امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نےکہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کو بین الاقوامی اسٹیبلائزیشن فورس کے مینڈیٹ کو واضح کرنا ہو گا تا کہ حصہ لینے والے ممالک سے فوج بھیجنے کے وعدے پورے ہونے کی توقع کر سکے، کیونکہ وہ ایسے ممالک کو تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے جو اس فورس میں حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہوں۔
روبیو نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ان تمام ممالک کے ساتھ جن سے ہم نے زمین پر موجودگی کے بارے میں بات کی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ وہ خاص طور پر جاننا چاہتے ہیں کہ مینڈیٹ کیا ہوگا اور فنڈنگ کا طریقہ کار کیا ہے، روبیو سے پریس کانفرنس کے دوران پوچھا کہ کیا امریکہ نے پاکستان سے کوئی وعدہ حاصل کیا ہے، جو مبینہ طور پر غزہ میں فوج بھیجنے کے امریکی دبائو میں ہےتاکہ بتدریج اسرائیلی فورسزکے وہاں سے نکلنے کاراستہ ہموارہو۔
روبیو نےکہا کہ ہم اس کا حصہ بننے پر غور کرنے کی پیشکش کے لیے پاکستان کے بہت مشکور ہیں،لیکن پاکستان سے کوئی حتمی وعدہ لینے کے لیے ہمیں انہیں کچھ جوابات دینے ہیں۔
میں یقین سے کہہ سکتاہوں کہ ہمارے پاس متعدد ریاستیں ہیں جو تمام فریقوں کے لیے قابل قبول ہیںجو آگے بڑھنے اور استحکام فورس کا حصہ بننے کے لیے تیار ہیں۔
صورتحال سے واقف دو مغربی سفارت کاروں نےدی ٹائمز آف اسرائیل کو بتایا کہ جن لوگوں سے روبیو نے غزہ فورس میں حصہ لینے کو کہا ہے ان میں ایتھوپیا کے وزیر اعظم ابی احمد علی بھی شامل ہیں۔
امریکی وزیرخارجہ کا مزید کہناتھاکہ ہم پیش رفت کےل یے بہت زیادہ کوشش کر رہے ہیں۔ اگلا مرحلہ بورڈ آف پیس کے علاوہ فلسطینی ٹیکنو کریٹک کمیٹی کا اعلان ہے جو روزمرہ انتظام فراہم کرنے میں مدد کرے گی۔ایک بار جب یہ ہو جائے گا، توہم استحکام فورس کوحتمی شکل دینے ، بشمول فنڈنگ، مشغولیت کے اصول اورڈی ملٹرائزیشن میںسب کاکردارطے کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔
روبیو کے مطابق،دوسرے مرحلے کے مکمل نفاذ میں ممکنہ طور پر دو یا تین سال لگیں گے۔ امیدہے کہ مختصر مدت میں بورڈ آف پیس کی جگہ فلسطینی اتھارٹی غزہ کا انتظام لے سکے گی۔
اعلیٰ امریکی سفارت کار سے پوچھاگیا کہ کیا امریکہ حماس کی جانب سے ہلکے ہتھیاروں کو رکھنے او بھاری ہتھیاروں کوچھوڑنے کی مبینہ پیش کش کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔اس پر ان کا کہناتھاکہ میں اس قسم کے مذاکرات کی تفصیلات میں نہیں جا رہا لیکن روبیونے اس امکان کو رد نہیں کیا کہ امریکہ غزہ میں تخفیف اسلحہ کے ایسے منصوبے پر عمل کرے گا جو بھاری اور ہلکے ہتھیاروں میں فرق کرتا ہے۔میں صرف ہر ایک سے کہوں گا کہ وہ اس بات پر توجہ دیں کہ کس قسم کے ہتھیاروںاورصلاحیتوں میں تخفیف کی ضرورت ہے جو حماس کو اسرائیل کو دھمکانے یا اس پرحملہ کرنے کی بنیادفراہم کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر حماس مستقبل میں ایسی پوزیشن میں ہو کہ وہ اسرائیل کو دھمکی دےسکے یا حملہ کر سکے، توپھر امن قائم نہیں ہو گا،آپ کسی کو غزہ میں پیسہ لگانے کے لیے قائل نہیں کرسکیں گے اگر وہ سمجھتے ہیں کہ دو، تین سال میں ایک اور جنگ ہونے والی ہے، اسی لیے تخفیف اسلحہ بہت اہم ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos