نواز طاہر:
پنجاب میں مقامی حکومتوں کے الیکشن میں مبینہ طور پر تاخیری حربے استعمال کرنے کا جو الزام صوبائی حکومت پر لگایا جارہا تھا، اب اس میں اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی بھی شامل ہوگئی ہے اور الیکشن کمیشن ایک طرح سے آئینی قانونی اور انتظامی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں تکنیکی طور پر’ سینڈوچ ‘ بن گیا ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر عدلیہ اور الیکشن کمیشن چاہیں تو مل کر ان تاخیری حربوں کو ختم کرکے الیکشن کرواسکتے ہیں۔
یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے آٹھ اکتوبر کو حتمی فیصلہ دیتے ہوئے پنجاب حکومت کو دسمبر کے آخری ہفتے میں بلدیاتی الیکشن کی ڈید لائن دی تھی۔ جس کے تحت یہ الیکشن پی ٹی آئی کے دور حکومت میں اس ڈیزائن کے مطابق ہونا تھے۔ لیکن اسی دوران پنجاب حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر لوکل گورنمنٹ کا نیا قانون منظور کرلیا اوراس کے تحت قواعد سمیت دیگرامور پرکام شروع کردیا۔ اور اسے الیکشن کمیشن کو جزوی طور پر آگاہ بھی کردیا جس کی روشنی میں امید کی جارہی تھی کہ دسمبر کے بجائے اگلے سال مارچ یا اپریل میں الیکشن ہوسکتے ہیں۔ لیکن اسی دوران اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی نے نئے بلدیاتی قانون کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا ہے اور اسے جزوی طور پر کالعدم قراردینے کی استدعا کردی ہے۔
اس کی بنیاد دستور کا سیکشن ایک سو چالیس الف بنیاد بنایا گیا ہے۔ جبکہ اسی سیکشن پر صوبائی اسمبلی کی طرف سے پہلے ہی ایک الگ نکتے کے طور پر آئین میں ترمیم کی سفارش کی گئی ہے۔ یہ سفارش ایک قرارداد کی صورت میں کی گئی ہے اور ساتھ ہی اسپیکر ملک محمد احمد خان کی طرف سے یہ بھی بتایا گیا تھا کہ لوکل گورنمنٹ کیس میں حکومتی جماعت مسلم لیگ ن کے ساتھ ساتھ حلیف جماعت پاکستیان پیپلز پارٹی اور اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کی طرف سے یکساں سپورٹ کی گئی تھی جنہوں نے اسمبلی کے اجلاس کے دوران بھی آبزرویشن دی تھی کہ آئین کے آرٹیکل ایک سو چالیس پر مقامی حکومتوں کے قیام کا ایجنڈا نامکمل ہے جو انہیں مدت کے حوالے سے سینیٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی طرز پر تحفط حاصل ہونے تک پورا نہیں ہوسکتا۔
اسی دوران پی ٹی آئی نے اس بلدیاتی قانون کو لاہور ہائیکورٹ مین چیلنج کردیا ہے اور اس ضمن میںپنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف معین الدین ریاض قریشی کی درخواست پر کی درخواست پر مسٹر جسٹس سلطان تنویر احمد نے ابتدائی سماعت کے بعد صوبائی حکومت، سیکرٹری بلدیات سمیت تمام فریقین سے جواب طلب کر لیا ہے۔ تاہم اس کی تاریخ مقرر نہیں کی گئی۔ آئین کے آرٹیکل سترہ کو بنیاد بنا کر دائر کی جانے والی اس درخواست میں بلدیاتی الیکشن غیر جماعتی بنیادوں پر تجویز کرنے کے اقدام ( قانون ) کو چیلنج کیا گیا ہے اور موقف اختیار کیا گیا ہے کہ آئین کا آرٹیکل سترہ شہریوں کو تنظیم سازی اور وابستگی کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے، مگر لوکل گورنمنٹ ایکٹ مجریہ سنہ دو ہزار پچیس عوامی نمائندگی کے اصولوں سے متصادم ہے۔ اس کے سیکشن پچیس، بتیس ، پینتیس چالیس اور سیکشن پچپن اس کے برعکس ہیں۔ کیونکہ مقامی حکومتوں کے قیام کا مقصد اور روح مرکز و صوبائی حکومتوں جیسا ہے جس میں یہ حکومتیں سیاسی جماعتوں پر الیکشن کروانے کے بعد منتخب ہوتی ہیں اور آئین و قانون کے تابع رہتے ہوئے آزادی و خود مختاری کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ لیکن موجودہ قانون میں اس روح کی نفی کی گئی ہے اور بیورو کریسی کے زیر نگیں کیا گیا ہے۔
پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے رکن چوہدری اعجاز شفیع نے اس درخواست کے باعث بلدیاتی الیکشن میں تاخیر ہونے کا سوال اٹھایا تو ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم جماعتی بنیادوں پر الیکشن کروانے کے خواہاں ہیں۔ جس طرح آئین میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کا ذکر ہے اسی طرح مقامی حکومتوں کا ذکر بھی ہے اور آئین میں کہیں نہیںلکھا گیاکہ یہ الیکشن غیر جماعتی بنیادوں پر ہوںگے جس سے مراد ہے کہ جس طرح ایوان بالا اور ایوانِ زیریں کے الیکشن ہوتے ہیں، مقامی حکومتوں کیلئے بھی یہی طریق کار ہوگا۔‘‘
بلدیاتی الیکشن اور مقامی حکومتوں کے نظام اور اس سے متعلقہ قوانین کے ماہر زاہد اسلام کا کہنا تھا کہ الیکشن کروانے والے چاہیں تو شیڈول کے تحت الیکشن ممکن ہے۔ شرط یہی ہے کہ عدلیہ اور الیکشن کمیشن اس میں اپنا آئینی کردار الیکشن کروانے کی طرف رحجان رکھ کر کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب یہ مسودہ قانون پنجاب اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے پر زیر بحث تھا تو پی ٹی آئی کے شیخ امتیاز محمود اس کے رکن تھے۔ اسی طرح لوکل گورنمنٹ کاکس میں بھی شامل تھے مگر انہوں نے اس پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا تھا اور قانون منظور ہونے کے بعد پی ٹی آئی عدالت میں چلی گئی ہے جس کا مقصد صرف تاخیری حربہ ہی ہوسکتا ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos