فائل فوٹو
فائل فوٹو

” تورابورا2” دکھادیں گے:خواجہ آصف کی دھمکی کا پس منظر کیا ہے؟

استنبول مذاکرات سبوتاژ کرنے پر پاکستان نے سخت ردعمل دیتے ہوئے افغانستان میں طالبان حکومت کو دوبارہ تورابوراپہنچانے کی دھمکی دے دی، پاکستان کی طرف سے طالبان جنگجوئوں کو بدامنی پھیلانے سے بازرہنے کا انتباہ دیا گیاہے ۔اسلام آبادنے کہا ہے کہ پاکستان کے خلاف مہم جوئی مہنگی پڑے گی۔

ترکیہ کی میزبانی میں پاکستان اور افغانستان کے چارروزہ مذاکرات ناکام ہونے کے بعدسوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں وزیردفاع خواجہ آصف نے کہاہے کہ پاکستان کو طالبان رجیم ختم کرنے یا انہیں غاروں میں چھپنے پر مجبور کرنے کے لیے اپنی پوری طاقت استعمال کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔
تورا بورا کی سلسلہ درسلسلہ غاریںمشرقی افغانستان کے سفید پہاڑوں میں واقع ہیں۔نائن الیون کے بعد جب افغانستان پر امریکہ نے یلغار کی تھی تو کابل پر قابض طالبان حکوات محض ایک ماہ تک مزاحمت کرپائی۔

سقوط کابل کے بعدطالبان تورابوراکے انہی غاروں میں روپوش ہوگئے تھے۔کابل کا کنٹرول حاصل کرنے کے تین ہفتے بعد امریکہ نے ان کا تعاقب شروع کیا کیا اور تورابورا پر ڈیزی کٹر بموں سے بے تحاشہ حملے کیے۔یہ کارروائی دسمبر2001ء کے اوئل میںشروع ہوئی تھی۔
تورابوراپر امریکی حملوں کے دوران ایک بار لیزر گائیڈڈ بموں اور میزائلوں سے نان اسٹاپ بھاری فضائی حملے 72گھنٹوں تک جاری رہے۔کئی ہفتوں تک اس آپریشن کے نتیجے میں طالبان کی بڑی تعداد ماری گئی تھی اور باقی تتربتر ہوگئے۔

امریکہ، افغان جنگ کی تاریخ میں تورابوراآپریشن کو ضرب المثل کی حیثیت حاصل ہوئی۔خواجہ آصف نے اسی صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان رجیم کی اگر خواہش ہو تو تورا بورا میں ماضی کی شکست کے مناظر، جہاں وہ دم دبا کر بھاگے تھے، دوبارہ دیکھنا یقینا اقوام عالم کے لئے ایک نیا دلچسپ منظر ہوگا۔

اپنی ایکس پوسٹ میں انہوں نے لکھا ہے کہ برادرملکوں کے کہنے پر، پاکستان نے امن کے لیے مذاکرات کیے۔ تاہم بعض افغان حکام کے زہریلے بیانات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ طالبان حکومت میں انتشار اور دھوکہ دہی بتدریج موجود ہے۔

خواجہ آصف نے سوشل میڈیا پر کہا کہ افسوس ہوتا ہے طالبان رجیم صرف اپنی قابض حکمرانی برقرار رکھنے اور جنگی معیشت کو بچانے کے لیے افغانستان کو ایک اور تنازع میں دھکیل رہی ہے۔ اپنی کمزوری اور جنگ کے دعووں کی کھوکھلی حقیقت کو بخوبی جاننے کے باوجود وہ طبل جنگ بجا کربظاہر افغان عوام میں اپنی بگڑتی ہوئی ساکھ بچانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔

