سلمان اکرم راجہ اور جنید اکبر کی کمپین رائیگاں گئی ، فائل فوٹو
سلمان اکرم راجہ اور جنید اکبر کی کمپین رائیگاں گئی ، فائل فوٹو

تحریک انصاف کے جلسوں کا 14واں سیاسی جنازہ

امت رپورٹ :

پشاور میں اتوار کو پی ٹی آئی کا ناکام ترین جلسہ پچھلے قریباً پونے دو برس کے دوران اب تک کا چودھواں سیاسی جنازہ تھا۔ عمران خان کی گرفتاری سے لے کر اب تک تحریک انصاف احتجاجی تحریک کے طور پر دو درجن سے زائد جلسے ، لانگ مارچ یا ریلیاں نکال چکی ہے۔ یہ تمام شو بدترین ناکامی سے دوچار ہوئے۔ ان جلسوں اور ریلیوں کا آغاز 9 مئی دو ہزار چوبیس کو ہوا تھا۔ جبکہ ستائیں ستمبر کو پشاور میں ہونے والا پی ٹی آئی کا یہ 14واں جلسہ تھا۔

اپنے ہی گھر خیبرپختونخواہ میں ہونے والے اس جلسے کی بدترین ناکامی نے پی ٹی آئی کی مقبولیت کی پول کھول دی ہے ۔ خیبرپختونخوا میں پچھلے بارہ برس سے پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور اسے پارٹی کا گڑھ کہا جاتا ہے۔ تاہم اتوار کے جلسے میں کارکنوں کی انتہائی کم تعداد کو لے کر سوشل میڈیا پر اب تک بحث کا سلسلہ جاری ہے۔ دلچسپ امر ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے پہلے دعویٰ کیا گیا تھا کہ جلسے میں پچیس لاکھ کارکنان شریک ہوں گے۔ بعد میں ترمیم کرکے پانچ لاکھ کا اعلان کیا گیا۔ لیکن اس کے برعکس جلسے میں صرف چند ہزار کارکنان موجود تھے۔ ان میں سے بھی بیشتر تعفن اور گندگی کے باعث جلسہ ادھورا چھوڑ کر چلے گئے۔

سرکاری ذرائع کے مطابق جلسہ گاہ میں مجموعی طور پر چار ہزار کرسیاں لگائی گئی تھیں، جو زیادہ تر خالی رہیں، جبکہ حاضرین کی تعداد تین ہزار تک بتائی گئی ۔ تاہم آزاد ذرائع اور اس جلسے کو کور کرنے والے مقامی صحافیوں کے بقول یہ تعداد چھ ہزار کے قریب تھی، جو صوبے کی آبادی کے لحاظ سے مونگ پھلی کے دانے کے متعاف ہے۔ دو ہزار تئیس کی مردم شماری کے مطابق خیبرپختونخوا کی آبادی تقریباً چار کروڑ ہے۔ صوبے میں اس وقت پی ٹی آئی دو تہائی اکثریت کے ساتھ حکمراں ہے۔ صوبائی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد ترانوے ہے۔ اس لحاظ سے اگر ہر ایک ایم پی اے محض پانچ سو کارکنوں کو بھی لے کر آتا تو یہ تعداد چھیالیس ہزار پانچ سو بنتی۔

بتایا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے جلسے میں کارکنوں کی بھرپور تعداد لانے کے لئے صوبے میں پارٹی کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کے علاوہ ضلعی سطح پر پارٹی کے تنظیمی عہدیداران میں سات کروڑ روپے تقسیم کئے تھے۔ تاکہ وہ گاڑیوں کا بندوبست کرکے کارکنوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں جلسہ گاہ پہنچائیں۔ تاہم یہ پیسے بھی کام نہ آسکے۔ خود وزیراعلیٰ گنڈا پور کے ترجمان فراز مغل نے اعتراف کیا کہ وزیراعلیٰ کارکنوں کو لانے کے لئے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو پیسے دیتے ہیں۔ جبکہ کرک سے پارٹی کے نوجوان رہنما فاران خٹک نے ناصرف اسٹیج پر کھڑے ہوکر پشاور جلسہ ناکام ہونے کا اعتراف کیا، بلکہ یہ انکشاف بھی کیا کہ ہر ڈسٹرکٹ کو فی کس تیس لاکھ روپے دیئے گئے تھے۔ لیکن یہ پیسے کارکنوں کو جلسہ گاہ تک لانے کے بجائے جیبوں میں ڈال لئے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق جلسے کے انتظام پر مجموعی طور پر ایک ارب روپے کے قریب خرچ کئے گئے۔

حالیہ جلسے کی ناکامی کے بنیادی اسباب میں کارکنوں کی عدم دلچسپی اور قیادت کے مابین اختلافات سرفہرست ہیں۔ یہی وجوہات اس سے پہلے کے جلسوں اور ریلیوں کی ناکامی کا سبب بھی رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب ناکام جلسے کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالا جارہا ہے۔ جنید اکبر گروپ کے حامی ناکام جلسے کا ذمہ دار علی امین گنڈاپور کو ٹھہرارہے ہیں۔ جب کہ گنڈا پور کے حامیوں کا موقف ہے کہ اس کے ذمہ دار پارٹی کے صوبائی صدر جنید اکبر ہیں۔

ان میں سے بعض کا خیال ہے کہ علی امین گنڈا پور اور علی محمد خان سے کارکنوں نے جو بدتمیزی کی ، وہ بھی جنید اکبر کے اشارے پر کی گئی۔ واضح رہے کہ تقریر کے دوران علی امین گنڈا پور اور علی محمد خان پر بوتلیں اور جوتیاں پھینکی گئیں اور سخت نعرے بازی کی گئی۔ اس صورتحال سے پریشان گنڈا پور بمشکل پانچ منٹ کا انتہائی مختصر خطاب کرکے چلتے بنے۔ لوگ اسٹیج پر چڑھنے کی کوشش کرتے رہے۔ انہیں روکنے کے لئے تھپڑ مارے گئے۔ حسب عادت کچھ کارکنان خواتین کے پنڈال میں گھس گئے۔ جس پر افراتفری پھیل گئی۔

علیمہ خان بھی اپنے من میں زوردار تقریر کرنے کا ارمان لے کر جلسہ گاہ پہنچی تھیں، لیکن انہیں مکمل طور پر نظر انداز کردیا گیا۔ بالکل لفٹ نہیں کرائی گئی۔ حتیٰ کہ اسٹیج پر بھی نہیں چڑھنے دیا گیا۔ بدانتظامی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جلسے کے دوران دونوں گروپوں کے حامیوں کے مابین تین بار جھگڑا ہوا، جس پر پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا۔

یہ جلسہ صرف پشاور یا کے پی کے، کا نہیں تھا بلکہ پورے ملک سے کارکنوں کو لانے کا ہدف دیا گیا تھا۔ تاہم تمام تر سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال اور کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہونے پر بھی ٹاسک پورا نہیں کیا جاسکا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی قیادت اور کارکنان اس جلسے سے لاتعلق رہے۔ بالخصوص سندھ اور پنجاب کے کچھ رہنما ایک روز پہلے ہی پشاور پہنچ گئے تھے، تاکہ حاضری لگ جائے۔ صرف چند اپنے ساتھ مٹھی بھر کارکنان لے کر آئے۔

اس کا مقصد بھی تصاویر اور ویڈیوز بناکر سوشل میڈیا پر ڈالنا تھا۔ پنجاب کی نصف قیادت ایک عرصے سے پہلے ہی پشاور میں پناہ گزین ہے۔ ان میں سے بیشتر مختلف کیسوں میں مفرور ہیں۔ جلسے سے پہلے پی ٹی آئی کے مرکزی جنرل سیکریٹری سلمان اکرم راجہ، صوبائی صدر جنید اکبر اور پشاور کے صدر عرفان سلیم شہرکی گلیوں اور بازاروںمیں جلسے کے لئے کمپین چلاتے رہے۔ لیکن یہ حکمت عملی بھی کارکنوں کو متحرک نہ کرسکی۔

پنجاب یا اسلام آباد کے ناکام جلسوں اور ریلیوں پر پی ٹی آئی کی جانب سے یہ عذر تراشا جاتا تھا کہ پولیس نے ساری رات قیادت اور کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارے۔ جلسے والے روز سڑکیں بلاک کردیں۔ لہٰذا کارکنان جلسے میں نہیں پہنچ سکے۔ اس کے برعکس پشاور میں پولیس اپنی تھی۔ حکومت اپنی تھی۔ گھروں پر چھاپے پڑے نہ گرفتاریاں ہوئیں۔ اور نہ ہی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ لیکن پھر بھی لوگ باہر نہیں نکلے کہ وہ قیادت کی شعبدہ بازیوں سے اب تنگ آچکے ہیں۔

جلسے کی ناکامی کا ایک اور بنیادی سبب کچرا کنڈی کے نزدیک جلسے کو رکھنا بھی تھا۔ جس جگہ جلسہ کیا گیا، وہ کچا اور ناہموار پلاٹ بے نظیر بھٹو شہید اسپتال کے لیے مختص ہے۔ جہاں تاحال اسپتال تعمیر نہیں ہوسکا ہے۔ اس کے بجائے اس پلاٹ پر بلدیاتی ادارے پورے شہر کا کچرا لاکر پھینکتے ہیں۔ جس سے قرب و جوار میں ہر وقت شدید بدبو موجود رہتی ہے۔ جلسے کے دوران بیشتر کارکنان اس مقام کا انتخاب کرنے پر وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اور صوبائی پارٹی قیادت کو برا بھلا کہتے رہے۔ تعفن اس قدر تھا کہ لوگوں کو ناک پر رومال رکھنا پڑے۔