رات بھرعمران خان کے ’’قلعے‘‘ پر ہُو کا عالم رہا- فائل فوٹو
رات بھرعمران خان کے ’’قلعے‘‘ پر ہُو کا عالم رہا- فائل فوٹو

الٹی میٹم کے بعد زمان پارک کے محافظوں کی سٹی گم

نواز طاہر:
پولیس کی طرف سے پی ٹی آئی کو دیے جانے والے الٹی میٹم کے نتیجے میں عمران خان کے ’’قلعے‘‘ زمان پارک پر ہُو کا عالم رہا۔ جبکہ وہاں سے فرار ہونے والوں کو مختلف ناکوں پر پولیس ایک ایک کرکے پکڑتی رہی۔

دوسری طرف بلووں میں گرفتار ہونے والوں کی معافی تلافیوں اور عمران خان پر کارکنوں اور ان کی خاندانوں کی گھن گرج جاری ہے اور انہوں نے عمران خان کو گمراہی پھیلانے کا عمل چھوڑ کر تعمیری سیاست کا مشورہ دیا ہے۔ تاہم ان کا خیال ہے کہ عمران خان ان کی یہ تجویز قبول نہیں کریں گے۔

واضح رہے کہ پولیس نے زمان پارک میں پناہ لیے انتہائی مطلوب 40 افراد کو حوالے کرنے کیلئے جمعرات کی دوپہر دو بجے تک کا الٹی میٹم دیا تھا۔ لیکن پی ٹی آئی نے ان افراد کو پولیس کے حوالے نہیں کیا۔ ان سطور کے لکھے جانے تک پولیس نے بھی زمان پارک پر آپریشن کیا نہ ہی کارکنوں نے ممکنہ گرفتاریوں کے خوف سے زمان پارک کا رُخ کیا۔ البتہ وہاں سے رات گئے کچھ لوگوں کے فرار ہونے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔

پولیس نے کارروائی کرکے کم و بیش ایک درجن افراد کو حراست میں لے لیا۔ جن میں سے آٹھ افراد کی گرفتاری کی سرکاری طور پر تصدیق کی گئی ہے۔ ایس ایس پی احسن جاوید نے بتایا کہ پکڑے گئے یہ تمام افراد 9 مئی کو پیش آنے والے واقعات میں میں ملوث ہیں اور زمان پارک میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ انہیں عمران خان کی رہائش گاہ سے فرار ہونے کی کوشش کے دوران گرفتار کیا گیا اور ان کی گرفتاریاں نہر کے پل سے کی گئی ہیں۔ جبکہ ان کے پاس اطلاع ہے کہ ان واقعات میں ملوث تیس سے چالیس افراد ابھی بھی اندر موجود ہیں۔ اسی لیے چیکنگ پوائنٹ بنائے گئے ہیں۔

زمان پارک میں پناہ لینے والے یہاں سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن پولیس کو دیکھتے ہی پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ ایس ایس پی احسن جاوید نے پولیس کے کسی گرینڈ آپریشن کے حوالے سے واضح جواب دینے سے گریز کیا اور کہا کہ پولیس اعلیٰ حکام کے فیصلے کے مطابق عمل کرے گی۔

ذرائع کے مطابق پولیس نے زمان پارک کے تمام راستوں پر غیر معمولی کارروائی کے لیے الگ اور معمول کی کارروائی کے لیے الگ ناکے لگائے ہیں اور اب تک سب سے زیادہ گرفتاریاں انہی ’’معمولی‘‘ ناکوں پر عمل میں آئی ہیں۔ یہاں چند ایک اہلکار جرائم پیشہ افراد پر نظر رکھنے کیے لیے تعینات ہیں۔ انہیں زمان پارک کے اندر سے انٹیلی جنس اطلاعات کی بلاتعطل فراہمی اور موومنٹ فراہم کی جاتی ہے۔ جیسے ہی کوئی وہاں سے نکلتا ہے اسے ابتدائی پڑتال کے دوران ہی گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ کچھ ملزم زمان پارک سے کینال پارک اور دھرمپورہ کی طرف نہر پر سے گزرنے والی پائپ لائن کے ذریعے فرار ہونے کی کوشش میں بھی پکڑے گئے۔

ذرائع کے مطابق زمان پارک میں مختلف گھروں کی بھی سرویلینس جاری ہے۔ جہاں سے مبینہ طور پر لاجسٹک سپورٹ فراہم کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب بھی ناکہ بندی کے بعد جب راستے کھولے گئے تو اس کا مقصد بھی فرار ہونے والوں کو گرفتار کرنے کے لیے ٹریپ کرنا تھا اور وہ اس ٹریپ میں آگئے۔ اطلاعات کے مطابق کئی مہینوں سے زمان پارک میں مقیم افراد بھی وہاں سے فرار ہونے کی کوشش میں ہی پکڑے گئے۔ جمعرات کو زمان پارک مکمل طور پر خالی رہا۔ البتہ شام کو مقامی افراد پارک کے اطراف گلیوں میں واک کرتے دکھائی دیئے۔ جبکہ مرشد چوک اور عمران خان کے گھر والی گلی میں صرف چند سیکیورٹی اہلکار، میڈیا، کارکن اور سرکاری سیکیورٹی اہلکار ہی گھومتے پھرتے نظر آئے۔

دوسری جانب گرفتار شدگان نے اہلخانہ سے رابطے شروع کر دیئے ہیں اور معافی تلافی کیلئے حکام سے رابطے تیز کر دیئے ہیں۔ لیکن حکام نے انہیں میڈیا کے سامنے اپنا کیس پیش کرنے کا مشورہ دے دیا ہے۔ ایسے ہی ایک خاندان کی دس سے زائد خواتین نے بچوں سمیت لاہور پریس کلب میں ہنگامی پریس کانفرنس کی اور بتایا کہ ان کے بچے جن کی عمریں چالیس سال تک ہیں، پولیس نے شک کی بنیاد پر گرفتارکیے ہیں۔ وہ کسی توڑ پھوڑ کے حامی نہیں اور انسانی بنیادوں پر رہائی کی اپیل کرتے ہیں۔ پریس کانفرس میں کئی دیگر خاندان بھی موجود تھے۔ لیکن میڈیا کے سوالوں کی بوچھاڑ پر کئی ایک وہاں سے چلے گئے۔

پریس کانفرس سے پہلے لاہور کے علاقے جوڑے پل سے آنے والے بہن بھائی نے بتایا کہ ان کا والد جناح چوک میں موجود افراد میں شامل تھا۔ وہ کسی اور کام کے لیے گیا تھا۔ مگر گرفتار ہوگیا۔ انہوں نے پی ٹی آئی سے تعلق کی نفی نہیں کی۔

اسی طرح شاہ نور ملتان روڈ سے آنے والی خواتین میں سب سے بڑی عمر کی گلشن بی بی نے بتایا کہ ہمارا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں۔ وہ توڑ پھوڑ کو غلط سمجھتی ہیں۔ پریس کانفرنس میں موجود ملتان روڈ ہی کے بہن بھائی نے بتایا کہ ان کا بھائی نجی اسکول کا مالک ہے اور لبرٹی چوک میں پی ٹی آئی کے مظاہرے میں ٹکِ ٹاک بنارہا تھا۔ اسی بنیاد پر اسے اٹھا لیا گیا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ پی ٹی آئی کا کارکن تھا لیکن وہ کسی توڑ پھوڑ میں شامل نہیں۔

اپنے رشتہ داروں کی رہائی کی اپیل کرنے کیلیے آنے والوں نے کہا کہ ساری صورتحال کا ذمہ دار عمران خان ہے۔ جس کا ذاتی طور پر کچھ نہیں بگڑا۔ لوگوں کے گھروں میں فاقے آگئے ہیں اور جیلیں بھر گئی ہیں۔ عمران خان ملک کی بہتری نہیں کر رہا۔ اس کے اشتعال دلانے پر ہی لوگ مشتعل ہوئے اور اب اپنے پیاروں کیلئے ترس رہے ہیں۔

ٹک ٹاکر و نجی اسول کے مالک گرفتار ملزم فاروق کی بہن اور بھائی نے کہا کہ ہم عمران خان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اشتعال انگیزی چھوڑ دیں اور وہ کام کریں جس سے ملکی نقصان کے بجائے تعمیری عمل ہو، وہ اب بھی اپنے کارکنوں سے اپیل کریں کہ پُر امن رہیں لیکن انہیں یقین ہے کہ عمران خان ان کے مشورے پر دھیان نہیں دے گا۔