فائل فوٹو
فائل فوٹو

صوبائی دفاتر خارجہ میں ایجنٹ مافیا کا راج

عمران خان :
وزارت خارجہ کے ماتحت فارن آفسز کے صوبائی کیمپ دفاتر میں ایجنٹ مافیا کی سرگرمیاں کنٹرول نہیں کیا جاسکیں۔ کچھ چیزوں کو آن لائن اور کمپیوٹرائزڈ کرنے کے حکومتی دعووں کے باجود فارن آفس کے بعض کرپٹ افسران اپنے فرنٹ مین ایجنٹوں کے ذریعے شہریوں کی ڈگریوں، شادی کے کاغذات اور دیگر سرٹیفکیٹس سمیت دستاویزات کی تصدیق کیلئے غیر ضروری تاخیری حربے استعمال کرتے ہیں۔ شہری اپنا کام جلد کروانے کیلئے ایجنٹوں کو رشوت دینے پر مجبور ہیں۔ جس میں سے زیادہ حصہ یہی ایجنٹ افسران کے حوالے کردیتے ہیں۔

’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق حالیہ عرصہ میں ملازمت، تعلیم اور رہائش کیلئے بیرون ملک جانے کے خواہشمندوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافے کے بعد فارن آفس کے کیمپ دفاتر میں رش کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ اس رش کو کرپٹ افسران اوران کے ایجنٹوں نے اپنی اضافی کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ غیر ضروری جانچ پڑتال کے نام پر تاخیری حربے استعمال کرکے زیادہ سے زیادہ کام ایجنٹوں کے ذریعے کرانے کی طرف راغب کیا جاتا ہے۔ کیونکہ شہری سمجھتے ہیں کہ جو کام وہ قواعد و ضوابط کے تحت قطار میں لگ کر جلدی نہیں کرواسکتے۔ وہ کام ایجنٹ فوری طورپر کروادیتے ہیں۔ کیمپ آفس کے ذرائع کے بقول وزارت خارجہ کے تحت فارن آفس ہی دنیا بھر میں پھیلے 85 سے زائد سفارتخانوں اور45 کے قریب قونصلیٹ کے ساتھ رابطہ رکھتے ہیں۔

پاکستان میں موجود شہریوں کے ساتھ خلیجی ممالک، یورپ، امریکہ اور کینیڈا میں موجود پاکستانی بھی جب اپنے اہلخانہ کو بلوانے کیلئے جدوجہد کرتے ہیں تو نکاح ناموں سے لے کر تعلیمی اسناد اور شناختی کوائف کی تصدیق فارن آفس سے ہی کرانا پڑتی ہے۔ شہریوں کیلئے یہ ایک لمبا اور مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ خاص طور پر جن دستاویزات کی تصدیق کی ضرورت پڑتی ہے۔ ان میں شناختی ثبوت سے لے کر تعلیمی اسناد تک کئی دستاویزات شامل ہوسکتی ہیں۔

بیرون ملک موجود پاکستانی شہری ہوں یا مشرق وسطیٰ میں رہائش پذیر افراد۔ جب انہیں شادی کے بعد اہلیہ کے ڈیپینڈنٹ ویزا کیلئے اپنی شادی کی دستاویزات کی تصدیق کرانے کی ضرورت پڑتی ہے تو سب سے پہلے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) سے میرج رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ (ایم آر سی) حاصل کرنا ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ یہ نکاح نامے سے تھوڑا مختلف ہے۔ نادرا کے ایم آر سی کے حصول کیلئے نکاح نامہ ہونا لازمی ہے۔ نادرا سے سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کیلئے مقامی یونین کونسل کے دفتر جانا ہوتا ہے۔ جو نکاح نامہ رجسٹر کرتے ہیں۔ اس کے بعد نکاح نامے کو نادرا میں جمع کرواکر ایم آر سی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جس سے شادی کی تصدیق ہوجاتی ہے۔ اس پورے عمل میں چند ہفتے لگتے ہیں۔ نادرا سے ایم آر سی جاری ہونے کے بعد اسے اسلام آباد میں وزارتِ خارجہ کے دفتر یا پھر بڑے شہروں میں اس کے کیمپ آفس میں لے جانا ہوتا ہے۔ یہاں بھی میاں بیوی میں سے کسی ایک کا ہونا ضروری ہے۔

