بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر تاوان وصول کیا جاتا تھا، فائل فوٹو
بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر تاوان وصول کیا جاتا تھا، فائل فوٹو

ایف آئی اے کا انسانی اسمگلروں پر کاری وار

عمران خان :
یورپ جانے کے خواب بیچنے والے انسانی اسمگلنگ نیٹ ورک کے مرکزی کرداروں کی گرفتاری کے بعد انتہائی سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔ ایف آئی اے کی تحقیقات میں گزشتہ روز پاکستان سے مراکش کے راستے یورپ اسمگلنگ نیٹ ورک بے نقاب ہوا، جس کے کارندوں کی جانب سے نوجوانوں کو عقوبت خانوں میں تشدد اور تاوان وصولی کے بعد رہا کیا جاتا تھا۔

’’امت‘‘ کو ملنے والی معلومات کے مطابق پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کا بھیانک کاروبار ایک بار پھر بے نقاب ہوگیا ہے۔ ایف آئی اے گوجرانوالہ زون کی تازہ کارروائی میں انکشاف ہوا ہے کہ ایک منظم نیٹ ورک نوجوانوں کو بیرون ملک ملازمت اور بہتر مستقبل کے خواب دکھا کر نہ صرف بھاری رقوم بٹورتا رہا، بلکہ متاثرین کو افریقی ممالک کے عقوبت خانوں میں یرغمال بنا کر بدترین تشدد کا نشانہ بناتا اور تاوان وصول کرنے کے بعد ہی رہا کرتا تھا۔

اس بڑے نیٹ ورک کے اہم کردار گرفتار ہوگئے ہیں جس کی تفصیل ایف آئی اے کے مطابق یوں ہے کہ ایف آئی اے نے کارروائی کرتے ہوئے چار ملزمان عمر حیات، محمد سفیان، محمد نعمان اور محمد عثمان کو گرفتار کیا ہے جو شہریوں کو یورپ اور کینیڈا بھجوانے کے بہانے کروڑوں روپے ہتھیانے اور پھر انہیں غیر قانونی راستوں سے گزارنے جیسے سنگین جرائم میں ملوث تھے۔

تحقیقات کے مطابق ملزم عمر حیات براہِ راست مراکش کشتی حادثے میں ملوث نکلا۔ اس نے علی حسن نامی نوجوان سے فرانس میں ملازمت دلوانے کے عوض 80 لاکھ روپے وصول کیے، مگر بدقسمتی سے وہ کشتی دورانِ سفر ڈوب گئی اور علی حسن تاحال لاپتہ ہے۔

جبکہ ملزم محمد سفیان اور محمد نعمان نے ایک اور شہری کو کینیڈا بھجوانے کے نام پر 87 لاکھ 50 ہزار روپے ہتھیائے۔ متاثرہ شخص کو کینیڈا کے بجائے انڈونیشیا بھیجا گیا، جہاں اسے ملزمان کے ساتھیوں نے یرغمال بنا کر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور بھاری تاوان وصول کرنے کے بعد ہی رہا کیا۔ بڑی مشکل کے بعد وہ وطن واپس لوٹنے میں کامیاب ہوا۔

اسی طرح ملزم محمد عثمان نے بھی ایک شہری کو کینیڈا میں ملازمت کا جھانسہ دے کر 11 لاکھ روپے بٹورے مگر وعدے کے مطابق بیرون ملک نہ بھجوا سکا اور روپوش ہوگیا۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق ان ملزمان کو حافظ آباد اور گجرات کے مختلف علاقوں سے گرفتار کیا گیا ہے۔ تفتیش سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ان کے پیچھے ایک وسیع بین الاقوامی نیٹ ورک موجود ہے جو مراکش اور دیگر افریقی راستوں کو استعمال کرتے ہوئے پاکستانیوں کو یورپ پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔

متاثرین اور ان کے اہل خانہ نے ایف آئی اے کو بتایا کہ ایجنٹ سبز باغ دکھا کر لاکھوں روپے وصول کرتے ہیں، مگر یورپ پہنچانے کی بجائے متاثرہ افراد کو پہلے افریقی ممالک جیسے سینیگال اور موریطانیہ لے جایا جاتا ہے۔ وہاں انہیں صحرائے صحارا کے دشوار گزار راستوں سے کئی ہفتوں کے اذیت ناک سفر کے بعد مراکش منتقل کیا جاتا ہے، جہاں عقوبت خانوں میں تشدد، بھوک پیاس اور تاوان کی اذیت ان کا مقدر بنتی ہے۔

ایف آئی اے کے مطابق رواں برس کے آغاز میں مراکش کے ساحل کے قریب ایک کشتی حادثے کا شکار ہوئی جس میں درجنوں پاکستانیوں کی زندگیاں نگل لی گئیں۔ ایف آئی اے کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ بدقسمت شہری سینیگال کے وزٹ ویزوں پر افریقہ پہنچے تھے، جہاں سے انہیں موریطانیہ اور پھر مراکش منتقل کیا گیا۔ بعدازاں انہیں بحیرہ روم عبور کر کے اسپین پہنچانے کی کوشش کی گئی مگر کشتی سمندر میں ڈوب گئی۔

