سوشل میڈیا فوٹو

مغربی کنارہ :اسرائیلی تشدد کا وہ اکھاڑہ جو نظروں سے اوجھل رہتاہے

72 لاکھ فلسطینیوں کامسکن مغربی کنارہ، یہ علاقہ مستقبل کی فلسطینی ریاست کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے، لیکن یکے بعد دیگرے اسرائیلی حکومتوں نے وہاں یہودی بستیوں کو توسیع دی ہے نئی بستیوں کی اجازت دی ہے یا ان کی حوصلہ افزائی کی ہے۔برطانوی میڈیا کے مطابق یہ بستیاں بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی تصور کی جاتی ہیں۔ مغربی کنارے پر اسرائیل نے 1967 کی چھ روزہ جنگ کے بعد سے قبضہ کر رکھا ہے۔یہ علاقہ یہودی آبادکاروں کی غنڈہ گردی اور دہشت گردی کا اکھاڑہ بن چکاہے۔

مغربی کنارے کے شہر نابلس میں جمعرات 18 دسمبر کی شب اسرائیلی آباد کاروں نے سڑک پر ایک فلسطینی نوجوان کو جان بوجھ کر گاڑی کے نیچے کچل دیا۔ یہ پورا منظر کیمروں میں محفوظ ہو گیا ہے، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گاڑی الٹنے کے بعد آباد کار جائے وقوعہ سے پیدل فرار ہو گئے۔ اس واقعے میں نوجوان کے دونوں پاؤں ٹوٹ گئے ہیں۔اسرائیلی فوج کے ترجمان نے اعتراف کیا ہے کہ آباد کاروں نے علاقے میں داخل ہو کر فلسطینی نوجوان کو جان بوجھ کر کچلا۔ ترجمان نے مزید بتایا کہ فوجی دستوں نے متعدد اسرائیلیوں کو گرفتار کر کے انھیں مزید کارروائی کے لیے پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔

اسرائیلی پولیس نے بدھ کی رات ایک 17 سالہ نوجوان کو گرفتار کیا، جس پر شبہ ہے کہ وہ شمالی مغربی کنارے میں فلسطینیوں اور ان کی املاک کو نشانہ بنانے والے انتہا پسند آباد کاروں کے حملے میں حصہ لے رہا تھا، جب وہ حراست سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔یروشلم کا رہائشی، جس کا نام اس کی عمر کی وجہ سے اشاعت کے لیے جاری نہیں کیا گیا، وہ تیسرا ہے جسے گزشتہ ماہ تباہ کن ہنگامہ آرائی کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ ان درجنوں نقاب پوش یہودی انتہا پسندوں میں سے ایک ہے جنہوں نے 11 نومبر کو فلسطینی قصبے بیت لِڈ میں بڑے پیمانے پر آتش زنی کا حملہ کیا، کاروں کو آگ لگا دی، عمارتیں تباہ کیں اور فلسطینی باشندوں پرڈنڈے اور پتھربرسائے تھے۔اس حملے میں متعدد افراد کو شدید چوٹیں آئیں جن میں کھوپڑی کے فریکچر بھی شامل ہیں۔جائے وقوعہ پر پہنچنے والے اسرائیلی فوجیوں نے نوجوان سمیت 3 افراد کو حراست میں لیاتھا لیکن ملزمان فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔انہیں بعد میں گرفتار کرلیا گیا۔

فلسطینی میڈیا کے مطابق، منگل کی رات، اسرائیلی آباد کاروں نے رام اللہ کے شمال مشرق میں واقع گاؤں عین یبرود میں مبینہ طور پر ایک گاڑی کو نذر آتش کیا اور دیواروں پر
مخالفانہ نعرے لکھے۔

حالیہ مہینوں میں ،خاص طور پر اکتوبر میں شروع ہونے والی زیتون کی سالانہ کٹائی کے موقع پرفلسطینیوں کے خلاف آباد کاروں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس دوران آباد کاروں اور بعض اوقات فوجیوں نے زیتون چننے والوں کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں اور ان کی املاک پر تقریباً روزانہ تشدد کیا ۔نومبر میں اسرائیلی سیاست دانوں اور غیر ملکی سیاستدانوں کی طرف سے آباد کاروں کے تشدد کی بڑھتی ہوئی مذمت کے بعد، سیکورٹی ایجنسیوں نے حملوں کو روکنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کرنا شروع کر دیں۔تاہم ٹائمزآف اسرائیل کے مطابق یہودی انتہا پسندوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کم ہی ہوتی ہے، اور سزائیں اس سے بھی کم ہوتی ہیں۔تل ابیب کے ناقدین نےحکومت پر یہودی قوم پرست تشدد کو نظراندازکرنے کا الزام لگایا ہے۔
اسرائیلی فوج نے رواں سال اب تک یہودی قوم پرستی کے جرائم اور آباد کاروں کے تشدد کے 752 سے زیادہ واقعات ریکارڈ کیے ہیں۔ 2024 میں کل 675 واقعات ہوئے تھے۔

فلسطینی وزارت صحت کے مطابق2سال کے دوران مغربی کنارے کے تقریباً ایک ہزار فلسطینی ،اسرائیلی آبادکاروں کے ہاتھوں مارے جاچکے ہیں۔

انادولوکے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے یورپی ارکان نے گذشتہ دنوں غیر قانونی اسرائیلی آباد کاروں کے فلسطینیوں کے خلاف،صرف ایک مہینے اکتوبرمیں، 260 سے زائد حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں تشدد کی ریکارڈ سطح قرار دیا۔ای فائیوگروپ ڈنمارک، فرانس، یونان، سلووینیا اور برطانیہ کی جانب سے برطانوی سفیر جیمز کیریوکی نے کہا کہ کونسل قرارداد 2334 پر بحث کرے گی، جو واضح طور پر آبادکاروںکی سرگرمیوں کی مذمت کرتی ہے اور اسرائیل سے بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں کا احترام کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔انہوں نے متنبہ کیا کہ اسرائیل کی حکومت ایسی پالیسیوں پر عمل درآمد جاری رکھے ہوئے ہے جو اس قرارداد کی خلاف ورزی کرتی ہیں اور مغربی کنارے میں بڑھتی ہوئی عدم استحکام کا باعث بنتی ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ اس سے غزہ کے لیے 20 نکاتی منصوبے پر عمل درآمد اور دو ریاستی حل کے امکانات کے ساتھ ساتھ خطے میں طویل مدتی امن و سلامتی کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ہم مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں تمام مذاہب اور فرقوں کے فلسطینی شہریوں کے خلاف آباد کاروں کے تشدد میں غیر معمولی اضافے کی شدید مذمت کرتے ہیں، 2025 ریکارڈ پر سب سے زیادہ پرتشدد سال تھا۔

ای فائیو کی ترجمانی کرتے ہوئے برطانوی سفیر کامزید کہناتھاکہ صرف اکتوبر میں فلسطینیوں اور ان کی املاک پر 260 سے زیادہ حملے انتہائی تشویشناک امر ہے۔یہ حملے عام شہریوں کو خوفزدہ کرتے ہیں، امن کی کوششوں میں رکاوٹ ہیں اور خود اسرائیل کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہیں، انہوں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی پاسداری کرے اور مقبوضہ علاقوں کی فلسطینی آبادی کی حفاظت کرے۔

3 دسمبر 2025 کومغر بی کنارے میں 18سالہ اویس ہمام خربت بنی حارث میں اپنے گھر کے قریب اغوا ہوا اور قریبی یہودی بستی میں کئی گھنٹوں تک مار پیٹ، تذلیل اور ہراسانی کا نشانہ بنا۔مبینہ طور پر اسرائیلی فوجی اس واقعے میں ملوث تھے، اسے اگلی صبح رہا کیا گیا جس کے بعد نوجوان کو متعدد زخموں اور شدید نفسیاتی اثرات کے ساتھ ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔

تشدد اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اقوام متحدہ نے اکتوبر 2025 کو19 برس میں مغربی کنارے کے آباد کاروں کے تشدد کا بدترین مہینہ قراردیا جب سے اس نے 2006 میں واقعات ریکارڈ کرنا شروع کیے تھے۔

یونیورسٹی آف میساچوسٹس لوویل میں سیکیورٹی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر اور کرمینولوجی اینڈ جسٹس اسٹڈیز کے پروفیسرایری پرلیگرکا کہناہے کہ ایک اسکالر کی حیثیت سے جس نے دو دہائیوں سے اسرائیلی انتہا پسند گروپوں کا مطالعہ کیا ہے، میں یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ مغربی کنارے میں آباد کاروں کے تشدد میں ڈرامائی اضافہ اسرائیل کے ریاستی اداروں میں ایک گہری تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والوں کے طور پر کام کرنے کے بجائے، فوج، اسرائیلی پولیس اور وسیع تر حکومتی ادارے فلسطینیوں کے خلاف پرتشدد آباد کاروں کی کارروائیوں میں ، اور بعض اوقات براہ راست شریک ہوتے ہیں۔

رام اللہ سے 27 اکتوبر 2025 کو اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایاگیا غیر قانونی اسرائیلی آباد کاروں کےحملے، جن میں اکثر اسرائیلی سکیورٹی فورسز کاہاتھ پایاجاتا ہے، خوف پھیلانے، گھروں اور معاش کو تباہ کرنے اور فلسطینیوں کو مقبوضہ مغربی کنارے میں ان کی زمینوں سے بے دخل کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ اقدامات بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے ہڑپنے کی اسرائیلی پالیسی کو مستحکم کرتے ہیں۔24 اکتوبر کو، مقبوضہ فلسطینی علاقے میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق دفتر سے تصدیق شدہ ایک
ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ایک اسرائیلی آبادکار، اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر، بیت اللحم کے علاقے نحلین میں زیتون کے ایک 58 سالہ کاشتکار پر حملہ کر تا ہے۔ 25 اکتوبر کو ایک اور سنگین واقعے میں، نقاب پوش اسرائیلی آباد کاروں کے ایک ہجوم نے پہلے میخماس میں زیتون چننے والے فلسطینیوں پر حملہ کیا، اس کے بعد مقبوضہ مشرقی یروشلم کے شمال مشرق میں ایک بدو فلسطینی برادری، قریبی خلیت السدرا میں فلسطینیوں کے چھ گھروں کو آگ لگا دی۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ آباد کاروں کا تشدد زیتون کی کٹائی کے موسم سے کہیں زیادہ بڑھتا جا رہا ہے، جس سے مقبوضہ مغربی کنارے کی بہت سی آبادیوں میں فلسطینیوں کے لیے زندگی اجیرن ہو رہی ہے اور ان کے پاس اپنے گھر چھوڑنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا ۔ مغربی کنارے کے بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح بدو کمیونٹی پر بھی گذشتہ دو سال کے دوران اسرائیلی آباد کاروں کی طرف سے متعدد بار حملے کیے گئے ہیں تاکہ انہیں وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا جا سکے اور علاقے میں غیر قانونی چوکیوں کو بڑھایا جا سکے۔

اقوام متحدہ کے مطابق آباد کاروں اور اسرائیلی سیکورٹی فورسز کو اب تک فلسطینیوں کے خلاف تشدد کی کارروائیوں، یہاں تک کہ جان لیوا حملوں سے بھی مکمل استثنیٰ حاصل ہے۔برطانوی اخبار گارڈین کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ایک اسرائیلی کارکن کا بھی یہی کہناہے کہ آباد کار مکمل استثنیٰ کے ساتھ یہ سب کچھ کرتے ہیں۔گارڈین کے مطابق
امریکی ثالثی کے ذریعے غزہ میں حالیہ جنگ بندی کے بعد سے مغربی کنارے پر آباد کاروں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔فلسطینی کسانوں کی یونین (PFU) کا کہناہے کہ حالیہ حملے اتفاقیہ واقعات نہیں، بلکہ فلسطینی دیہی زندگی کو نقصان پہنچانے کی دانستہ کوششیںہیں۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