فائل فوٹو
فائل فوٹو

اڈیالہ کے باہر’’انقلابی‘‘ پھر بھاگ نکلے

امت رپورٹ :

’’اس بار عمران خان سے ملاقات کے بغیر واپس نہیں جائیں گے‘‘۔ یہ الفاظ تھے اڈیالہ جیل کے نزدیک واقع ناکے پر دھرنا دینے والے پی ٹی آئی کے چند رہنماؤں اور کارکنان کے۔ ان الفاظ کو پورا ہوئے ابھی کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ واٹر کینن حرکت میں آگیا اور اندھیرے میں چاندی کی طرح چمکتی پانی کی موٹی دھار لہرائی۔

اس کے بعد کسی کو کسی کا ہوش نہیں تھا۔ جس کا جدھر منہ تھا، ادھر بھاگ رہا تھا۔ بھاگنے والے ساتھ ہی چیخ بھی رہے تھے کہ ’’ہائے اتنا ٹھنڈا اور کیمیکل والا پانی پھینکا جارہا ہے‘‘۔ بھاگنے والوں کے پیچھے ’’پکڑو، پکڑو‘‘ کی آوازیں لگائی جارہی تھیں۔ یہ پولیس اہلکاروں کی آوازیں تھیں، جو خود بھی قدرے سست انداز میں مظاہرین کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔ ان کے ساتھ قیدیوں کی وین بھی رینگ رہی تھی۔

اس بار نئی بات یہ تھی کہ عمران خان کی بہنوں کے ساتھ علامہ ناصر عباس بھی دھرنے میں پہنچے تھے۔ سلمان اکرم راجہ بھی آئے۔ تاہم ہمیشہ کی طرح وہ معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے پولیس کارروائی سے پہلے ہی نکل لئے۔ دیگر کئی رہنما بھی واپس چلے گئے تھے۔ جب پولیس کارروائی ہوئی تو مشکل سے ڈیڑھ دو سو کارکنان موجود تھے۔

اس سے قبل پی ٹی آئی کے سپورٹر یوٹیوبرز عمران خان کی بہنوں، سلمان اکرم راجہ اور دیگر شرکا کی بات چیت کے ویڈیو کلپ بناکر سوشل میڈیا پر ڈالتے رہے۔ سب کی زبان پر ایک ہی الفاظ تھے کہ اس بار خالی ہاتھ نہیں جائیں گے۔ اس موقع پر چند پُرجوش کارکنوں کا ایک ٹولہ بھی ویڈیو بنوا نے کے لیے آگے بڑھا اور انہوں نے اعلان کیا کہ آج وہ اپنے ساتھ کمبل اور بستر بھی لے کر آئے ہیں اور یہ کہ مزید کارکنان بھی اپنے ساتھ بستر اور کمبل لے کر آرہے ہیں۔ لیکن جیسے ہی پولیس نے پانی کی بوچھاڑ شروع کی تو رہنماؤں کے ساتھ کارکنان بھی بستر اور کمبل چھوڑ کر بھاگے۔

ان میں سے کچھ پولیس کے ہتھے بھی چڑھ گئے۔ اس بھگدڑ میں جب دھرنے کے شرکا بھاگتے بھاگتے چوکی سے کافی دور نکل گئے اور پولیس بھی شاید زیادہ دور تک ان کا پیچھا نہ کرنے کی حکمت عملی کے تحت آگے جانے سے رک چکی تھی تو ایک بار پھر یوٹیوبرز نے اپنے مو بائل سیدھے کرلئے اور علیمہ خان سمیت علامہ ناصر عباس اور دیگر سے بات چیت کے ویڈیو کلپ بنانا شروع کردیے۔ اب بیانیہ کچھ بدل چکا تھا۔

علیمہ خان نے کہا ’’یہ جتنی بار پانی پھینک لیں۔ ہم ہر بار آئیں گے‘‘۔ اس سے پہلے کہا جارہا تھا کہ ’’اس بار عمران خان سے ملاقات کے بغیر واپس نہیں جائیں گے‘‘۔ اس موقع پر علامہ ناصر عباس نے بھی ایک یوٹیوبر سے بات کی۔ ان کے ساتھ کھڑے کارکنان میں سے کسی ایک نے پولیس کارروائی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے خواتین اور بزرگوں کا بھی خیال نہیں کیا۔ پانی کے پریشر کے نتیجے میں علامہ ناصر عباس چار بار نیچے گرے۔ شوکت بسرا کی انگلی ٹوٹ گئی۔

واضح رہے کہ ایک ہفتہ قبل اسی مقام پر دیئے جانے والے دھرنے کے خلاف پولیس کارروائی کے دوران پی ٹی آئی کے رہنما شاہد خٹک گرگئے تھے اور ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔ لہذا اس بار وہ دھرنے میں بذریعہ سوشل میڈیا شریک تھے اور وقفے وقفے سے پُرجوش پوسٹیں کرکے مظاہرین کا حوصلہ بڑھانے میں مصروف تھے۔ گویا جیسے جنگ چھڑ گئی ہو۔

دوسری جانب 9 مئی کیس میں سزا کے بعد مفرور ہوجانے والی پی ٹی آئی پنجاب کی چیف آرگنائزر عالیہ حمزہ بھی کسی نامعلوم مقام سے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے کارکنوں کو ہدایت دے رہی تھیں۔ ہر منگل اور جمعرات کو اڈیالہ جیل کے باہر پارٹی ارکان اور کارکنوں کو جمع ہونے کی کال بھی موصوفہ ہی دیتی ہیں۔ لیکن خود مفرور ہیں اور چھپی بیٹھی ہیں۔

واضح رہے کہ اس منگل کو بھی دھرنے کے شرکا کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے صرف واٹر کینن کا سہارا لیا۔ پولیس ایکشن سے قبل اطراف کی لائٹس بجھا دی گئی تھیں۔ جب رات سوا دو بجے کے قریب پولیس نے ایکشن لیا اور واٹر کینن کا استعمال شروع کیا تو دھرنے پر بیٹھے رہنما اور کارکنان چند لمحوں میں منتشر ہوگئے۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد چونگی پر ہُو کا عالم تھا اور انقلاب دوڑ چکا تھا۔

ادھر حکومتی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن کا استعمال ضرور کیا گیا۔ لیکن پانی میں کیمیکل ملانے کی باتیں سفید جھوٹ ہے۔ اگر پانی میں کیمیکل ہوتا تو جن لوگوں پر پانی گرا، وہ یقیناً جھلستے یا متاثر ہوتے۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ان ذرائع کے بقول لگتا ہے کہ پی ٹی آئی خود یہ چاہ رہی ہے کہ عمران خان کو اڈیالہ سے کسی اور جیل میں منتقل کردیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر بار کے انتباہ کے باوجود وہ اڈیالہ کے نزدیک تماشا لگانے سے باز نہیں آ رہی۔ شاید پی ٹی آئی کی یہ خواہش جلد پوری کردی جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