پاکستانی سفارت خانے نے اس حادثے میں زندہ بچ جانے والے 21 پاکستانی شہریوں کی فہرست جاری کی ہے جنہیں مراکش کے ساحلی شہر دخلہ میں طبی امداد دی گئی تھی۔ جبکہ متاثرین نے بیان دیا تھا کہ انہیں کھلے سمندر میں کئی دن تک بھوکا پیاسا رکھا گیا، ان کے کپڑے اور قیمتی سامان چھین لیے گئے اور تشدد کیا گیا۔ بعض تارکین وطن کو تو سمندر میں پھینک بھی دیا گیا۔

اسی واقعہ کے حوالے سے تارکین وطن کے حقوق کی تنظیم واکنگ بارڈرز کی رپورٹ بھی ایف آئی اے نے کیس فائنل کا حصہ بنائی جس کے مطابق کشتی میں کل 86 افراد سوار تھے جن میں کم از کم 50 ہلاک ہوئے، جن میں 44 پاکستانی شامل تھے۔ اس واقعے کے بعد پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایک بار پھر انسانی اسمگلنگ کے سنگین خطرات پر توجہ مبذول ہوئی۔

ایف آئی اے ذرائع کے مطابق ایف آئی اے نے انکشاف کیا ہے کہ ان متاثرہ شہریوں کے پاسپورٹس پر لاہور، کراچی اور فیصل آباد ایئرپورٹس سے امیگریشن کلیئرنس دی گئی تھی۔ اس ضمن میں اس کے بعد 18 ایف آئی اے اہلکاروں کے کوائف ہیڈ کوارٹرز بھجوائے گئے تھے تاکہ یہ جانچ کی جا سکے کہ کس طرح یہ شہری باآسانی افریقی ممالک تک پہنچ گئے۔

یہ پہلا واقعہ نہیں۔ 2023ء میں لیبیا سے اٹلی جانے والی ایک کشتی یونان کے قریب ڈوب گئی تھی جس میں تقریباً 400 پاکستانی جاں بحق ہوئے تھے۔ یہ بحیرہ روم کی تاریخ کا ایک بڑا انسانی المیہ قرار دیا گیا۔ اس کے بعد دنیا بھر میں انسانی اسمگلنگ کے خلاف سخت اقدامات پر زور دیا گیا۔ پاکستان میں بھی اس سانحے کے بعد بڑے پیمانے پر کارروائیاں ہوئیں اور وزٹ ویزوں پر جانے والے کئی شہریوں کو ایئرپورٹس پر آف لوڈ کیا گیا۔ لیکن انسانی اسمگلروں نے اپنی حکمت عملی بدل لی اور اب سینیگال اور مراکش کے راستے استعمال کیے جا رہے ہیں، جہاں مقامی نیٹ ورکس پاکستانی ایجنٹوں کے ساتھ مل کر یہ مکروہ دھندا چلا رہے ہیں۔

ایف آئی اے کے مطابق بچ جانے والے پاکستانیوں کے اہل خانہ کے بقول وہ اپنے عزیزوں کو قانونی ذرائع سے بیرون ملک بھجوانے کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے، اسی لیے ایجنٹوں کے جھانسے میں آ گئے۔ لیکن یورپ کے خواب نے ان کی زندگیاں اجیرن بنا دیں۔ کئی خاندان آج بھی اپنے پیاروں کی لاشوں کے منتظر ہیں جبکہ بعض تاوان ادا کر کے بھی سکون کا سانس نہیں لے سکے۔ ملزمان کی گرفتاری کے بعد ایف آئی اے حکام نے شہریوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ بیرون ملک ملازمت یا ہجرت کے سلسلے میں صرف قانونی ذرائع اختیار کریں۔ انسانی اسمگلرز معصوم شہریوں کو سبز باغ دکھا کر جان لیوا راستوں پر ڈال دیتے ہیں جہاں بھوک، پیاس، بیماری اور سمندر کی بے رحم موجیں ان کا مقدر بن جاتی ہیں۔

ایف آئی اے کے مطابق پاکستانی نوجوانوں کو روزگار کی تلاش اور بہتر مستقبل کی خواہش میں ایجنٹوں کے جال میں پھنسنے سے روکنا نہ صرف ریاست بلکہ معاشرے کی بھی ذمہ داری ہے۔ جب تک سخت قوانین پر عملدرآمد اور عوام میں شعور اجاگر نہیں کیا جاتا، یہ سفاک نیٹ ورک غریبوں کی امیدوں کا سودا کرتا رہے گا اور یورپ کے خواب ان کے لیے موت کے پروانے بنتے رہیں گے۔