نمائندہ امت :
ضلع کرم کی تحصیل پارا چنار سے پشاور جانے والی مسافر گاڑیوں پر فائرنگ سے شہدا کی تعداد بڑھ کر 45 تک جا پہنچی ہے اور اس میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ اسپتال ذرائع کے مطابق شہدا میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ جبکہ زخمیوں کی تعداد 13 ہے۔
دہشت گردی کے اس واقعے پر جہاں کرم کی فضا سوگوار ہے اور متاثرین کے گھروں اور حجروں میں فاتحہ خوانی کا سلسلہ جاری ہے۔ وہیں خیبرپختون کے عوام پی ٹی آئی حکومت سے دلبرداشتہ ہیں۔ گزشتہ روز ہزاروں افراد نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا اور امن و امان کیلئے اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا۔ شہریوں نے کینٹ چوک میں احتجاجی دھرنا شروع کر دیا ہے۔ جہاں مشران سمیت سیکیورٹی کی بھاری نفری موقع پر موجود تھی اور علاقے میں امن بحال کرنے اور معمولات زندگی معمول پر لانے کیلئے اقدامات شروع کیے جا رہے تھے۔
جمعہ کے روز پورے ضلع کے تعلیمی ادارے اور بازار بند رہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق عوام میں صوبائی حکومت کے خلاف شدید مایوسی دیکھی گئی۔ کیونکہ ایک طرف درجنوں شہری دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے تو دوسری جانب صوبائی حکومت کو اتنی فرصت نہیں کہ متاثرین کی دادرسی کیلئے کوئی ذمہ دار آتا۔ صرف مذمتی بیانات اور احکامات جاری کیے گئے اور انہیں عوام نے زخموں پر نمک پاشی قرار دیا۔مشران نے مقامی لوگوں کے پاراچنار سے اسلام آباد تک ٹرانسپورٹیشن روٹ کے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔
دوسری جانب گورنر خیبرپختونخوا نے صوبے میں امن وامان کیلئے آل پارٹیز کانفرنس کا عندیہ دیا ہے۔ گورنر فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ بدامنی کے مسئلے پر صوبائی حکومت کا رویہ غیر ذمہ دارانہ ہے۔ صوبائی حکام اسلام آباد پر چڑھائی یا اپنے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے جلسے جلوس کرتے ہیں۔ لیکن اپنا صوبہ دہشت گردوں کے حوالے کر رکھا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اے پی سی گورنر ہاؤس میں منعقد ہوگی۔ جس میں تمام جماعتوں کے صوبائی صدور اور لیڈران کو مدعو کیا جائے گا۔ وزیر اعلیٰ جو ایک جماعت کے صوبائی صدر ہیں، کو بھی مدعو کریں گے۔ تاکہ وہ اپنا موقف سامنے رکھیں۔
انہوں نے کہا کہ سرکاری وسائل اسلام آباد پر چڑھائی کیلئے استعمال کیے جارہے ہیں۔ وفاق کو اب سخت پالیسی اپنانا ہوگی۔ اگر صوبائی حکومت صوبے کے وسائل پولیس یا اداروں کو لیکر اسلام آباد پر چڑھائی کرتی ہے تو ریاست کو قانون کے مطابق سخت ایکشن لینا چاہیے۔ ادھر ضلع کرم میں دلخراش واقعہ کے بعد پشاور سمیت صوبہ کے دیگر اضلاع میں سیکورٹی سخت کر دی گئی ہے اور خاص کر پشاور کے داخلی و خارجی راستوں کی کڑی نگرانی کی جانے لگی ہے۔
وزیراعلیٰ و گورنر ہائوس سمیت سنٹرل جیل پشاور اور دیگر حساس مقامات سمیت مساجد و امام بارگاہوں اور دیگر مذہبی مقامات پر بھی سیکورٹی کے سخت انتظامات دیکھے جارہے ہیں۔ تاہم صوبے میں مسلسل بڑھتی بدامنی اور دہشت گردی کے واقعات کے باعث عوام پی ٹی آئی کی حکومت سے نالاں نظر آرہے ہیں۔ جسے امن بحال کرنے سمیت عوامی مسائل کے حل اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کیلئے اقدامات اٹھانے چاہیے تھے۔ وہ دھرنے اور مارچ کی تیاری میں مصروف ہو کر عوام کو بھول چکی ہے۔ پشاور شہر سمیت مضافاتی علاقوں میں بھی پی ٹی آئی کے اسلام آباد مارچ کو لوگوں نے وقت کا ضیاع قرار دینا شروع کر دیا ہے۔