سجاد عباسی :
بنوں میں ایف سی لین پر حملے اور افغانستان سے سرحد پار دہشت گردی کے دیگر بڑے واقعات کے بعد پاکستان نے افغان طالبان کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کیخلاف کارروائی پر مجبور کرنے کیلیے جامع اور جارحانہ سفارتی حکمت عملی تیار کرلی ہے، جس کیلیے عرب ممالک کی حمایت بھی حاصل جا رہی ہے۔ جبکہ دوسری جانب بھارت کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کی بیخ کنی کے لیے حکومتی سطح پر بڑا فیصلہ بھی متوقع ہے۔واضح رہے کہ پاکستان نے رواں ہفتے کابل میں افغان سفیر کو طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ جب کہ نمائندہ خصوصی برائے افغانستان صادق خان ایک سخت پیغام لے کر آئندہ ہفتے کابل جا رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق یہ تمام اقدامات وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے کابل کو دی گئی وارننگ کے تناظر میں ہو رہے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ افغان طالبان کو پاکستان یا خارجی دہشت گردوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جن کے کابل انتظامیہ سے سفارتی تعلقات ہیں۔ لیکن باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ تعلقات توڑنے کی نوبت آنے کا امکان نہیں اور معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر نہیں جائیں گے۔ البتہ اس کا دار و مدار افغان حکومت کے جواب پر ہے۔ دوسری جانب کابل انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ اس نے پاکستان کے ممکنہ دباؤ سے نمٹنے کیلیے حکمت عملی بنا لی ہے۔
گزشتہ چند مہینوں کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے توخیبرپختونخوا میں دہشت گرد حملوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ صوبائی محکمہ انسداد دہشت گردی کے اعدادوشمار کے مطابق جنوری 2025ء سے اگست 2025ء تک صوبے میں دہشت گردی کے 766 واقعات ہو چکے ہیں اور ان بڑھتے واقعات کو بالعموم افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے سے جوڑا جاتا ہے۔ کیونکہ کالعدم ٹی ٹی پی بلا خوف و خطر پاکستان پر حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے افغان سرزمین استعمال کر رہی ہے، جب کہ کابل انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ یہ پاکستان کے اپنے سیکورٹی معاملات کا نتیجہ ہے۔
خیبرپختونخوا کے سابق آئی جی اختر علی شاہ کا کہنا ہے کہ ماضی میں دہشت گردی پر کسی حد تک قابو پایا گیا، مگر امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان دوحہ معاہدے کے بعد ٹی ٹی پی کے لیے راستے مزید کْھل گئے۔ ان کے بقول افغانستان میں جیلوں کے دروازے کْھل گئے، بہت سے طالبان رہنما باہر آ گئے جہاں انھیں موافق حالات بھی میسر آ گئے۔ پناہ گاہیں اور تنظیمی اسٹرکچر پہلے سے موجود تھے جس کا انہیں فائدہ ہوا۔
گزشتہ ہفتے بنوں میں ایف سی لین پر دہشت گرد حملے کے بعد فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور وزیراعظم شہباز شریف نے بنوں کا دورہ کیا تھا، جہاں وزیراعظم نے افغان طالبان کو وارننگ دی کہ وہ ٹی ٹی پی یا پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لیں۔ وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس حوالے سے معاملہ کابینہ کے سامنے رکھا جائے گا اور بڑا فیصلہ ہوگا۔
ذرائع کے مطابق پاکستان نے ’’بڑے فیصلے‘‘ سے پہلے کابل انتظامیہ کے حوالے سے جامع اور جارحانہ سفارتی حکمت عملی پر کام شروع کردیا ہے۔ یہ حکمت عملی اسی طرح جارحانہ ہوسکتی ہے جیسی مئی میں بھارت کے ساتھ جنگ کے دوران اختیار کی گئی تھی جب ہر جانب سے بھارت کیلئے سفارتی حمایت کے راستے بند کیے گئے تھے۔ ذرائع کے مطابق اس حکمت عملی کے تحت افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے صادق خان نے متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا ہے اور وہ چند دن پہلے ہی واپس لوٹے ہیں۔ صادق خان کا یہ دورہ غیراعلانیہ تھا۔
دوسری جانب پاکستان نے دوست ممالک سے بھی رابطہ کیا ہے۔ بنوں حملے کی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت اور ترکیہ نے مذمت کی ہے۔ عرب ممالک نے اس حملے کے حوالے سے ملتے جلتے بیانات جاری کیے جن میں کہا گیا کہ وہ تشدد اور دہشت گردی کی ہر شکل کی مذمت کرتے ہیں۔ قطر نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ وہ دہشت گردی کو مسترد کرتا ہے ’’خواہ اس کے پیچھے وجوہات اور محرکات کچھ بھی ہوں۔‘‘
ذرائع کا کہنا ہے کہ جارحانہ سفارتی حکمت عملی کے تحت ہی پاکستان نے اسلام آباد میں عبوری افغان سفیر سردار احمد شکیب کو دفتر خارجہ طلب کیا اور خبردار کیا کہ کابل انتظامیہ خود کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے دور کرے اور اپنی سرزمین سے اس دہشتگرد گروپ کے خاتمے کیلئے کردار ادا کرے، بصورت دیگر اسے ’’مخاصمانہ‘‘ سرگرمی سمجھا جائے گا۔ ایڈیشنل سیکریٹری خارجہ سید اسد علی گیلانی نے پاکستان کے تحفظات سے افغان سفیر کو آگاہ کیا۔
ذرائع کے مطابق اسی سلسلے میں صادق خان آئندہ ہفتے دورے پر کابل جا رہے ہیں جہاں وہ افغان وزیر خارجہ امیر متقی سے ملاقات کریں گے اور انہیں اہم پیغام پہنچائیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ صادق خان کے افغان حکام سے اچھے تعلقات ہیں اور اس بات کا امکان کم ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ جائیں۔ لیکن اس بار سفارتی زبان کافی سخت ہونے کا امکان ہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان بگڑتے معاملات کے دوران چین ایک بار پھر اپنا کردار ادا کر سکتا ہے جو ماضی قریب میں بھی دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے موقع پر بروئے کار آتا رہا ہے، بالخصوص واخان سرحد پر بڑھنے والی کشیدگی کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ کم کرنے کے لیے چینی حکام نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں زیادہ اہم کردار عرب ممالک کا ہوسکتا ہے۔ قطر کی جانب سے بنوں حملے پر بیان جاری ہونے کے کچھ دن بعد افغان وزیر دفاع ملا یعقوب دوحہ پہنچے، جس میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پر بات کی گئی۔
ادھر کابل میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سفارتی مہم کے جواب میں کابل انتظامیہ نے بھی اپنی حکمت عملی پر کام شروع کردیا ہے۔ پاکستان میں افغان سفیر احمد شکیب نے تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود خان اچکزئی سے ملاقات کی ہے۔ اسلام آباد میں سابق اسپیکر اسد قیصر کی رہائش گاہ پر ہونے والی اس ملاقات میں دیگر افغان عہدیدار بھی موجود تھے۔ اس ملاقات کا زور پاک افغان سرحد کھلی رکھنے اور بات چیت پر تھا۔
ملاقات کے بعد اعلان کیا گیا کہ محمود اچکزئی کی قیادت میں ایک وفد آئندہ ہفتوں افغانستان کا دورہ کرے گا۔ افغان سفیر اور اچکزئی کی یہ ملاقات تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے اس بیان کے ساتھ سامنے آئی ہے کہ محمود خان اچکزئی کی قیادت میں وفد افغانستان بھیجا جائے۔
دوسری طرف سیاسی مبصرین عمران خان کے حالیہ بیانات کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے طور پر دیکھ رہے ہیں جس کا فائدہ ملک دشمن قوتیں اٹھا سکتی ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے اپنے بیان میں افغانوں کیخلاف ’’فالس فلیگ آپریشن‘‘ کی تیاریوں کے خطرناک الزامات بھی عائد کیے ہیں۔ تحریک انصاف سربراہ کے اس بیان کو افغان ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر اہمیت دی جا رہی ہے، جبکہ بھارتی میڈیا بھی اسے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
افغانستان کی جانب سے اپنے ذرائع ابلاغ میں یہ بیانیہ بھی ترتیب دیا گیا ہے کہ پاکستان افغان مہاجرین کو زبردستی افغانستان بھیج رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق کابل انتظامیہ کے کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے گریز کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ اپنے لیے ایک نیا محاذ نہیں کھولنا چاہتی، اسے پہلے ہی داعش کے سنگین خطرے کا سامنا ہے، تاہم پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ سرحد پار بڑھتے ہوئے حملے روکنے کے لیے افغان حکومت سرد مہری کا رویہ کیوں اپنائے ہوئے ہے۔
بعض ذرائع کے مطابق اس حوالے سے خود طالبان حکومت کے اہم ذمہ داروں کے درمیان بھی اختلاف پایا جاتا ہے اور کابل حکومت کے بعض ذمہ دار ٹی ٹی پی کو نکیل ڈالنے کے حق میں ہیں، تاہم انہیں فیصلہ سازی میں مرکزی حیثیت حاصل نہیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ماضی قریب میں بھی ٹی ٹی پی کی بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے باعث کابل کے ساتھ تعلقات بگڑنے پر صادق خان نے اہم کردار ادا کیا تھا، جس کے بعد وزیر خارجہ اسحاق ڈار کابل کے ہنگامی دورے پر گئے تھے جہاں طالبان حکومت نے اپنی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ مگر یہ وعدہ وفا نہ ہو سکا۔
ذرائع کے مطابق اسحاق ڈار اس بار بھی کسی ’’بریک تھرو‘‘ کیلئے پرامید ہیں۔ دوحہ میں الجزیرہ ٹی وی کو انٹرویو میں انہوں نے کہاکہ پاکستان کے کابل کے ساتھ تعلقات ’’بہتر‘‘ ہوئے ہیں۔ اسحاق ڈار کے مطابق انہوں نے 19 اپریل کو کابل کا دورہ کیا تھا اور اس دوران جو فیصلے ہوئے ان پر 30 جون تک عمل درآمد ہوچکا تھا۔ وزیر خارجہ کا یہ بیان وزیراعظم شہباز شریف کی کابل کو سخت وارننگ کے بعد سامنے آیا ہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان کابل انتظامیہ کو معاملے کی سنگینی کا احساس دلانا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں سفارتی دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔ لیکن سفارت کاروں کی صفوں میں موجود بیشتر لوگ افغانستان کے ساتھ معاملات خراب کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ البتہ حکومت، سرحد کی دونوں جانب کالعدم تحریک طالبان کیلئے کسی معمولی سے بھی حمایت کی اجازت دینے کو تیار نہیں خواہ یہ حمایت سیاسی ہو یا کسی اور شکل میں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos