امت رپورٹ :
توشہ خانہ فوجداری کیس میں سزا معطلی اور ضمانت پر رہائی کے عدالتی حکم کے بعد بھی عمران خان کے جیل سے فوری باہر آنے کا امکان نہیں۔ یہ بات قریباً تین ہفتے پہلے ’’امت‘‘ کے ان ہی صفحات پر شائع رپورٹ میں بیان کردی گئی تھی۔ ایسا ہی ہورہا ہے۔
توشہ خانہ کیس میں سزا معطل اور ضمانت پر رہا کئے جانے کے فیصلے کے بعد منگل کے روز عمران خان کی رہائی عمل میں نہ آسکی۔ کیونکہ مقرر وقت پر ضمانتی مچلکے جمع نہیں کرائے جاسکے تھے۔ تاہم اگر یہ مچلکے جمع کرابھی دیئے جاتے، تب بھی چیئرمین پی ٹی آئی کی رہائی کا امکان نہیں تھا۔ اس کا قانونی پہلو یہ ہے کہ سائفر کیس میں وہ پہلے سے گرفتار ہیں۔ خصوصی عدالت نے انہیں تیس اگست تک اٹک جیل میں ہی رکھنے کا حکم دے رکھا ہے۔ سائفر کیس میں اب عمران خان کو آج بدھ کے روز خصوصی عدالت میں پیش کیا جائے گا، جہاں ان کا مزید جوڈیشل ریمانڈ لینے کی کوشش کی جائے گی۔
زیادہ امکان یہی ہے کہ سائفر کیس میں ان کے جوڈیشل ریمانڈ میں مزید توسیع کردی جائے گی۔ اگر ایسا نہیں بھی ہوتا پھر بھی چیئرمین پی ٹی آئی جیل میں ہی رہیں گے کہ سانحہ 9 مئی کے ایک کیس میں بھی ان کی گرفتاری ڈالی جاچکی ہے۔ غرض یہ کہ جیل کا چکر عمران خان کے پائوں میں پڑچکا ہے۔ ایک کے بعد دوسرے کیس میں ان کی گرفتاری کا پورا چارٹ تیار ہے۔ اسلام آباد میں موجود باخبر ذرائع کے بقول اس ’’جیل چارٹ‘‘ کے تحت کم از کم ایک سے ڈیڑھ برس تک عمران خان کی جیل سے رہائی ممکن نہیں۔
اس سلسلے میں سب سے سنگین سائفر کیس کا مقدمہ چلانے کی تیاری اختتامی مراحل میں ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ سائفر کیس میں جلد ایف آئی اے کی جانب سے چالان عدالت میں پیش کردیا جائے گا، جس کے بعد اس کیس کے باقاعدہ ٹرائل کا آغاز ہوجائے گا۔ اس عمل کے شروع ہونے میں ایک سے ڈیڑھ ہفتہ لگ سکتا ہے۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ سائفر کیس میں عمران خان کے خلاف اس قدر ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ ان کا سزا سے بچنا مشکل ہوگا۔ جبکہ متوقع طور پر سزا بھی کم از کم سات برس تک کی سنائی جاسکتی ہے۔ طویل سزا کی صورت میں ان کو ضمانت دیئے جانے کا دروازہ بھی بند ہوجائے گا، جیسا کہ توشہ خانہ فوجداری کیس میں انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کیونکہ اس کیس میں ان کی سزا تین برس تھی اور قانونی طور پر تین برس کی سزا کو مختصر تصور کیا جاتا ہے اور مجرم کو عموماً ضمانت مل جاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ملک کی جیلوں میں ایسے سینکڑوں عام قیدی ہوں گے جن کے لئے یہ قانونی رعایت ’’حرام‘‘ ہے۔ حتیٰ کہ ایک برس کی سزا پانے والے کیپٹن (ر) صفدر کو بھی تین ماہ بعد ضمانت ملی تھی لیکن ’’لاڈلے‘‘ کی بات الگ ہے۔
