عمران خان:
ایف بی آر میں موجودہ چیئرمین کے تعینات ہوتے ہی ماتحت افسران کے ساتھ شروع ہونے والے اختلافات اب محصولات کے ہدف کے حصول پر اثرانداز ہونے لگے۔ ماتحت افسران نے ٹارگٹ سے ساڑھے 3 سو ارب سے زائد کے کم ریونیو کا ذمہ دار چیئرمین آفس کو قرار دے دیا۔ ایف بی آر افسران نے چیئرمین کے اقدامات پر تحریری تحفظات ظاہر کردیئے۔ خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ اگر حکومت نے صورتحال کنٹرول نہ کی تو شرائط کی عدم تکمیل کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام بھی متاثر ہوسکتا ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں سی ایس ایس افسران اور ڈی ایم جی افسران کے درمیان سرد جنگ شدت اختیار کرگئی ہے۔ جس کے نتیجے میں ایک جانب محصولات کیلئے مقرر کردہ حکومتی ہدف متاثر ہو رہا ہے تو دوسری طرف ان لینڈ ریونیو سروسز کے افسران نے چیئرمین آفس کے اقدامات کو متنازع قرار دے کر ہڑتال شروع کر دی ہے۔ رواں مالی سال کے ابتدائی 5 ماہ میں 356 ارب روپے کم وصولی بھی اصلاحات پلان کے نام پر افسران کے ساتھ رویے کا نتیجہ قرار دے دی گئی۔
ایف بی آر کے ماتحت ان لینڈ ریونیو سروسز افسران کی ایسوسی ایشن کے 1300 اراکین نے موجودہ چیئرمین ایف بی آر اور ان کی ٹیم کے خلاف خاموش ہڑتال اور احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ احتجاج میں گریڈ 17 سے گریڈ 22 تک کے افسران شامل ہیں۔ اس ضمن میں گزشتہ روز ایف بی آر آفیسرز ایسوسی ایشن کی جانب سے ایک بیان بھی جاری کیا گیا۔ جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ایف بی آر میں اصلاحات کے نام پر افسران کے تبادلوں اور ان سے مراعات چھیننے کا سلسلہ جاری ہے۔ جس کی وجہ سے ریونیو اکٹھا کرنے والے ادارے کی کارکردگی مستقل متاثر ہورہی ہے۔
ان لینڈ ریونیو سروسز افسران کی ایسوسی ایشن نے اپنی پریس ریلیز میں کہا کہ گریڈ 17 اور 18 کے جونئیر سی ایس ایس افسران کا ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں تبادلہ تو کردیا گیا اور وہ ریونیو اکٹھا کرنے میں اپنی خدمات بھی دے رہے ہیں۔ لیکن انہیں رہائش، علاج، فیول اور ٹی اے ڈی اے کی سہولت سے محروم کردیا گیا ہے۔ بلوچستان تبادلہ کیے گئے افسران اپنی مدد آپ کے تحت ہوٹلز میں رکے ہوئے ہیں۔
گریڈ 17 اور گریڈ 18 کے افسران کی اگلے عہدے پر ترقی کیلئے بورڈ کے اجلاس میں تاخیری حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔ ماضی میں انہی افسران کے ساتھ ہر مالی سال میں ایف بی آر نے وصولی کے اہداف حاصل کیے۔ لیکن موجودہ نااہل انتظامیہ کی حکمت عملی سے رواں مالی سال کے ابتدائی 5 ماہ میں 356 ارب کا شارٹ فال آگیا ہے۔ اگر موجودہ انتظامیہ کی حکمت عملی کا تسلسل یہی رہا تو وفاق کی جانب سے دیئے جانے والا ہدف پورا نہیں ہوسکے گا اور شارٹ فال بھی بڑھ جائے گا۔
ان لینڈ سروسز ایسوسی ایشن کی طرف کہا گیا کہ ہے اگر کسی افسر کے خلاف کوئی شکایت ہے تو شواہد دیں۔ کارروائی کی جائے گی۔ لیکن پسند ناپسند کے نام پر تبادلے اور افسران کو سائیڈ لائن کریں گے تو کارکردگی متاثر ہوگی۔ ان لینڈ ریونیو سروسز کے افسران کا کہنا ہے کہ موجودہ ایف بی آر چیئرمین اور ان کے اطراف موجود ٹیم کی وجہ سے بیشتر افسران نے کام کرنا چھوڑا ہے۔ جس سے مسائل آنے والے دنوں میں مزید بڑھ جائیں گے۔
’’امت‘‘ کو ایف بی آر کے ذرائع نے بتایا کہ ڈی ایم جی گروپ یعنی ایف بی آر کے باہر سے آکر ادارے میں چیئرمین تعینات ہونے والے راشد محمود لنگڑیال کے ساتھ ماتحت اور اعلیٰ ایف بی آر کی رنجش اور اختلافات اسی وقت شروع ہوگئے تھے۔ جب انہوں نے 8 اگست 2024ء کو چارج سنبھالا تھا۔ تاہم گزشتہ 4 ماہ کے دوران ان میں کمی آنے کے بجائے مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے۔
راشد محمود لنگڑیال کو حکومت کی جانب سے ایف بی آر میں اصلاحات لانے اور ادارے کی کارکردگی بہتر بنا کر محصولات میں اضافہ کرنے کا ٹاسک دے کر بھیجا گیا۔ لیکن اب تک اصلاحات کے نام پر جو اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ان کو ایف بی آر اور کسٹمز ونگ کے ملک بھر میں پھیلے فیلڈ فارمیشنز کے افسران کی حمایت حاصل نہیں ہو رہی۔ بلکہ افسران ان اقدامات پر باامر مجبوری بے دلی سے عمل درآمد کر رہے ہیں۔
چیئرمین ایف بی آر کو وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے دیئے گئے ٹاسک پر عملدرآمد میں مختلف چینلجز کا سامنا ہے۔ جن میں ایف بی آر آفیسرز کی جانب سے کی جانے والی شدید ترین تنقید کے ساتھ ہی مختلف فیلڈ فارمیشنز موژانداز میں ساتھ لے کر چلنے میں ناکامی جیسے مسائل شامل ہیں۔
’’امت‘‘ کو ایف بی آر اور وزارت خزانہ کے اہم ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق ادارے میں اصلاحات کیلئے حکومت گزشتہ کئی برسوں سے کوشاں ہے۔ حالیہ عرصہ میں آئی ایم ایف کی جانب سے بھی اس معاملے کو جلد از جلد مکمل کرنے کیلئے زور دیا گیا۔ جس کیلئے اس معاملے کو آئی ایم ایف کی جانب سے ان سفارشات میں شامل کرنا ہے۔ جن کو پورا کرنا حکومت پاکستان کیلئے نئے بیل آئوٹ پیکج کو مکمل طور پر حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے۔
ذرائع کے بقول اس سلسلے میں حکومتی کوششیں پہلی پی ڈی ایم حکومت کے زمانے سے جاری ہیں۔ جن کا تسلسل الیکشن سے قبل بننے والی عبوری حکومت کے دروان بھی رہا۔ تاہم اب نئی حکومت بننے کے بعد اس میں تیزی آگئی ہے۔ ذرائع کے بقول عبوری حکومت کے وزیر خزانہ شمشاد اختر نے اس پر تیزی سے کام کیا اور انہوں نے ایف بی آر کے ان لینڈ ریونیو سروسز گروپ اور کسٹمز ونگ کے افسران سے سفارشات طلب کیں۔ دونوں جانب سے سفارشات ملنے کے بعد شمشاد اختر کی جانب سے تجویز دی گئی کہ ایف بی آر کے ڈھانچے میں تبدیلی ناگزیر ہے۔
اس پرپوزل کے مطابق کسٹمز ونگ اور ان لینڈ سروسز کے گروپوں کیلئے علیحدہ علیحدہ سربراہان مقرر کیے جائیں۔ جو ایف بی آر چیئرمین کی طرح اپنے گروپوں کو چلانے میں بااختیار ہوں۔ تاہم دونوں گروپوں کو یکجا کرنے کیلئے وزارت خزانہ کے ماتحت ایک سیکریٹریٹ بورڈ بنا دیا جائے۔ اس تجویز میں یہ بھی تھا کہ دونوں گروپوں کی جانب سے جمع کیے جانے والے محصولات اور ان کے اخراجات کا حساب کتاب بھی علیحدہ علیحدہ ہونا چاہیے تاکہ ان کی کارکردگی کو علیحدہ علیحدہ جانچا جاسکے۔
ذرائع کے بقول اس تجویز پر بھی ایف بی آران لینڈ سروسز کے افسران کی جانب سے سخت تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ بعد ازاں ان سفارشات کے کھٹائی میں جانے کے بعد نئی حکومت میں سابق چیئرمین ایف بی آر امجد زبیر ٹوانہ کو وزیر اعظم کی جانب سے اصلاحات کیلئے ٹاسک دیا گیا۔ جس کو ایف بی آر میں صفائی مہم کا نام دیا گیا۔
اس مہم کے سلسلے میں رواں برس کے تیسرے مہینے سے سابق چیئرمین نے ان ایف بی آر اور کسٹمز افسران کی فہرستیں مرتب کرنا شروع کیں۔ جن کے ماتحت فیلڈ فارمیشنز کی کارکردگی اور ساکھ بھی بہتر نہیں تھی۔ اس سلسلے میں جون تک ایسے 100 سے زائد اعلیٰ افسران کی فہرست مرتب کرکے وزیر اعظم کو ارسال کی گئی اور ان کو عہدوں سے ہٹانے کی سفارشات دی گئیں۔ اس پر عمل درآمد کرتے ہوئے 22 گریڈ سے 19 گریڈ تک کے 100 زائد افسران کو عہدوں سے ہٹا کر ہیڈ کوارٹر میں بھیج دیا گیا۔
اس معاملے پر بھی ایف بی آر کے اندر بہت سی مخالف آوازیں سامنے آئیں اور ایف بی آر افسران نے سابق چیئرمین پر ذاتی پسند نا پسند کے ساتھ مخالف گروپوں کے خلاف انتقامی کارروائی کا الزام عائد کیا اور اس عمل میں شفافیت نہ ہونے کا شکوہ کیا۔ اس کے بعد یہ عمل بھی التوا کا شکار ہوگیا۔