یوکرینی صدر زیلنسکی۔ فائل فوٹو

روس،یوکرین جنگ بندی منصوبے کے نئے 19 نکات کیا ہیں؟

امریکی صدرڈونلڈٹرمپ کی سرکردگی میں روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی کے لیے ایک نیامنصوبہ تیارکیا گیاہے جس کی تفصیلات اب تک سامنے نہیں آئیں۔

پہلا منصوبہ 28 نکات پرمشتمل تھا جن میں تین اہم امور نمایاں تھے۔

اول، یوکرین کی مسلح افواج کو تقریباً نصف کر دیا جائے گا۔ طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں پر پابندی ہو گی۔ غیر ملکی فوجیوں پر پابندی ہو گی۔ نیٹو کی رکنیت کو خارج ازامکان بنانا ہوگا۔دوسرا، یوکرین سے یہ توقع کی جائے گی کہ وہ نہ صرف روس کے ان تمام علاقوں سے دستبردار ہو جائے جن پر اس جنگ میں قبضہ کیاگیاہے، بلکہ ان علاقوں سے بھی جن پر روس نے دعویٰ تو کیا ہے مگر وہ اس کے قبضے میں نہیں۔تیسرا روس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ یوکرین پر مزید حملہ نہیں کرے گا۔

یورپی رہنمائوں کا کہناہے کہ اس منصوبے کے مطابق یہ درحقیقت ماسکو کا تیار کردہ تصفیہ ہے جو ماسکو کے لیے ہے، لیکن امریکہ کی آشیرباد کے ساتھ۔ یہ منصوبہ جنگ ختم کرنے سے بہت دور ہے، یہ صرف اس وقت تک مہلت دیتا ہے جب تک روس اپنی طاقت دوبارہ تعمیر نہ کر لے۔

28 نکاتی منصوبے کے بعد جنیوا میں امریکی اور یوکرینی سفارت کاروں کے اجلاس نے ایک نظرثانی شدہ مسودہ تیار کیا ہے ۔ نظرثانی شدہ منصوبے کی تفصیلات کو عام نہیں کیا گیا ، لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں روس کے لیے سازگار زیادہ سے زیادہ مطالبات کو ہٹا دیا گیاہے۔یوکرین بڑے پیمانے پر نئے مسودے کے حق میں نظر آتا ہے۔صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ اس میں (پہلے سے)کم پوائنٹس اور بہت سے درست عناصرشامل ہیں۔

فنانشل ٹائمز کے مطابق، ذرائع نے جنیوا بات چیت کے بارے میں بتایا کہ نئے منصوبے کو 19 پوائنٹس تک محدو کر دیا گیا ہے۔

معاملے سے واقف سینئر یوکرائنی اہلکار نے بتایاکہ نئے منصوبے سے بہتری کے لیے نمایاں تبدیلی آئی ہے۔اہلکار نے مزید کہا کہ نظرثانی شدہ منصوبہ یوکرین کے لیے8 لاکھ فوجیوں کو رکھنے کی اجازت فراہم کرتا ہے – تقریباً جتنی فوج اب ہے- پہلے مسودے میں یہ حد 6 لاکھ تھی۔

جنیوا مذاکرات میں یوکرین کی نیٹو رکنیت کے سوال کو کھلا چھوڑنا اور جنگ بندی کے بعد تک علاقائی معاملات کی بات چیت کو ملتوی کرنا شامل ہے۔

یوکرین کے اول نائب وزیر خارجہ سرگی کیسلیٹس نے، جو جنیوا مذاکرات میں موجود تھے، نے فنانشل ٹائمزکو بتایا کہ علاقائی مسائل اور نیٹو میں یوکرین کے مستقبل کا فیصلہ زیلنسکی اور ٹرمپ پر چھوڑ دیا گیاہے۔ایک متوازن دستاویز تیار کیا گیاہے اور کچھ چیزوں پر ہم سمجھوتہ کر سکتے ہیں،اصل ورژن سے بہت کم چیزیں رہ گئی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ممکنہ جنگی جرائم کے لیے عام معافی کی تجاویز کو دوبارہ لکھا گیا تاکہ جنگ میں نقصان اٹھانے والوں کی شکایات کو دور کیا جا سکے۔

اس کے علاوہ، وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار نے کہا کہ یوکرین میں تعینات نیٹو فوجیوں پر پہلے منصوبے میں شامل پابندیوں میں بھی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ روس نے پہلے بھی بغیر ثبوت کے دعویٰ کیا تھا کہ نیٹو کے فوجی یوکرین میں لڑ رہے ہیں۔
ٹرمپ نے کہا ہے کہ نیا منصوبہ بہترین ہے اور یوکرین میں جنگ پر معاہدہ قریب آ رہا ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ سابقہ ​​28 نکاتی منصوبہ دراصل ایک بنیادی تصور تھا۔
کریملن کے مطابق روس نے نظرثانی شدہ منصوبہ دیکھ لیا ہے اور اس پر ماسکو کی طرف سے سنجیدہ جائزے کی ضرورت ہے۔ کچھ پہلوؤں کو مثبت طور پر دیکھا جا سکتا ہے، لیکن بہت سے ماہرین کے درمیان خصوصی بحث کی ضرورت ہے۔انٹرفیکس نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا کہ جب صحافیوں نے پوچھا کہ کیا امن معاہدہ قریب ہے، تو کریملن کے ترجمان کاجواب تھاکہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے۔
30 سے زیادہ یورپی ’اتحادیوں کا گروپ‘ (coalition of the willing) جو کسی بھی امن معاہدے کی نگرانی کا پابند ہے، منگل کو اجلاس منعقد کرے گا تاکہ اگر پوتن کے ساتھ جنگ ختم کرنے کا کوئی معاہدہ طے پاتا ہے تو یوکرین کو سکیورٹی کی ضمانت دی جا سکے۔ادھر امریکہ کے خصوصی نمائندے، اسٹیو وٹکوف، اگلے ہفتے کے شروع میں روس کا دورہ کریں گے۔

ولادیمیر پوتن کا کہنا ہے کہ امریکہ اور یوکرین کے درمیان زیرِ غور امن منصوبے کا خاکہ مستقبل کی مذاکرات کی بنیاد بن سکتا ہے۔لیکن کسی بھی معاہدے کے لیے یوکرین کو زمین چھوڑنی ہوگی۔روسی صدنے یہ بھی بتایا کہ واشنگٹن اور کییف کے درمیان جنیوا میں زیرِ بحث منصوبے کا ورژن ماسکو کے ساتھ بھی شیئر کیا گیا ہے۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکی فریق کچھ معاملات میں ہماری پوزیشن کو مدنظر رکھتا ہے، لیکن دیگر نکات پر ہمیں واضح طور پر بیٹھ کر بات کرنی ہوگی۔

پوتن کا مزید کہناتھا کہ روس اپنی پیش قدمی صرف اسی صورت میں روکے گاجب یوکرینی فوج نے کیو کے زیرِ کنٹرول کچھ نامعلوم علاقوں سے پیچھے ہٹ جائے۔اگر یوکرینی فوج وہ علاقے چھوڑ دے جن پر وہ قابض ہیں، تو ہم لڑائی روک دیں گے۔اگر نہیں، تو ہم اپنے اہداف فوجی طریقے سے حاصل کریں گے۔

تجزیہ کاروںکے مطابق روسی صدر کے سخت بیانات جن میں انہوں نے بار بار وولادیمیر زیلنسکی کوغیر قانونی قرار دیایہ ظاہر کرتے ہیں کہ وائٹ ہاؤس کی امیدوں کے باوجود، جنگ ختم کرنے کے لیے ضروری بنیادی نکات پر کوئی پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