امریکی، روسی اور یوکرینی صدور۔فائل فوٹو

روس،یوکرین جنگ بندی کے لیے ٹرمپ کا 28 نکاتی امن منصوبہ کیا ہے؟

امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ نےروسی یوکرینی جنگ کے خاتمے کے لیے ثالثی کرتے ہوئے ایک 28 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا ہے۔یہ منصوبہ کییف میں یوکرین اور ماسکو میں روسی حکومت دونوں کو باقاعدہ طور پر تحریری شکل میں مل چکا ہے اور دونوں نے ہی اس فریم ورک دستاویز کی موصولی کی تصدیق بھی کر دی ہے۔

روسی صدر پیوٹن کا کہنا ہے کہ روس کو یوکرین جنگ بندی کے پرامن حل کے لیے امریکی تجاویز موصول ہوگئیں۔پیوٹن کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ تنازع کے پرامن حل کی بنیاد ہو سکتا ہے، منصوبے کی تفصیلات پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔

کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف کے مطابق اس معاملے پر فی الحال کوئی مشاورت نہیں ہورہی ،رابطے ضرور ہیں، لیکن ایسا کوئی باقاعدہ عمل نہیں جسے مشاورت کہا جا سکے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق یوکرین کو حفاظتی ضمانت دینے کیلئے نیٹو کے آرٹیکل 5 کے طرز پر حفاظتی یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں۔نیٹو آرٹیکل 5 کے مطابق کسی رکن ملک پر حملہ سب پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔

جنگ بندی مسودے کے مطابق معاہدہ دستخط کے بعد 10 سال نافذ العمل رہے گا۔

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی نے کہا ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ مجوزہ امن منصوبے پر کام کرنے کے لیے تیار ہیں جس کا مقصد روس کی یوکرین کے خلاف جنگ کو ختم کرنا ہے۔

یوکرین برطانیہ، فرانس اور جرمنی سے مل کرجنگ بندی کی اپنی تجاویز لانے پر کام کررہا ہے۔ صدر زیلنسکی نے فرانسیسی ہم منصب، برطانوی وزیراعظم اور جرمن چانسلر سے گفتگو کی ہے۔ یوکرینی صدر کا کہنا تھا کہ یوکرین اور اتحادی امریکی امن منصوبے میں یوکرین کے اصولی موقف کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ امریکا کے تیار کردہ دستاویز پر کام کر رہے ہیں، یہ ایک ایسا منصوبہ ہونا چاہیے جو حقیقی اور باوقار امن کو یقینی بنائے۔

فرانسیسی صدر نے اپنے یوکرینی ہم منصب سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین کے مستقبل کے بارے میں کسی بھی بات چیت میں کیف کو مکمل طور پر شامل کرنا چاہیے۔

یورپی اتحادیوں کی جانب سے اس منصوبے پر شدید اعتراضات سامنے آئے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ بظاہر امریکی تجاویز روس کے حق میں جاتی ہیں۔

فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں نوئل بارو نے برسلز میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں کہا کہ یوکرینی عوام امن چاہتے ہیں۔ایسا منصفانہ امن جو سب کی خودمختاری کا احترام کرے، ایک پائیدار امن جسے مستقبل کی جارحیت سے چیلنج نہ کیا جا سکے۔ لیکن امن کا مطلب کسی بھی صورت ہتھیار ڈالنا نہیں ہو سکتا۔

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی سربراہ کایا کالاس نے کہا کہ کسی بھی امن منصوبے کو آگے بڑھنے کے لیے یورپ اور یوکرین دونوں کی حمایت درکار ہو گی۔

پولینڈ کے وزیر خارجہ رادوسواف سیکسورسکی نے کہا کہ یورپ کی سکیورٹی ’داؤ پر‘ ہے، اور اسے کسی بھی ممکنہ معاہدے پر اعتماد میں لیا جانا چاہیے۔

صدر زیلینسکی کے دفتر نے جمعرات کو تصدیق کی کہ انہیں منصوبے کا مسودہ موصول ہوگیا ہے اور وہ آئندہ چند روز میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بات کریں گے۔ان کے دفتر نے منصوبے کے مواد پر براہِ راست کوئی تبصرہ نہیں کیا، تاہم یوکرینی صدر نے وہ بنیادی اصول واضح کر دیے جو ان کے بقول عوام کے لیے اہم ہیں۔

صدارتی دفتر کے بیان میں کہا گیا کہ آئندہ دنوں میں یوکرین کے صدر، صدر ٹرمپ کے ساتھ موجود سفارتی مواقع اور امن کے لیے درکار اہم نکات پر گفتگو کی توقع رکھتے ہیں۔

زیلینسکی نے ٹیلیگرام پر لکھا کہ یوکرین اور امریکا جنگ کے خاتمے کے لیے منصوبے کے نکات پر کام کریں گی۔ ہم تعمیری پیش رفت کے لیے تیار ہیں۔ روس کے ساتھ جنگ کے خاتمے کے لیے امریکی امن منصوبے میں شامل تجاویز پر واشنگٹن کے ساتھ مل کر خلوص نیت سے کام کریں گے، مگر اس عمل میں کییف کے قومی مفادات سے غداری بھی نہیں کریں گے۔

ہم وطنوں کے نام ایک ویڈیو پیغام میں صدر زیلنسکی نے عوام سے اپیل کی کہ وہ ملکی تاریخ کے موجودہ انتہائی مشکل لمحات میں متحد رہیں۔ ساتھ ہی زیلنسکی نے یہ بھی کہا کہ انہیں اندازہ ہے کہ امریکی امن منصوبے پر پیش رفت کے حوالے سے آئندہ ہفتے انہیں مزید بیرونی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

دو اعلیٰ امریکی اہلکاروں نے اپنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ کییف پر اس امن منصوبے کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی خاطر امریکہ نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ وہ تاحال جاری جنگ میں یوکرین کے ساتھ انٹیل جنس شیئرنگ اور امریکی ہتھیاروں کی فراہمی دونوں بند کر سکتا ہے۔

صدرٹرمپ کا 28 نکاتی منصوبہ یوکرین کے لیے علاقہ اور اسلحہ ترک کرنے سے متعلق ہے، اس منصوبے کے تحت روس کو مشرقی یوکرین کے وہ علاقے بھی دیے جا سکتے ہیں جو فی الحال اس کے قبضے میں نہیں۔اس کے بدلے یوکرین اور یورپ کو مستقبل میں روسی جارحیت سے بچانے کے لیے امریکی سیکیورٹی گارنٹی فراہم کی جائے گی۔

وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیویٹ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف گزشتہ ایک ماہ سے خاموشی کے ساتھ اس منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔امریکی اہلکار فریقین، یعنی یوکرینی اور روسی نمائندوں سے ایسی تجاویز لے رہے ہیں جو ان کے لیے قابلِ قبول ہوں۔

ترجمان وائٹ ہائوس کے مطابق یہ منصوبہ روس اور یوکرین دونوں کے لیے اچھا ہے، اور ہمارا یقین ہے کہ دونوں اسے قبول کر سکتے ہیں، اور ہم اسے مکمل کرنے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں یوکرین جمعرات تک امریکی امن معاہدہ قبول کرلے۔انہوں نے امریکی ریڈیو کو انٹرویو میں کہا کہ ان کے پاس بہت سی ڈیڈ لائنز تھیں لیکن اگر چیزیں ٹھیک چل رہی ہوں تو آپ ڈیڈ لائن میں توسیع کرتے ہیں۔ لیکن امن معاہدہ قبول کرنے کیلئے جمعرات کا دن مناسب وقت ہے۔

ٹرمپ جنگ بندی منصوبے کے 28 نکات

1۔یوکرین کی خودمختاری یقینی ہو گی۔
2۔روس، یوکرین اور یورپ کے درمیان ایک جامع، عدم جارحیت کا معاہدہ کیا جائے گا۔ گزشتہ 30 سال کے تمام ترابہام کو طے سمجھا جائے گا۔
3۔توقع ہے کہ روس پڑوسی ممالک پر حملہ نہیں کرے گا اور نیٹو مزید توسیع نہیں کرے گا۔
4۔امریکہ کی ثالثی میں روس اور نیٹو کے درمیان تمام سکیورٹی مسائل کو حل کرنے اور عالمی سلامتی کو یقینی بنانے اور تعاون اور مستقبل کی اقتصادی ترقی کے مواقع بڑھانے کے لیے کشیدگی میں کمی کے لیے حالات پیدا کرنے کے لیے بات چیت ہوگی۔
5۔یوکرین قابل اعتماد حفاظتی ضمانتیں حاصل کرے گا۔
6۔یوکرین کی مسلح افواج کا حجم6 لاکھ ہلکاروں تک محدود ہو گا۔
7۔یوکرین یہ بات اپنے آئین میں شامل کرنے پر راضی ہے کہ وہ نیٹو میں شامل نہیں ہوگا، اور نیٹو اپنے قوانین میں ایک ایسی شق شامل کرنے پر راضی ہے کہ یوکرین کو مستقبل میں داخل نہیں کیا جائے گا۔
8۔نیٹو نے یوکرین میں فوجی تعینات نہ کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
9۔یورپی لڑاکا طیارے پولینڈ میں تعینات ہوں گے۔
10۔امریکی سیکورٹی گارنٹی میں درج ذیل انتباہات ہوں گے:
امریکہ ضمانت کے لیے معاوضہ وصول کرے گا۔
اگریور یوکرین روس پر حملہ کرتا ہے تو وہ ضمانت کھو دے گا۔
اگر روس یوکرین پر حملہ کرتا ہے، تو فیصلہ کن مربوط فوجی ردعمل کے علاوہ، تمام عالمی پابندیاں بحال کر دی جائیں گی، نئے علاقے کو تسلیم کیا جائے گا اور اس معاہدے کے دیگر تمام فوائد کو منسوخ کر دیا جائے گا۔
اگر یوکرین بغیر کسی وجہ کے ماسکو یا سینٹ پیٹرز برگ پر میزائل داغتا ہے، تو حفاظتی ضمانت کو غلط سمجھا جائے گا۔
11۔یوکرین یورپی یونین (EU) کی رکنیت کے لیے اہل ہے اور اسے EU مارکیٹ تک مختصر مدت کے لیے ترجیحی رسائی حاصل ہو گی جب تک اس مسئلے پر غور کیا جا رہا ہے۔
12۔یوکرین کی تعمیر نو کے لیے اقدامات کا ایک طاقتور عالمی پیکج فراہم کیا جائے گا، بشمول درج ذیل امور لیکن ان تک محدود نہیں:
ٹیکنالوجی، ڈیٹا سینٹرز اور مصنوعی ذہانت سمیت تیزی سے ترقی کرنے والی صنعتوں میں سرمایہ کاری کے لیے یوکرین کے ترقیاتی فنڈ کی تشکیل۔
امریکہ یوکرین کے ساتھ مشترکہ طور پر تعمیر نو، ترقی، جدید اور یوکرین کے گیس کے بنیادی ڈھانچے کو چلانے کے لیے تعاون کرے گا، بشمول پائپ لائنز اور اسٹوریج کی سہولیات۔
شہروں اور رہائشی علاقوں کی بحالی، تعمیر نو اور جدید کاری کے لیے جنگ سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لیے مشترکہ کوششیں۔
انفراسٹرکچر کی ترقی۔
معدنیات اور قدرتی وسائل کو نکالنا۔
عالمی بینک ان کوششوں کو تیز کرنے کے لیے ایک خصوصی مالیاتی پیکج تیار کرے گا۔
13۔روس عالمی معیشت میں دوبارہ شامل ہو جائے گا:
پابندیوں کے خاتمے پر بات چیت کی جائے گی اور اس پر مرحلہ وار اور ہر معاملے کی بنیاد پر اتفاق کیا جائے گا۔
امریکہ توانائی، قدرتی وسائل، انفراسٹرکچر، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سینٹرز، آرکٹک میں نایاب زمین دھات نکالنے کے منصوبوں اور دیگر باہمی طور پر فائدہ مند کارپوریٹ مواقع کے شعبوں میں باہمی ترقی کے لیے ایک طویل المدتی اقتصادی تعاون کا معاہدہ کرے گا۔
روس کو G8 میں دوبارہ شمولیت کی دعوت دی جائے گی۔
14۔منجمد فنڈز کا استعمال اس طرح کیا جائے گا:
روس کے منجمد اثاثوں میں 100 بلین ڈالر یوکرین کی تعمیر نو اور سرمایہ کاری کے لیے امریکی قیادت میں کی جانے والی کوششوں میں لگائے جائیں گے۔
امریکہ اس منصوبے سے 50 فیصد منافع حاصل کرے گا۔ یوکرین کی تعمیر نو کے لیے دستیاب سرمایہ کاری میں اضافہ کرنے کے لیے یورپ $100 بلین کا اضافہ کرے گا۔ منجمد یورپی فنڈز کو غیر منجمد کردیا جائے گا۔منجمد روسی فنڈز کا بقیہ حصہ ایک علیحدہ امریکی-روسی سرمایہ کاری گاڑی میں لگایا جائے گا جو مخصوص علاقوں میں مشترکہ منصوبوں پر عمل درآمد کرے گا۔اس فنڈ کا مقصد تعلقات کو مضبوط بنانا اور مشترکہ مفادات کو بڑھانا ہے تاکہ تنازعات کی طرف واپس نہ آنے کی مضبوط ترغیب پیدا کی جا سکے۔
