گا کوئی معلومات نہیں ہیں۔‘‘

سانحہ میں جاں بحق ہونے والے رحمت علی کی اہلیہ روزینہ کا کہنا تھا کہ ’’سانحہ میں میرے شوہر رحمت شہید ہوئے تھے۔ میں نے دعویٰ اس لئے دائر کیا ہے کیونکہ ہمارا گزارہ مشکل ہوگیا ہے۔ شوہر زندہ ہوتے تو وہ کماتے اور ہمارا خیال رکھتے۔ مگر ان کے گزر جانے کے بعد زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ میری ایک بیٹی جسکا نام عروج ہے وہ ابھی چھوٹی ہے اس کے اخراجات پورے کرنے میں بہت دشوری کا سامنا رہتا ہے اگر بیٹا ہوتا تو وہ آگے چل کر کماتا اور میرا ساتھ دیتا۔ ہمیں سندھ ہائی کورٹ کی طرف سے پیسے ملے تھے اور جرمن کمپنی کی جانب سے دیئے جانے والے پیسے پنشن کی شکل میں ملے، مگر وہ اتنے نہیں کہ ان سے ہمارا گزر بسر ہوسکے۔‘‘

سانحہ میں جاں بحق ہونے والے غلام سرور کی اہلیہ عائشہ کا کہنا تھا کہ ’’سانحہ میں میرے شوہر اور ایک دیور شہید ہوئے تھے۔ میرے 5 بچے ہیں جن کی کفالت کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ بچوں کی پڑھائی لکھائی سمیت دیگر اخراجات پورے کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔ اس سے قبل مجھے فیکٹری مالکان کی جانب سے کوئی رقم نہیں ملی۔ مجبور ہوکر میں نے ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا تاکہ کچھ پیسے مل جائیں تو وہ بچوں کی کفالت کے لئے استعمال کرسکوں۔‘‘ سانحہ میں جاں بحق ہونے والی آمنہ بی بی کے شوہر اللہ بخش کا کہنا تھا کہ ’’یہ وہ الم ناک واقعہ تھا جسے کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ اس سانحہ میں میری اہلیہ جاں بحق ہوئی تھی۔ ہمارا ایک ہی بیٹا حسنین ہے جو ابھی 14 سال کا ہے۔ میں اتنا نہیں کما پاتا جس سے ہمارا گزارہ ہوسکے۔ بیٹا بھی ابھی بہت چھوٹا ہے اور وہ تعلیم حاصل کررہا ہے۔ اس کے اخراجات پورے کرنے میں دشواری کا سامنا رہتا ہے۔‘‘

سانحہ بلدیہ فیکٹری میں جاں بحق ہونے والے 6 افراد کے اہلخانہ نے عدالتوں میں ہرجانے کے دعوے بھی دائر کررکھے ہیں۔ ان دعوؤں سے متعلق درخواست گزاروں کے وکیل عثمان فاروق ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ، متاثرین کی جانب سے الگ الگ دعوے دائر کئے گئے تھے۔ تاہم فیکٹری مالک شاہد بھائیلہ کے گھر کا درست پتا نہ ہونے کی وجہ سے کیسز کی سماعت تاخیر کا شکار ہے۔ اس کیس میں فیکٹری مالک اہم فریق ہے اور اس کا جواب داخل ہونا بھی اہمیت کا حامل ہے۔ ابھی تک کسی فریق کی جانب سے جواب داخل نہیں کرایا جاسکا ہے۔ سانحہ بلدیہ فیکٹری میں 250 سے زائد مزدور جھلس کر جاں بحق ہوئے تھے۔ ان کے اہلخانہ کا ا س وقت گزارہ مشکل ہوگیا ہے۔ میں نے بلدیہ فیکٹری کے 6 متاثرین کی الگ الگ درخواستیں دعوے دائر کررکھے ہیں۔

متاثرین میں شامل خاندانوں میں 18 سے کم عمر کے بچے شامل ہیں۔ ان کے لئے معاوضے اور ہرجانے کے حوالے سے دعوے دائر کئے ہیں، جن میں فی کس ایک کروڑ روپے سے زائد کی رقم دلوانے کی استدعا کی گئی ہے۔ کوشش یہی ہے کہ متاثرین کو انصاف دلایا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ دعووں میں جو ہرجانہ مانگا جاتا ہے وہ مرنے والے کی عمر کا تعین کرکے نکالا جاتا ہے کہ مرنے والے کی صحت بالکل ٹھیک تھی اور اس کی عمر کتنی تھی؟ اس حساب سے ایوریج نکالی جاتی ہے کہ وہ مستقل میں مزید کتنی عمر تک کام کرکے پیسے کماسکتا تھا اور اس کی کمائی جانے والی دولت کتنی بنتی؟ اس حساب سے ہرجانے کے دعوے دائر کیے جاتے ہیں۔