خواجہ آصف نے مزید کہا کہ اگر افغان طالبان پھر بھی دوبارہ افغانستان اور اس کے معصوم عوام کو تباہ کرنے پر مصر ہیں تو پھر جو بھی ہونا ہے وہ ہو۔جہاں تک” سلطنتوںکا قبرستان” بیانیے کا تعلق ہے، پاکستان خود کو ہرگز کوئی ایمپائر نہیں کہتا، لیکن افغانستان، طالبان کی وجہ سے اپنے ہی لوگوں کے لیے ایک قبرستان سے کم نہیں۔ یہ کبھی سلطنتوں کا قبرستان تو نہیں البتہ ہمیشہ بڑی طاقتوں کے کھیل کا میدان ضرور رہا ہے۔

پاکستان طالبان کے جنگجوئوں کو خبردار کرتا ہے کہ اپنے ذاتی فائدے کے لئے خطے میں بدامنی کے لیے جو کام وو کررہے ہیں، انہوں نے شاید پاکستانی عزم اور حوصلے کو غلط انداز میں لیا ہے۔ خواجہ آصف کے مطابق اگر طالبان رجیم لڑنے کی کوشش کرے گی تو دنیا دیکھے گی کہ ان کی دھمکیاں صرف دکھاوا ہیں۔پاکستان اپنی سرزمین پر کسی بھی دہشت گردانہ یا خودکش حملے کو برداشت نہیں کرے گا اور کسی بھی مہم جوئی کا جواب سخت اور کڑوا ہوگا۔ طالبان رجیم کو چاہیے کہ اپنے انجام کا حساب ضرور رکھیں، کیونکہ پاکستان کے عزم اور صلاحیتوں کو آزمانا ان کے لیے بہت مہنگا ثابت ہوگا۔

استنبول میں مذاکرات کے دوران افغان طالبان کے وفد نے بارہا پاکستان کے ان تنظیموں اور دہشت گردوں کے خلاف قابل اعتماد اور فیصلہ کن کارروائی کے منطقی اور جائز مطالبے پر اتفاق کیا۔ پاکستان کی جانب سے کافی اور ناقابل تردید شواہد فراہم کیے گئے جن کا اعتراف طالبان مذاکرات کاروں کے ساتھ ساتھ میزبانوں نے بھی کیا تاہم افغان فریق نے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی۔

مذاکرات کے دوران افغان فریق بنیادی مسئلے سے انحراف کرتا رہا، جس اہم نکتے پر بات چیت کا عمل شروع کیا گیا تھا، افغان طالبان نے اس کے حوالے سے کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے الزام تراشی، ٹال مٹول اور چالبازی کا سہارا لیا۔ اس طرح بات چیت کوئی قابل عمل حل نکالنے میں ناکام رہی۔

پارلیمنٹ ہائوس اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں وزیردفاع خواجہ آصف کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ہماری سرحدی حدود کی خلاف ورزی ہوئی تو ہم بھی حملہ کریں گے، افغانستان کے اندر بھی جا کر جواب دینا پڑا تو دیں گے۔ افغان طالبان سے کل شام کو معاملہ مکمل ہوا ہے، ثالثوں پربھی یہ چیزعیاں ہوگئی کہ کابل کی نیت کیا ہے،کابل کی نیت میں فتور ظاہرہوگیا ہے۔خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اب دوا تو کوئی نہیں، دعا ہی کی جاسکتی ہے، اندیشہ ہے کہ طالبان افغانستان کو ماضی میں دھکیل رہے ہیں، افغانستان ریاست کی تعریف پر بھی پورا نہیں اترتا، طالبان ریاست کے تشخص کے عادی بھی نہیں اور نہ انہیں سمجھ ہے۔کابل حکومت میں کوئی ایسا موجود نہیں جو ریاست کی وضاحت کرے۔

وزیردفاع کا کہنا تھا کہ افغان سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال ہوئی تو بھرپور جواب دیں گے۔ کابل نے مزاحمت کا راستہ اپنایا ہے، اس طرح ہے تو پھر اس طرح سہی، افغانستان سب چیزوں کو مانتا ہے لیکن تحریری طورپر ضمانت دینے کو تیار نہیں۔