باخبر ذرائع کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی انہونی نہیں ہوجاتی تو عمران خان کے جیل سے باہر آنے میں ایک سے ڈیڑھ برس لگ سکتے ہیں۔ اس کے لئے ان کے خلاف سائفر کے علاوہ القادر ٹرسٹ، وکیل قتل کیس اور سانحہ 9 مئی کے تحت درج متعدد مقدمات موجود ہیں۔ جبکہ یہ امکان بھی معدوم ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی آئندہ عام انتخابات میں حصہ لے سکیں۔ اس کے لئے توشہ خانہ فوجداری کیس میں ان کی نااہلی کا خاتمہ ضروری ہے اور یہ نا اہلی اس وقت ہی ختم ہوسکتی ہے ، جب توشہ خانہ فوجداری کیس میں سنائی جانے والی سزا کو عدالت ختم کردے۔ اس کیس میں سنائی جانے والی سزا کو ابھی اسلام آباد ہائیکورٹ نے صرف معطل کیا ہے۔ یعنی سزا اور نااہلی اپنی جگہ موجود ہے۔
اگلا مرحلہ سزا کے خلاف اپیل کی سماعت کا ہے، جو پہلے ہائیکورٹ میں سنی جائے گی۔ اگر ہائیکورٹ سزا کو برقرار رکھتا ہے تو معاملہ سپریم کورٹ میں چلاجائے گا۔ اس وقت تک سپریم کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کے ہمدرد تصور کئے جانے والوں میں سے ایک اہم شخصیت ریٹائر ہوچکی ہوگی۔ ویسے بھی قانونی ماہرین کے بقول اپیل کے فیصلے میں کم از کم ایک برس لگ سکتا ہے۔ چنانچہ یہ ممکن دکھائی نہیں دے رہا کہ عام انتخابات تک اپیل کا فیصلہ ہوجائے۔ اس صورت میں چیئرمین پی ٹی آئی الیکشن سے باہر ہوجائیں گے۔
پی ٹی آئی کے اعلیٰ حلقوں تک رسائی رکھنے والے ذرائع اعتراف کرتے ہیں کہ خود عمران خان کے وکلا کو بھی ان زمینی حقائق کا ادراک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ توشہ خانہ فوجداری کیس میں عمران خان کے وکلا، خاص طور پر لطیف کھوسہ کی کوشش تھی کہ کسی طرح سزا کالعدم کرالیں۔ یعنی اسلام آباد ہائیکورٹ سے ٹرائل کورٹ کے حکم کے خلاف فیصلہ لے لیا جائے ، لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ سزا محض معطل کی گئی۔ یوں چیئرمین پی ٹی آئی کے لئے یہ ایک ایسی خوشی ہے جس نے ماتم کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے۔ ان کی نہ جیل سے رہائی ممکن ہوسکی ہے اور نہ نااہلی اور سزا ختم ہوئی۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے ایک بار پھر اسلام آباد ہائیکورٹ کو اپنی امیدوں کا مرکز بنالیا ہے۔ توشہ خانہ فوجداری کیس میں سنائی جانے والی سزا معطل ہونے کے بعد عمران خان ایک ہی صورت میں ضمانت پر باہر آسکتے ہیں، جب اسلام آباد ہائیکورٹ دیگر کیسز میں ان کی منسوخ ہونے والی ضمانتیں بحال کرنے کا حکم دیدے۔ اسی کوشش کے تحت القادر ٹرسٹ اور سانحہ 9 مئی کے مختلف مقدمات سمیت تمام کیسز میں عمران خان کی خارج ہونے والی ضمانتوں کو پی ٹی آئی نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالت ان تمام مقدمات میں عمران خان کی گرفتاری سے پولیس کو روک دے اور خارج کی جانے والی ضمانتوں پر دوبارہ فیصلہ کرنے کی ہدایت کی جائے۔ اب دیکھنا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ اس سلسلے میں کیا فیصلہ کرتا ہے۔ تاہم ذرائع کا اصرار ہے کہ فی الوقت ’’قیدی بادشاہ‘‘ کو مزید ایک سے ڈیڑھ برس تک جیل میں ہی دیسی مرغیاں اور دیسی گھی میں پکائے گئے بکرے کا گوشت تناول کرنا پڑے گا۔