15۔اس معاہدے کی تمام شقوں کو فروغ دینے اور اس کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے سلامتی کے امور پر ایک مشترکہ امریکی-روسی ورکنگ گروپ قائم کیا جائے گا۔
16۔روس یورپ اور یوکرین کے خلاف جارحیت نہ کرنے کی اپنی پالیسی کو قانون میں شامل کرے گا۔
17۔امریکہ اور روس جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ اور کنٹرول سے متعلق معاہدوں کی مدت میں توسیع پر اتفاق کریں گے، بشمول START I معاہدہ۔
18۔یوکرین جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ (این پی ٹی) کے معاہدے کے مطابق ایک غیر جوہری ریاست بننے پر رضامند ہے۔
19۔Zaporizhzhia نیوکلیئر پاور پلانٹ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) کی نگرانی میں شروع کیا جائے گا، اور پیدا ہونے والی بجلی روس اور یوکرائن کے درمیان یکساں طور پر 50:50 پر تقسیم کی جائے گی۔
20۔دونوں ممالک اسکولوں اور معاشرے میں تعلیمی پروگراموں کو نافذ کرنے کا عہد کرتے ہیں جن کا مقصد مختلف ثقافتوں کو سمجھنے اور رواداری کو فروغ دینا اور نسل پرستی اور تعصب کو ختم کرنا ہے:
یوکرین مذہبی رواداری اور لسانی اقلیتوں کے تحفظ سے متعلق یورپی یونین کے قوانین کو اپنائے گا۔
دونوں ممالک تمام امتیازی اقدامات کو ختم کرنے اور یوکرائنی اور روسی میڈیا اور تعلیم کے حقوق کی ضمانت دینے پر متفق ہوں گے۔
تمام نازی نظریات اور سرگرمیوں کو مسترد اور ممنوع قرار دیا جانا چاہیے۔
21۔علاقے:
کریمیا، لوہانسک اور ڈونیٹسک کو امریکہ سمیت ڈی فیکٹو روسی تسلیم کیا جائے گا۔
کھیرسن اور زاپوریزیہ کو رابطے کی لائن کے ساتھ منجمد کر دیا جائے گا، جس کا مطلب ہے رابطہ کی لائن کے ساتھ حقیقت کی شناخت۔
روس پانچ خطوں سے باہر دوسرے متفقہ علاقوں کو ترک کر دے گا۔
یوکرین کی افواج ڈونیٹسک اوبلاست کے اس حصے سے انخلاء کریں گی جس پر ان کا اس وقت کنٹرول ہے، اور اس انخلا کے زون کو غیر جانبدار غیر فوجی بفر زون تصور کیا جائے گا، جسے بین الاقوامی سطح پر روسی فیڈریشن سے تعلق رکھنے والے علاقے کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ روسی افواج اس غیر فوجی زون میں داخل نہیں ہوں گی۔
22۔مستقبل کے علاقائی انتظامات پر اتفاق کے بعد، روسی فیڈریشن اور یوکرین دونوں نے ان انتظامات کو طاقت کے ذریعے تبدیل نہ کرنے کا عہد کیا۔ اس عہد کی خلاف ورزی کی صورت میں کوئی بھی حفاظتی ضمانتیں لاگو نہیں ہوں گی۔
23۔روس یوکرین کو دریائے دنیپرو کو تجارتی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے سے نہیں روکے گا اور بحیرہ اسود کے پار اناج کی مفت نقل و حمل پر معاہدے کیے جائیں گے۔
24۔بقایا مسائل کے حل کے لیے ایک انسانی کمیٹی قائم کی جائے گی:
باقی تمام قیدیوں اور لاشوں کا تبادلہ "سب کے لیے” کی بنیاد پر کیا جائے گا۔
تمام شہری قیدیوں اور یرغمالیوں کو واپس کر دیا جائے گا، جن میں بچے بھی شامل ہیں۔
خاندانی اتحاد بحال کرنے کے پروگرام پر عمل کیا جائے گا۔
تنازعات کے متاثرین کی تکالیف کو دور کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
25۔یوکرین میں 100 دنوں میں انتخابات ہوں گے۔
26۔اس تنازع میں شامل تمام فریقین کو جنگ کے دوران ان کے اعمال کی مکمل معافی ملے گی اور وہ مستقبل میں کوئی دعویٰ کرنے یا کسی شکایت پر غور نہ کرنے پر متفق ہوں گے۔
27۔یہ معاہدہ قانونی طور پر پابند ہوگا۔ اس کے نفاذ کی نگرانی اور ضمانت صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کی سربراہی میں امن کونسل کرے گی۔ خلاف ورزی پر پابندیاں لگائی جائیں گی۔
28۔ایک بار جب تمام فریقین اس میمورنڈم پر متفق ہو جائیں گے، جنگ بندی فوراً نافذ ہو جائے گی جب دونوں فریق معاہدے پر عمل درآمد شروع کرنے کے لیے متفقہ نکات سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