فائل فوٹو
فائل فوٹو

پنجاب میں سیلابی پانی کے بعد لاشیں برآمد ہونا شروع

نواز طاہر:
پنجاب میں سیلابی پانی کی تباہ کاریاں تاحال جاری ہیں۔ جبکہ بعض مقامات پر سیلابی پانی گزرنے کے بعد لاشیں برآمد ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ جبکہ متاثرین کو پانی سے خشکی تک لانے کی کارروائیاں بھی جاری ہیں۔ پنجاب حکومت نے سیلاب متاثرین اور خاص طور پر فصلوں سمیت املاک کو پہنچنے والے نقصان کا ابتدائی سروے مرحلہ وار شروع کر دیا ہے۔

پنجاب کے دریائوں چناب، راوی اور ستلج کا ابھی بھی ضلع ملتان اور بہالپور کے اضلاع کے تاریخی مقامات اور شہروں کو ہٹ کر رہا ہے۔ پانی سے قومی شاہراہ (موٹر وے فائیو) بھی بہہ گئی ہے۔ جلالپور پیر والا کے قریب گیلے والا کے مقام پر ایک روز قبل موٹر وے تک پانی پہنچنے سے ملتان سکھر موٹر وے (ایم فائیو) اچ شریف تک بند کردی گئی تھی اور پانی کو راستہ دینے کیلئے شگاف ڈالا گیا تھا۔ جس سے موٹروے کے بڑے حصے کو نقصان پہنچا ہے۔

مقامی ذرائع کے مطابق بظاہر ایک کلومیٹر تک موٹر وے کی بنیادیں ہل گئی ہیں اور وہ ناقابلِ استعمال ہوچکی ہے۔ لیکن بنیادی طور پر دو کلومیٹر سے زائد ٹکڑا ٹریفک کے استعمال کیلئے خطرناک ہے اور اس کی کم سے کم چار کلومیٹر طویل تعمیر ناگزیر ہوگئی ہے۔ موٹر وے کے ساتھ ساتھ ملحقہ بستیوں میں پانی رات کو ہی داخل ہوگیا تھا اور اس روٹ سے اوچ شریف کا زمینی رابطہ کٹ گیا تھا۔

دوسری جانب سیلاب کے پانی کی مقدار کم ہونے پر پانی نے لاشیں اگلنا شروع کر دی ہیں اور کناروں کے ساتھ اٹکی لاشیں بھی تیرنے لگی ہیں۔ دو روز کے دوران تین بچوں سمیت پانچ ایسی لاشیں ملی ہیں اور سیلابی علاقے میں مسنگ افراد کی زندگیوں کی دعائیں کی جارہی ہیں۔

جلاپور پیر والا، اوچ شریف اور علی پور میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا جائزہ لینے والے مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ یہاں اذیت اور بے بسی کا سماں ہے۔ ماسوا کسی زیز کا وجود دکھائی نہیں دیتا ۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مضبوط سے مضبوط دل والا انسان بھی یہ صورت حال دیکھ کر دل پکڑ کر بیٹھ جاتا اور سسکیاں لینا شروع کردیتا۔ اس کی تائید پاکستان نیوی کے ان ریسکیو اہلکاروں کی آبدیدہ گفتگو سے بھی ہوتی ہے، جنہوں نے سیلاب میں ڈوبی جوار کے فصل کے ساتھ اٹکی تین بچوں کی لاشین نکالیں۔

یہ سطور لکھے جانے تک ان کی شناخت نہیں ہوسکی ہے۔ تاہم خیال کیا جارہا ہے کہ یہ کسی قریبی علاقے سے ہی بہہ کر یہاں تک پہنچی تھیں۔ ادھر سیلاب کے دوران کچے کے علاقے کی کئی آبادیاں جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ نو گو ایریا بن چکی تھیں، کو پانی نے لپیٹ میں لیا تو اس جگہ سے آبادی کا اپنی محفوط پناہ گاہوں تک انخلا کچھ مغویوں کی رہائی کا باعث بھی بن گیا۔ ان مغویوں کو زنجیریں باندھ کر رکھا گیا تھا اور اسی حالت میں ان سات افراد کو پانی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ رسیکیو ٹیم کی بروقت کوشش سے ان کی جان بچ گئی۔

دوسری جانب پنجاب میں مرحلہ وار پرگرام کے تحت سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگانے کیلئے سروے شروع ہوگیا ہے۔ جنوبی پنجاب کے دیہی اور شہری علاقوں کے بعد اب پانی کچے کے علاقے میں چھوٹی چھوٹی بستیوں کو ڈبو رہا ہے۔ تاہم بتایا گیا ہے کہ وہاں سے مکمل انخلا ہوچکا تھا۔

سرکاری اعلامیے کے مطابق یہ سروے پیر کو شروع کیا گیا ہے۔ اور گزشہ روز منگل سے چنیوٹ، لاہور، سیالکوٹ، حافظ آباد، منڈی بہائوالدین سمیت دس اضلاع میں باقاعدہ شروع ہوگیا ہے۔ دوسرے مرحلے میں اٹھارہ ستمبر سے جھنگ، ملتان، اوکاڑہ، مظفر گڑھ اور خانیوال سمیت تیرہ اضلاع میں اور بیس ستمبر سے قصور، راجن پور، رحیم یار خان میں شروع ہوگا۔ جس کا ریکارڈ پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے پاس محفوظ کیا جائے گا۔

سیلابی ریلے نے پنجاب سے گزر کر سندھ کے ضلع گھوٹکی میں داخل ہوکر اپنے اثرات دکھانا شروع کر دیئے ہیں۔ اس ریلے سے قادر پور گیس فیلڈ کے چار کنویں متاثر ہوئے ہیں اور دس کنوئوں سے سپلائی روکی جا چکی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ سندھ میں دریا کا بیڈ وسیع ہونے کے باوجود پانی کا پھیلائو بڑھا ہے اور صوبائی حکومت نے پانی کنٹرول کرنے، آبادی کو محفوظ بنانے کیلیے جو دعوے کیے ہیں، ان پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