اس مرحلے پر ایک فارم پُر کرنا ہوتا ہے اور فیس جمع کروانی ہوتی ہے۔ یہاں عام طور پر ایک طویل انتظار ہوتا ہے۔ حالانکہ دستاویز کی تصدیق وزارتِ خارجہ سے چند دنوں میں کردی جاتی ہے۔ وزارتِ خارجہ کی جانب سے ایم آر سی کی تصدیق ہونے کے بعد اسے میاں یا بیوی میں سے کسی ایک کی جانب سے متعلقہ سفارت خانے میں لے جایا جاتا ہے۔ یہاں بھی کچھ کاغذی کارروائی اور بھاری فیس انتظار کر رہی ہوتی ہے۔

سفارتخانے کی جانب سے سرٹیفیکیٹ کی تصدیق ہونے کے بعد اسے پاکستان سے باہر منتقل کیا جاسکتا ہے۔ جہاں مزید تصدیق اور فیس کی ادائیگی کرکے اس سرٹیفیکیٹ کو پاکستان سے باہر استعمال کر سکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہی کام جب ایجنٹوں کے ذریعے کروایا جاتا ہے تو تمام مراحل جلد نمٹ جاتے ہیں۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ فارن آفس کے کیمپ دفاتر میں ہر مرحلے کیلئے ایجنٹ سروس دیتے ہیں۔ جن شہریوں کو ٹوکن نمبر اور قطار کی کوفت سے بچنا ہوتا ہے، وہ بھی رشوت دے کر ایجنٹوں کے ذریعے ہی فیس جمع کرانے اور ٹوکن لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔

وزارت خارجہ کے تحت شہریوں کی آسانی کیلئے دستاویزات کی تصدیق کے عمل کی سرکاری فیس بہت کم رکھی گئی ہے۔ جو 30 روپے سے شروع ہوتی ہے۔ تاہم کرپٹ افسران اور ایجنٹوں کی اصل کمائی اسپیڈ منی سے ہوتی ہے۔ جو وہ ہزاروں روپے میں وصول کرتے ہیں۔ رشوت نہ دینے والوں کو طرح طرح کے ہتھکنڈے اور چھان بین کے غیر ضروری عمل سے گزارکر اتنا تھکا دیا جاتا ہے کہ وہ خود ہی ایجنٹوں کی مدد حاصل کرنے پر مجبورہوجاتے ہیں۔ یہ ایجنٹ کھلے عام دفاتر کے اندر اور باہر گھوم رہے ہوتے ہیں اور شہریوں کو اپنی خدمات پیش کرنے کیلئے دعوت دیتے ہیں۔ جبکہ سروس نہ لینے والوں کو بے جا تنگ کرنے کیلئے متعلقہ اسٹاف کو بھی اشارہ کردیتے ہیں۔

گزشتہ روز ایسی ہی ایک اطلاع پر ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل لاہور نے وزارت خارجہ کے رابطہ آفس لاہور میں کارروائی کرتے ہوئے 4 ایجنٹس کو گرفتار کرلیا۔ جن پر الزام ہے کہ وہ شہریوں سے دستاویزات کی تصدیق کے بدلے رقوم بٹور رہے تھے۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق، ملزمان غیر قانونی طریقے سے وزارت خارجہ کے رابطہ آفس میں اپنی خدمات فراہم کر رہے تھے اور شہریوں سے اضافی رقم طلب کر کے تصدیق کے عمل کو آسان بنانے کا وعدہ کرتے تھے۔ ملزمان نے جرم کا ٹی وی کیمروں کے سامنے اعتراف کر لیا ہے۔

گرفتار ہونے والوں میں گارڈ کرامت، سویپر عباس، ظفر اور عدنان شامل ہیں۔ ایف آئی اے نے ملزمان کے خلاف تحقیقات شروع کر دی ہیں اور مزید کارروائی کیلئے تفتیش کی جا رہی ہے۔ ذرائع کے بقول یہی سلسلہ کراچی، کوئٹہ، پشاور، اسلام آباد، پنڈی اور دیگر ریجن میں موجود دفاتر خارجہ کا بھی ہے۔ تاہم اس ضمن میں کبھی کبھار ہی حکام کو کارروائی کا خیال آتا ہے۔ ورنہ شہریوں کو ان کرپٹ افسران اور ایجنٹ مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑے رکھا جاتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2024ء تک ایک کروڑ 40 لاکھ سے زائد شہری دنیا کے مختلف ممالک میں ملازمتوں اور تعلیم کیلئے جاچکے ہیں۔ جنہوں نے فارن آفس کے کیمپ دفاتر کی خدمات حاصل کی ہیں اور اب بھی یومیہ ہزاروں افراد اپنی دستاویزات کی تصدیق کیلئے ان دفاتر کا رخ کر رہے ہیں۔