محمد قاسم :
پی ٹی آئی کا صوابی جلسہ بھی ناکام شو ثابت ہوا۔ دوپہر تک پشاورسمیت صوبے بھر سے ایک کارکن بھی سڑکوں پر نظر نہیں آیا۔ خالی کرسیوں اور پنڈال نے پی ٹی آئی کی کارکردگی اور عوام میں مقبولیت کا پول کھول دیا۔ صرف چند ہزار ورکرز ہی جلسہ گاہ گئے جنہوں نے پنڈال میں سب سے آگے جمع ہو کر نعرہ بازی کی۔
ورکرز کی کمی پورا کرنے کیلئے پشاور سمیت صوبے کے دیگر اضلاع سے آنے والے کارکنوں سے زیادہ گاڑیوں کی تعدا د تھی اور بعض گاڑیوں میں صرف ڈرائیور اور ڈرائیور کے ساتھ ایک یا دو ورکرز ہی سوار نظر آئے۔
ذرائع کے مطابق دوپہر تک پشاور سمیت صوبے کے مختلف اضلاع جہاں سے پی ٹی آئی رہنمائوں کو کارکنوں کو صوابی پہنچانے کا ٹاسک سونپاگیا تھا، کارکن گھروں تک ہی محدود رہے اور ہفتے کوچھٹی ہونے کی وجہ سے بھی زیادہ تر پی ٹی آئی کے ورکرز گھروں میں سوئے رہے۔
ذرائع کے مطابق اس دوران تحر یک انصاف کا سوشل میڈیا سرگرم رہا اور پارٹی ترانے چلائے جاتے رہے تاکہ کارکن زیادہ سے زیادہ تعداد میں قافلوں میں شامل ہو کر صوابی پہنچ جائیں۔ لیکن پھر بھی تحریک انصاف مطلوبہ ہدف پورا نہ کر پائی۔ اسی طرح پارٹی رہنما حجروں میں کارکنوں کی راہ تکتے رہے تاہم زیادہ تعداد اور جو ہدف رہنمائوں کو دیاگیا تھا اس کے مطابق کارکن اکھٹے نہ کر سکے۔ صوابی کے قریبی علاقوں مردان، چارسدہ، نوشہرہ سمیت سوات اور ایبٹ آباد سے بھی تحریک انصا ف کے کارکن صرف ٹولیوں کی شکل میں صوابی پہنچے جنہوں نے ہاتھوں میں پی ٹی آئی کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے اور گاڑیوں میں لائوڈسپیکرز کے ذریعے پارٹی ترانے چلارہے تھے تاکہ شور شرابے میں ورکر زکی تعداد کا معلوم نہ ہو سکے۔
جی ٹی روڈ سمیت مختلف مقامات پر چھوٹے چھوٹے پوسٹر لگائے گئے تھے جس میں صوابی جلسے کی تاریخ اور مقام کے بارے میں لکھا گیا تھا اس کے علاوہ کوئی بڑی ریلی نہیں نکالی گئی۔ بلکہ صرف سوشل میڈیا پر ہی پارٹی متحرک رہی ا س کے علاوہ وہ کارکن جو سوشل میڈیا زیادہ استعمال نہیں کرتے ان تک پیغام نہیں پہنچایاگیا۔ تاہم سوشل میڈیا پر بھی بڑے پیمانے پر مہم چلائے جانے کے باوجود بھی پی ٹی آئی بڑا جلسہ کرنے میں ناکام رہی۔
یہ بات باعث حیرت ہے کہ مسلسل تیسری مرتبہ صوبے میں تحریک انصاف کو حکومت ملی ہے اور اسلام آباد و لاہور کے جلسوں میں خیبرپختونخوا کے رہنمائوں اور ورکرز کے نہ پہنچ پانے کے باعث یہ امید کی جارہی تھی کہ صوابی میں ایک بڑا جلسہ منعقد ہو گا جس میں ہدف سے زیادہ کارکنان اور عوام شرکت کریں گے۔ تاہم صوبائی حکومت ہونے کے باوجود پی ٹی آئی صوابی میں ایک بڑا جلسہ نہ کر سکی اور کارکنوں نے اس میں عدم دلچسپی کا اظہار کر دیا۔
ماہرین کے مطابق یہ پی ٹی آئی کے لئے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لئے جو تحریک شروع کی گئی ہے اس کو پہلے مرحلے پر ہی دھچکا لگا ہے۔ اگر پی ٹی آئی صوابی میں ایک بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب ہو جاتی اور کارکنوں کا وہ کھویا ہوا اعتماد بحال کر لیتی جو اسلام آباد اور لاہور جلسوں میں کھوگیا تھا، تو امید تھی کہ اسلام آباد کی طرف مارچ اور دھرنے میں خیبرپختونخوا سے بڑی تعداد میں ورکرز شامل ہوتے۔
لیکن صوابی جلسے کے بعد یہ کہنا مشکل ہے کہ اسلام آباد مارچ اور دھرنے میں کتنے کارکن شامل ہوں گے اور دھرنا یا مارچ کامیاب ہو گا یا نہیں۔ کارکنان صوابی سے آگے پنجاب کی حدود میں کس طرح رکاوٹوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے اور اسلام آباد پہنچیں گے۔ کیونکہ پرویز خٹک دور حکومت میں جس طرح صوبے سے تحریک انصاف کے کارکنوں نے ہمت دکھائی تھی وہ ابھی تک دیکھنے کو نہیں مل رہی اور پرویز خٹک کو بانی پی ٹی آئی عمران خان نے اپنے ساتھ والی کرسی پر بٹھا کر ان کی تعریفوں کے پل باندھے تھے۔ لیکن اس وقت کی پی ٹی آئی او ر آج کی پی ٹی آئی میں فرق نظر آنے لگا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پرویز خٹک جب صوبے کے وزیراعلیٰ تھے تو کارکنوں کو متحرک رکھتے ان کو عزت و احترام دیتے تھے۔ لیکن موجودہ تحریک انصاف کی حکومت میں کارکن تحریک انصاف سے بدظن ہوتے جارہے ہیں جس کی ایک بڑی وجہ پارٹی رہنمائوں اور کارکنوں میں نااتفاقی ہے۔ جو پلان پارٹی رہنما بناتے ہیں اس پر کارکن تو عمل کرلیتے ہیں لیکن خود رہنما پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
اس کی واضح مثال گزشتہ اسلام آباد جلسے میں دیکھی گئی جب راستے ہی کئی رہنما واپس چلے آئے اور وزیراعلیٰ بھی کارکنوں سے سائیڈ پر ہوگئے۔ اس لیے پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کا کارکن پارٹی رہنمائوں کے رویے سے نالاں ہے۔ یہی وجہ ہے وزیر اعلیٰ گنڈاپور کی ورکرز سے کی جانے والی اپیلیں رائیگاں جا رہی ہیں۔