نمائندہ امت :
شدید تنقید اور شکایات کے بعد کرپٹ افراد سے پلی بارگین اور وی آر کے نیب کے محدود کیے گئے اختیارات حکومت سندھ، اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کو دینے کی تیاری شروع کر دی گئی ہے۔ اینٹی کرپشن کے اختیارات بڑھنے سے کرپشن کے خاتمے کے بجائے کرپشن میں اضافہ ہونے کے خدشات اور بڑھ جائیں گے۔ اس سلسلے میں اینٹی کرپشن کے حکام نے ایکٹ میں ترامیم کرنے کا مجوزہ مسودہ تیار کر لیا ہے۔ علاوہ ازیں اینٹی کرپشن سندھ کا انتظامی ڈھانچہ تبدیل کرنے کے لیے بھی رولز میں ترامیم کی گئی ہیں۔ مذکورہ ترامیم کے باعث سرکلر افسران کے پاس اب وہ پہلے جیسے اختیارات نہیں رہیں گے۔
اس ضمن میں باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب کی کارکردگی اور طریقہ کار پر شدید تنقید کرنے والی سندھ کی حکومت نیب کے محدود کیے گئے اختیارات اپنے کنٹرول میں لے کر استعمال کرنا چاہتی ہے۔ جس کے لیے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ سندھ کے ایکٹ میں ترامیم کرنے کی تیاری شروع کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں اینٹی کرپشن کے حکام نے مجوزہ مسودہ بھی تیار کر لیا ہے جو سندھ کابینہ سے منظوری کے بعد صوبائی اسمبلی میں ترمیمی بل کی شکل میں پیش کیا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جو ترامیم کی جارہی ہیں ان میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اینٹی کرپشن کو کرپٹ افسران و نجی ملازمین سے کرپشن کی رقم واپس لینے کے لیے کرپٹ افراد سے رضاکارانہ (وی آر) کے اختیارات دیے جائیں ساتھ ہی اینٹی کرپشن کو ایسے افراد سے پلی بارگین کرنے کے اختیارات بھی دیے جائیں۔ جہاں تک وی آر اور پلی بارگین کے اختیارات کی بات ہے تو اس پر سب سے زیادہ تنقید پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کی قیادت کرتی رہی ہے۔ جس کے بعد 2016ء میں نیب کے وی آر کرنے کے اختیارات ختم کر دیے گئے تھے اور پلی بارگین کے متعلق بھی نیب حکام کے اختیارات ختم کر کے وہ اختیارات احتساب عدالت کو دیئے گئے ہیں۔ نیب کو وی آر اور پلی بارگین کے جو اختیارات دیے گئے تھے اس کے متعلق یہ بتاتے چلیں کہ وی آر کی سہولت ان افراد کو ہوتی تھی جو تحقیقات کا مرحلہ آگے بڑھنے سے قبل ہی اپنی کرپشن کا اعتراف کر کے رقم واپس کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتے تھے۔
ایسے افراد کے لیے کوئی سزا نہیں ہوتی تھی۔ جبکہ پلی بارگین ان افراد سے کی جاتی ہے جن کے کیسز کی تحقیقات مکمل ہو جائے۔ اس کے بعد پلی بارگین کرنے والے افراد ناصرف رقم واپس کرتے بلکہ وہ کسی بھی سرکاری عہدے کے لیے دس برس کے لیے نا اہل ہو جاتے ہیں۔ نیب پر اس ضمن میں سب سے بڑی تنقید یہ ہوتی تھی کہ نیب حکام جان بوجھ کر کرپٹ افراد کو وی آر یا پی بی (پلی بارگین) کرنے پر آمادہ کرتے تھے۔ کیونکہ واپس کی گئی رقم میں ان کی کمیشن بھی شامل ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ اس حوالے سے پردے کے پیچھے ڈیل میں بھی رشوت کا عنصر شامل ہوتا تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ وہی اختیارات ملنے کی صورت میں اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ سندھ کے افسران نیب افسران سے بھی چار قدم آگے نکل سکتے ہیں۔ تاہم یہ بات ہے کہ نیب پر صوبائی حکومتوں کا کنٹرول نہیں جہاں تک اینٹی کرپشن کی بات ہے تو اس پر عملی طور پر صوبائی حکومت کا کنٹرول ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اینٹی کرپشن کا صوبائی وزیر بھی ہے۔ اور چیئرمین اینٹی کرپشن بھی حاضر سروس افسر تعینات ہوتا ہے۔ جس کی تعیناتی وزیراعلیٰ سندھ کی منظوری سے ہوتی ہے۔
ترمیمی مسودے کے مطابق جن افسران، سرکاری ملازمین و نجی افراد کو رضاکارانہ طور پر رقم واپس کرنے کے لیے وی آر کی سہولت دی جائے گی۔ اس کی منظوری چیف سیکریٹری سندھ کی سربراہی میں قائم اینٹی کرپشن کمیٹی نمبر ون کی منظوری سے مشروط ہوگی۔ جبکہ پلی بارگین کرنے کی اجازت دینے کے اختیارات اینٹی کرپشن کورٹ کو حاصل ہوں گے اور وی آر اور پی بی کرنے والے افسران و ملازمین ملازمت سے تو برطرف ہو جائیں گے لیکن انہیں کوئی سزا نہیں ملے گی۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ اینٹی کرپشن کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو گزشتہ چھ ماہ سے اس کی کارکردگی تقریباً زیرو ہے۔ اور کوئی ایسا محکمہ نہیں جس سے فیلڈ افسران کو منتھلی بھتہ نہ پہنچتا ہو۔ اس صورت حال میں اختیارات بڑھانے کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے؟
دریں اثنا حکومت سندھ نے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ سندھ کا انتظامی ڈھانچہ بھی ازسرنو تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں اینٹی کرپشن کے رولز میں ترامیم کی گئی ہیں۔ جس کے تحت اب ڈائریکٹر اسٹیبلشمنٹ کی جگہ اب ڈائریکٹر جنرل کا عہدہ ہو گا۔ اس طرح ڈویژن سطح پر گریڈ اٹھارہ کے ڈپٹی ڈائریکٹرز کی جگہ گریڈ انیس کے ڈائریکٹرز تعینات ہوں گے۔ جبکہ ضلعی سطح پر گریڈ سولہ کے انسپکٹرز اور گریڈ سترہ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹرز جو سرکلر افسر تعینات ہوتے تھے ان کی جگہ گریڈ اٹھارہ کے ڈپٹی ڈائریکٹرز تعینات ہوں گے۔