عالمی موسمیاتی کانفرنس کاپ 30 برازیل کے شہربیلیم میں جاری ہے۔اس دوران ماہرین کی طرف سے انتباہ دیا گیا ہے کہ ٹیکنالوجی بالخصوص مصنوعی ذہانت سے ماحول پر منفی اثرات کو نظر اندازنہیں کیا جاسکتا۔ان میں پانی کی شدید کمی سرفہرست ہے۔اے آئی ڈیٹاسنٹرز دنیامیں تیزی سے قلت آب کا باعث بن رہے ہیں۔
کاپ 30 کے دوران میزبان ملک برازیل میں تحفظ حقوق صارفین کے ادارے (آئی ڈی ای سی) کے مطابق روزمرہ کی ڈیجیٹل سرگرمیاں جیسا کہ موبائل فون کا استعمال اور آن لائن رابطے دراصل بڑے پیمانے پر معلومات ذخیرہ کرنے کے مراکز(ڈیٹاسنٹرز) پر انحصار کرتے ہیں۔ (ڈیٹاسنٹرز وسیع وعریض گوداموں میں بڑے بڑے کمپیوٹرز سے بھرے ہوتے ہیں جنہیں سرور کہتے ہیں)۔
یہ مراکز توانائی حاصل کرنے اور ٹھنڈک کے لیے پانی کی بے پناہ مقدار استعمال کرتے ہیں اور انہیں برقی آلات کے لیے بڑے پیمانے پر معدنیات کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایسے بہت سےمراکز قائم کرنے کے لیے ماحولیاتی مسائل کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور ان کے لیے ایسی جگہوں کا انتخاب ہوتا ہے جہاں ماحولیاتی ضابطے کمزور ہوں اور محصولات میں زیادہ سے زیادہ چھوٹ ملے۔
بتایاگیا ہے کہ دیگر کئی ممالک کی طرح برازیل بھی ایسے مراکز کو اپنی جانب راغب کرنے کی دوڑ میں شامل ہے جس سے پانی کا بحران مزید سنگین ہوسکتا ہے۔ نیدرلینڈز نے ایسے نئے مراکز کے قیام پر پابندی عائد کر دی ہے ۔چلی اور یوراگوئے نے ایسے مراکز بند کیے ہیں جو مقامی سطح پر خشک سالی میں اضافے کا باعث بنے۔
مصنوعی ذہانت کو ‘کاپ 30’کے باضابطہ مذاکرات میں شامل نہیں کیا گیا لیکن یہ اس کے لائحہ عمل کا حصہ ضرور ہے۔
اے آئی مشینوں میں استعمال ہونے والی خصوصی چپس کو صاف پانی اور نایاب معدنیات کی ضرورت ہوتی ہے۔جدید ڈیٹا سینٹرز اپنے سسٹمز کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بہت زیادہ پانی استعمال کرتے ہیں ۔ ایک بڑی فیسیلیٹی میں ایک دن میں 5 لاکھ گیلن پانی استعمال ہوتا ہے۔ کچھ ماہرین امکان ظاہر کرتے ہیں کہ 2027ء تک اے آئی کی پیاس پورے برطانیہ میں سالانہ پانی کی کھپت کے نصف تک پہنچ جائے گی۔
برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں واٹر سائنس، پالیسی اور مینجمنٹ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کیون گریکش کے مطابق ڈیٹا سینٹرز بنجر یا نیم خشک آب و ہوا میں بنائے جاتے ہیں کیونکہ یہ سرورز کے لیے ترجیحی ماحول ہے۔ حالاں کہ وہ علاقے پہلے ہی پانی کی قلت یا خشک سالی کا شکار ہیں۔
اراگون شمال مشرقی اسپین میں پانی کی شدید کمی سے دوچار علاقہ ہے جہاں، ایمیزون تین ڈیٹا سینٹرز کھولنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ اس منصوبے نے،، جس کے بارے میں امریکی ٹیکنالوجی کمپنی کا کہنا ہے کہ اس سے ہزاروں ملازمتیں پیدا ہوں گی، مقامی کسانوں اور ماحولیاتی کارکنوں میں تشویش پیداکردی ہے۔
برطانیہ میں، کلہم کے چھوٹے سے گاؤں آکسفورڈ شائر کو ’’ اے آئی گروتھ زونز‘‘ میں سب سے پہلے مقام کے طورپر منتخب کیا گیا ہے۔ یہ 30 سال میں پہلے نئے آبی ذخائر میں سے ایک کے قریب واقع ہے ،اس نا مزدگی نے خدشہ پیدا کر دیا ہے کہ یہ مقامی ضروریات کے لیے پانی کی فراہمی پر مزیدبوجھ ڈال سکتا ہے۔
پولیٹیکل رسک کنسلٹنسی یوریشیا گروپ کے سینئر تجزیہ کار نک کرافٹ نے کہا کہ ڈیٹا سینٹر کی مزید ترقی کے لیے یورپ بھر میںانتہائی خشک اور پانی کی کمی کے شکار علاقوں کو منتخب کیا جا رہا ہے۔
ڈیٹا سینٹر میں پانی استعمال ہونے کے معاملے کی پیچیدگی کا اندازہ کسب سے عام حقیقت سے لگایاجاسکتا ہے کہ عام طور پر کمپنیاں مقامی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت کرتے وقت سائٹ پر پانی کی ضرورت کا اظہارکرتی ہیں ہے –
اے آئی کی ترقی انسانی آبادیوں میں درکار پانی کو کم کرتی جارہی ہے۔
ڈیٹا سینٹرز میں مصنوعی ذہانت کے ماڈلزاور نظام کوکمپیوٹنگ پاور کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔اس مشینری کو چلانےکے لیے بہت زیادہ توانائی اور ٹھنڈارکھنے کے لیے پانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ ضروریات صرف اگلے چند سال میں تیزی سے بڑھنے کی توقع ہے۔
ایک اندازے کے مطابق، اگلے پانچ سال تک اے آئی سرور اور ڈیٹا سینٹرزمیں توانائی کی طلب تین گنا بڑھ سکتی ہے۔صرف 2028 تک، امریکہ میں اے آئی سرورز ٹھنڈے رکھنے کے لیے سالانہ 720 بلین گیلن پانی کی ضرورت ہوگی۔یہ مقدارساڑھے 18 ملین گھرانوں کے لیے کافی ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos