پھانسنے کیلئے واٹس ایپ اور موبائل فون کال اہم ذریعہ ہیں، فائل فوٹو
 پھانسنے کیلئے واٹس ایپ اور موبائل فون کال اہم ذریعہ ہیں، فائل فوٹو

’’ہنی ٹریپ‘‘کے ذریعے اغوا برائے تاوان نیٹ ورک شہروں تک پھیل گیا

عمران خان :
سندھ اور پنجاب میں کچے کے علاقوں سے شروع ہونے والی ’’ہنی ٹریپ‘‘ کے ذریعے شہریوں کے اغوا برائے تاوان کی وارداتیں، اب ملک کے تمام بڑے شہروں تک پھیل گئی ہیں۔

ایف آئی اے ذرائع کے مطابق اس وقت ملک بھر میں خواتین کو استعمال کرنے والے درجنوں ہنی ٹریپرز گروپ سرگر م ہوچکے ہیں جن کی وارداتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ نسوانی جال میں پھنس کر لٹنے والوں میں زیادہ تعداد سرکاری افسران اور تاجروں کی ہے۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے اب اس مذموم دھندے کو باقاعدہ منظم جرائم کی فہرست میں شامل کرلیا گیا ہے۔ ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ زیادہ تر وارداتوں میں شہری اپنی عزت بچانے کے لئے لاکھوں روپے ادا کرنے کے بعد خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ اس لئے ان وارداتوں کے درست اعداد و شمار، رپورٹ ہونے والے واقعات سے کہیں زیادہ ہیں۔ زیادہ تر ہنی ٹریپ گروپ لاہور، کراچی، روالپنڈی، جہلم اور گجرات کے اطراف سرگرم ہیں ۔

ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ سے ملنے والی معلومات کے مطابق یومیہ بنیادوں پر ایسے واقعات رپورٹ ہونے لگے ہیں، جن میں شہریوں سے آن لائن دوستی کرکے ان کی غیر اخلاقی وڈیوز اور تصاویر کے ذریعے بلیک میلنگ کی جا رہی ہے۔ جبکہ کئی شہریوں کو ملنے کے بہانے ٹھکانوں پر بلا کر بلیک میل کیا جاتا ہے۔ دونوں صورتوں میں بلیک میل نہ ہونے والے شہریوں کے خلاف، خواتین کو استعال کرکے زیادتی کے مقدمات تک درج کروادئے جاتے ہیں۔ حالیہ عرصہ میں ایسے 2 درجن سے زائد ملزمان گرفتار کئے جاچکے ہیں جن سے تفتیش میں سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔ ایف آئی اے سائبر کرائمز ذرائع کے مطابق زیادہ تر متمول سرکاری افسران اور تاجروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ فوری طور پر بلیک میلنگ کرکے لاکھوں روپے مل سکیں۔ پیسے دینے کی سکت نہ رکھنے والے شہریوں پر وقت ضائع نہیں کیا جاتا۔ ’’شکار‘‘ پر کام کرنے سے پہلے سوشل میڈیا اور ریکی کے ذریعے اس کی مکمل معلومات جمع کی جاتی ہیں۔

اس ضمن میں ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ 2 برسوں میں ہنی ٹریپنگ کے واقعات میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کیونکہ ہنی ٹرپنگ میں ملوث گروپ اپنا کام سوشل میڈیا بشمول واٹس ایپ اور فون کالز سے شروع کرتے ہیں۔ اس لئے دور بیٹھ کر بھی کامیابی سے وارداتیں انجام دی جا رہی ہیں جس کے لئے شہریوں کے نام پر نکلوائی جانے والی موبائل سمیں استعمال کی جاتی ہیں جو ان گروپوں کو باآسانی دستیاب ہیں۔

گزشتہ دنوں، 8 ملزمان پر مشتمل ایک گروپ کو گرفتار کیا گیا جس میں 4 مردوں کے علاوہ کومل، عروج، عابدہ اور سدرہ نامی عورتیں بھی شامل تھیں۔ مذکورہ ملزمان نے اعتراف کیا کہ انہوں نے درجنوں شہریوں کے نام پر ایکٹو سمیں استعمال کرکے واٹس ایپ کھلوائے جن سے کئی شہریوں کو بلیک میل کیا گیا۔ ملزمان کی جانب سے منظم انداز میں وارداتیں کی گئیں۔ ملازمت کے حصول اور معاشی مدد کے لئے سرکاری افسران اور تاجروں سے رابطے کئے گئے۔ جبکہ بعد ازاں مستقل رابطہ رکھ کر دوستیاں کی گئیں۔ ان شہریوں سے وڈیو کالز پر قابل اعتراض حالت میں رابطے کرکے ان کا مواد جمع کیا گیا، جسے بعد ازاں استعمال کرکے لاکھوں روپے وصول کیے گئے۔

اسی طرح سے افضال شاہ عرف نیازی نامی ایک گروپ اپنے درجنوں کارندوں کے ساتھ مختلف علاقوں میں سرگرم پایا گیا۔ یہ گروپ اب تک سینکڑوں ایسی وارداتیں کرچکا ہے جس میں سرکاری افسران اور تاجروں کو بہلا پھسلا کر خواتین سے ملنے بلایا گیا اور ان پر تشدد کرکے اور ان کی وڈیوز بنا کر کروڑوں روپے بٹور لئے گئے۔ ان وارداتوں میں ہوٹل مالکان اور ڈاکٹروں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اس گروپ کے خلاف ہونے والی اب تک کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ اس گروپ کو پولیس، اسپیشل برانچ سمیت دیگر سرکاری اداروں کے متعدد اہلکاروں کی معاونت بھی حاصل ہے جو کئی شہروں میں انہیں شکار کئے گئے شہریوں کے خلاف خواتین کی مدعیت میں جھوٹے مقدمات درج کروا کر اور پھر لاکھوں روپے کے عوض حلح صفائی کروانے کے لئے سہولت کاری فراہم کر رہے ہیں۔ ان وارداتوں کے ذریعے جمع ہونے والی رقوم تمام فریقین میں تقسیم کردی جاتی ہے۔

ہنی ٹریپنگ یوں تو صدیوں سے انجام دیا جانے والا جرم ہے جو جاسوسی وغیر ہ کے لئے دنیا بھر میں استعمال کیاجاتا رہا ہے۔ تاہم گزشتہ عرصہ میں اس کا بے تحاشا استعمال کچے کے علاقوں راجن پور، شکار پور، سکھر، گھوٹکی اور رحیم یار خان وغیرہ کے علاقوں میں کیا گیا۔ ان وارداتوں میں کچے کے ڈاکوئوں نے ماضی میں آواز تبدیل کرنے والے موبائل فونز استعمال کرنے شروع کئے جس میں نسوانی آواز کا آپشن موجودہوتا تھا۔ شروع میں شہریوں کو خواتین بن کر دوستی کرنے کے بعد ملنے کے لئے کچے کے علاقوں کے قریب بلا کر اغوا کیا جانے لگا۔

بعد ازاں ان ڈاکوئوں نے باقاعدہ خواتین کو استعمال کرنا شروع کیا اور شہریوں سے وڈیوکالز پر دوستیاں کرکے یہ خواتین انہیں کچے کے علاقے کی طرف بلانے لگیں۔ جہاں ان سے لاکھوں روپے کا تاوان وصول کرکے چھوڑا جاتا ہے۔ یہ وارداتیں کچے کے علاقوں میں اس وقت بھی جاری ہیں۔ صرف گزشتہ ایک برس میں کچے کے علاقوں کے اطراف سے پولیس نے 1200 سے زائد ایسے افراد کو پوچھ گچھ کے بعد واپس شہروں کی جانب بھیجا، جنہیں مختلف قسم کے جھانسے دے کر بلایا گیا تھا۔ گزشتہ دنوں کراچی پولیس کے خصوصی تفتیشی شعبے اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ نے ڈاکو گڈیل شاہ کی اہلیہ کو گرفتار کیا جو اب تک ایک درجن سے زائد شہریوں کو دوستیاں کرکے کچے کے علاقوں میں بھجوا چکی تھی۔

ایف آئی اے ذرائع کے بقول ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور خراب معاشی حالا ت کی وجہ سے ان گروپوں کو بے شمار ایسی خواتین میسر آرہی ہیں جو شروع میں خود ان گروپوں کا شکار بنتی ہیں او ر پھر اپنی وڈیوز اور تصاویر سے بلیک میل ہوکر ان ملزمان کے لئے مستقل طور پر کام کرنا شرو ع کردیتی ہیں۔ اب تک کئی ملزمان ایسے بھی گرفتار ہوچکے ہیں جن کے چنگل سے ایسی مجبور خواتین کو بازیاب کروایا گیا ہے۔