محمد قاسم :
طورخم بارڈر پر اس وقت صورتحال انتہائی کشیدہ ہے۔ تعمیرات کے تنازعہ سے شروع ہونے والے معاملات بگڑنے لگے ہیں۔ گزشتہ رات پاکستان اور افغان فورسز کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں 3 ایف سی اہلکاروں اور ایک شہری کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ دس دنوں سے جاری کشیدگی مزید بڑھنے پر لوگوں نے نقل مکانی شروع کر دی ہے۔
پشاور کے نواحی علاقے چمکنی سے تعلق رکھنے والے محمد ساجد لنڈی کوتل بازار میں فروٹ اور خشک میوہ کا کاروبار کرتے ہیں۔ انہوں نے دو دکانیں کرائے پر لے رکھی ہیں۔ ’’امت سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ علاقے میں حالات انتہائی خراب ہیں۔ پہلے وہ آسانی سے طورخم بارڈر کے ذریعے افغانستان سے فروٹ و خشک میوہ جات حاصل کر لیتے تھے۔ جس سے ان کو بھی فائدہ پہنچتا اور ساتھ ہی دوسری طرف سے سامان لانے والے افراد کو بھی کافی بچت ہو جاتی۔ لیکن گزشتہ دس دنوں سے حالات انتہائی سنگین ہیں۔
ایک طرف تو بارڈر بند ہے اور کاروبار بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پھر جتنا سامان دکانوں میں موجود تھا وہ سارا کا سارا ختم ہو چکا ہے۔ اس لئے مزید سامان افغانستان سے لانا اس وقت ممکن نہیں۔ جبکہ پشاور کی منڈیوں میں بھی صورتحال اس کی وجہ سے شدید متاثر ہوئی ہے۔ وہاں پھلوں سمیت خشک میووں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو گیا ہے۔ کیونکہ زیادہ تر سامان افغانستان سے ہی ان دنوں پشاور کی منڈیوں کو پہنچتا ہے۔ جبکہ یہاں سے بھی سبزیاں، مرغی، گوشت اور دیگر سامان افغانستان بھیجا جاتا ہے۔تجارت کا سلسلہ جاری رہنے سے دونوں طرف کے عوام خوشحال رہتے ہیں۔ تاہم تعمیرات کے معاملے پر کشیدگی بڑھنے کے باعث انہوں نے دکانوں کو تالے لگاکر اپنے گھر کا رخ کرلیا ہے۔ جب تک حالات بہتر نہیں ہوتے وہ گھر پر ہی رہیں گے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ لنڈی کوتل بازار سنسان ہوتا جارہا ہے۔ کیونکہ وہاں پر افغانستان سے تجارت بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے۔ اسی طرح پشاور سے افغانستان اور افغانستان سے پشاور تجارت رک جانے کے باعث بھی تاجروں کو کروڑوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے اور اگر مزید بارڈر پر صورتحال کشیدہ رہتی ہے اور بارڈر اگلے ایک ہفتے تک نہیں کھلتا تو نقصان اربوں روپے میں پہنچ جانے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ کیونکہ ذرائع کے بقول پیپل منڈی سمیت کارخانو مارکیٹ میں تیار سامان پڑا ہے جو افغانستان بھیجا جانا تھا۔ لیکن اب اس کے خراب ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔ اسی طرح افغانستان سے خشک میوہ جات اور بڑے پیمانے پر پھل جو رمضان کے مہینے میں پشاور سمیت صوبے بھر کو بھیجے جاتے تھے اور تاجر کروڑوں روپے اس کاروبار میں نفع کماتے، اب وہیں پر سارے کا سارا سامان پڑا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عیدالفطر کیلئے بھی افغانستان کے ساتھ بڑے پیمانے پر تجارت ہوتی رہی ہے۔ لیکن اس بار اگر عید تک معاملات ایسے ہی چلتے رہے تو کاروبار تباہی سے دوچا رہونے کا بھی خدشہ ہے۔ تاہم تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سرحد کے قریبی علاقوں سے بڑے پیمانے پر لوگوں نے محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی شروع کر دی ہے۔ متعدد خاندانوں نے پشاور شہر اور مضافاتی علاقوں میں اپنے رشتہ داروں کے گھروں کا رخ کیا ہے۔
اسی طرح بعض اطلاعات کے مطابق چار سدہ، مردان اور نوشہرہ میں بھی لنڈی کوتل کے کاروباری حضرات نے اپنا کاروبار منتقل کر دیا ہے۔ جبکہ پشاور کی منڈیوں میں بھی بعض تاجر کاروبار کی غرض سے پہنچے ہیں اور اکثر تاجروں نے سبزی منڈیوں سمیت مویشی منڈیوں کا رخ کیا ہے، جہاں پر روزانہ کی بنیاد پر کاروبار کر رہے ہیں۔
لنڈی کوتل کے ایک تاجر محمد عاشق نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وہ فروٹ کا کاروبار اور لین دین کرتے ہیں۔ تاہم حالات خراب ہونے پر پہلے انہوں نے پشاورکا رخ کیا اور اب سبزی منڈیوں سمیت فروٹ منڈیوں اور مویشی منڈی کا رخ کر رہے ہیں۔ جہاں پر ایک دن میں اچھی خاصی بچت ہو جاتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ تمام تاجر منتظر ہیں کہ کب بارڈر کھلے۔ اس وقت حکومت پاکستان اور افغانستان دونوں سے مطالبات کئے جارہے ہیں کہ سرحدی معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔ کیونکہ کشیدہ صورتحال سے عوام کا ہی نقصان ہوتا ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos