گکھژپلازہ آتش زدگی

’’راولپنڈی میں فائرفائٹنگ کی تاریخ بدل گئی‘‘۔17سال پرانے سانحہ کی یادیں

19 دسمبر 2008کی نصف شب کو کیلنڈرکے ساتھ ساتھ دنیامیں فائرفائٹنگ کی تاریخ  بدلنے کا بھی آغازہوا۔
رات پونے 12 بجے راولپنڈی کے چکلالہ کینٹ میں ایک عمارت کو شدیدآگ نے لپیٹ میں لیا۔یہ ایک وسیع وعریض ورکشاپ تھی جس کے لیے کینٹ فائر سروس کے علاوہ ریسکیو 1122، راولپنڈی میونسپل فائر بریگیڈ ، اسلا م آباد فائر سٹیشن اور سول ایوی ایشن فائر کی درجنوں گاڑیاں شعلوں کو سردکرنے پر مامورہوگئیں۔
اس رات راولپنڈی میں بارش ہورہی تھی۔

3 گھنٹوں کی جدوجہد نے فائرفائٹرزکوتھکادیاتھا،اسی دوران ، اچانک وائرلیس پر ایک اور پیغام گونجا:صدر کے بینک روڈ پر گکھڑ پلازہ میں آگ بھڑک اٹھی ہے، تمام یونٹس فورا روانہ ہوں!
چکلالہ کی آگ ابھی تھمی نہیں تھی کہ صدر میں واقع مشہور تجارتی مرکزجلنے لگا۔
20دسمبر ،بعدازشب 3 بجے کا عمل تھا۔ورکشاپ کے فائر آپریشن میں موجود کمانڈرزنے میونسپل کارپوریشن اور 1122 ریسکیو کی فائر ٹیموں کو روانہ کردیا۔بیک وقت 2 مقامات پر آگ بجھانے کی کڑی آزمائش میں اترنے والے جاں باز نہیں جانتے تھے کہ اس امتحان کا اختتام کیسے ہوگا۔

گکھڑپلازہ میں بھڑکنے والی آگ نے تیزی سے پوری عمارت کودھویں سے بھردیا ۔ اس پلازے میں زیادہ تر ملبوسات کی دکانیں تھیں۔مجموعی طورپر یہاں سیکڑوں دکانیں موجود تھیں ۔جب فائرانجن گکھڑ پلازہ کے سامنے پہنچے تو شعلے ان کا استقبال کرنے کے لیے باہر تک آرہے تھے۔ عمارت کی کھڑکیوں سے دھواں کالے بادلوں کی طرح نکل رہا تھا۔ دکانوں کے اندر جنریٹر وقفے وقفے سے دھماکے کر رہے تھے۔

ان حالات میں فائرفائٹرزنے کام شروع کیا۔عمارت کا صرف ایک ہی راستہ تھا۔ایمرجنسی ایگزٹ ، فائر سیفٹی ، دھوئیں کے اخراج کا بھی کوئی راستہ نہیں تھا۔
آپریشن ایک خوف ناک امتحان بن کرسامنے آنے لگا۔

کچھ لوگ عمارت میں پھنس گئے تھے۔ ان کی پکاریں دھماکوں اور چیخوں کے شور میں مدغم ہو جاتی۔ اندر تپش اورحرارت ناقابلِ برداشت ہو چکی تھی۔ریسکیو رز ایک دوسرے کو سنبھالتے ہوئے، پانی کی لائنیں کھینچتے، لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کرنے لگے۔

اس دوران، انتظامیہ نے راولپنڈی کے گردونواح سے بھی ایمرجنسی سروسز طلب کر لیا، جن میں سی ڈی اے، واہ آرڈیننس فیکٹری، پاکستان ایئر فورس، جی ایچ کیو، اٹک آئل کمپنی، بحریہ ٹائون، میونسپل کمیٹی ٹیکسلا، سول ڈیفنس راولپنڈی کا عملہ شامل تھا۔لگ بھگ مزید ایک گھنٹے بعد چکلالہ کی ورکشاپ میںحادثے پر قابو پا لیا گیا تھا اور وہاں موجود ایمرجنسی سروسز بھی اس بڑے آپریشن میں شامل ہو گئیں۔

آگ بجھانے کے دوران کئی شہریوں کو بحفاظت نکالاگیا۔بالآخرکئی گھنٹوں بعد شعلے تھم گئے او ر پھر کولنگ کا عمل شروع ہوا۔لیکن شدید آگ کے الائو نے عمارت کا فولادی ڈھانچہ بری طرح پگھلادیاتھا۔سہ پہر کو ایک بار پھر آگ بھڑکی ،راکھ کا ایک طوفان اندرسے نکلا اور چندسیکنڈزمیں عمارت فلک شگاف دھماکے سے زمین بوس ہوگئی۔گردوغبار آسمان کی طرف بلندہوا ۔دوبارہ اٹھے شعلے اس ملبے میں دفن ہوگئے اور ساتھ ہی 13 فائرفائٹرز بھی شہادت سے ہم کنارہوئے۔شہر کی فضا سوگ میں ڈوب گئی۔

2008 کی گکھڑپلازہ آتشزدگی میں جانیں دینے والے فائرفائٹرز

اس آپریشن میں زخمی فائر فائٹرغلام محمد ناز اب ریٹائرہوچکے ہیں ۔ انہوں نے ’’ امت ڈیجیٹل‘‘ کو بتایا کہ سانحہ گکھڑپلازہ میں شہید ہونے والے فائر فائٹرزمیں ریسکیو 1122 کے کاشف انار عباسی، موسی زبیر لودھی، محمد ادریس، شفقت حسین، سول ایوی ایشن کے رضوان اللہ، عابد حسین، واہ آرڈیننس فیکٹری کے راجہ محمد حنیف، زاہد اقبال، محمد نوید، فیصل غفور، محمد صابر، ارشد محمود اور میونسپل کارپوریشن راولپنڈی فائر کے سجاد خورشید شامل تھے۔انہوں نے کہا کہ6شہری بھی شہید ہوئے ۔ 60کارکن و شہری زخمی ہوئے۔زخمیوں میں ایمرجنسی آفیسر علی حسین، ساجد حسین، صدارتی ایوارڈ یافتہ رضاکار غلام فرید صابری اور چوہدری طارق بھی تھے۔ البتہ امدادی ٹیم نے پانچ شہریوں کو زندہ بچا لیا۔ دھویں کے انخلا کا کوئی ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے گرمی میں بے پناہ اضافہ ہوا، جس سے سریا اپنی مضبوطی کھو بیٹھا، عمارت میں بیک ڈرافٹ پیدا ہوا اور عمارت اندرونی دھماکے (Implosion)کا شکار ہوکرCantilever Floor Collapse کی صورت اختیار کر گئی تھی۔
جی ایم ناز کے مطابق گکھڑ پلازے کا حادثہ پاکستان اور دنیابھرکی فائر سروسز تاریخ میں منفرد حیثیت رکھتا ہے، جس میں آتشزدگی کے دوران عمارت کا انہدام بھی ہوا،اس نے دنیامیں فائرفائٹنگ کی تاریخ بدل دی۔
غلام محمد نازنے مزید کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں عمارتوں کی تعمیر پر کروڑوں روپے لگائے جاتے ہیں مگر حفاظتی نظام پر چند ہزار یا چند لاکھ خرچ نہیں کیے جاتے، اور نہ اتھارٹیزایس اوپیزپر عمل درآمد کراتی ہیں۔ہمیں معلوم ہی نہیں کہ عمارات میں ہنگامی راستے، ایمرجنسی سیڑھیاں، دھویں کا انخلا، فائر الارم، خودکار سپرنکلر سسٹم، ہائیڈرینٹ سسٹم، سیکیورٹی سسٹم، ایمرجنسی آلات اور واٹر اسٹوریج سسٹم کیا ہیں۔ قومی سطح پر فائر پروٹیکشن ایکٹ، نیشنل فائرپروٹیکشن ایسوسی ایشن کے کوڈز اورمنظور شدہ بلڈنگ کوڈز پر سختی سے عملدرآمدہوناچاہیے۔ڈیزاسٹر آگہی کو تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے۔ریسکیو 1122کو مزید مالی وسائل اور انتظامی اختیارات ملیں اوران کی لاہورمیں ا کیڈمی کو یونیورسٹی کا درجہ دے کر فائر انجینئرنگ اور پی ایچ ڈی ان فائر سائنس کی ڈگریوں کا اجرا ہوناضروری ہے۔

ریسکیو1122 راولپنڈی کے سابق اہل کار احمد طاہرچوہان آج کل دبئی میں ایک ممتازسیفٹی ایکسپرٹ ہیں۔ انہوں نے اس بارے میں ’’ امت ڈیجیٹل ‘‘ کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ
جب عمارت میں ایمرجنسی ایگزٹ نہیں ہوتا، دھواں نکلنے کا راستہ نہیں بنایا جاتا، اندر جنریٹرز رکھے جاتے ہیں، آگ بجھانے والے آلات نہیں لگائے جاتے تو پھر حادثہ نہیں ہوتا بلکہ حادثہ پیدا کر دیا جاتا ہے۔گکھڑ پلازہ کا سانحہ آج بھی راولپنڈی شہر کی یادوں میں زندہ ہے۔یہ صرف ایک واقعے یا حادثے اور سانحے سے بڑھ کر ایک پیغام ہے، حفاظت کو سنجیدہ لینے کا پیغام۔

حکومت پاکستان نے فرض کی راہ میں جانیں دینے والے تمام فائرفائٹرز کو بعد از مرگ تمغہ شجاعت سے نوازا۔ زندگی کا نذرانہ پیش کرنے والوں میں ایک مسیحی اہل کار بھی شامل تھا۔

اس وقت وزیراعلیٰٰ پنجاب میاں شہبازشریف سمیت اعلیٰ حکومتی شخصیات نے جائے وقوعہ کادورہ کیا ۔ پنجاب حکومت کی جانب سے تاجروں کے نقصان کاتخمینہ لگانے کے لیے سابق ایم این اے حاجی پرویزاور سابق ایم پی اے شہریار ریاض پرمشتمل کمیٹی بھی بنائی گئی جس نے رپورٹ میں بتایا کہ سانحہ کے باعث1 ارب 12 کروڑ روپے کانقصان ہوا۔
سانحے پر نامعلوم افرادکیخلاف قتل ، اقدام قتل دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7/ATA کے تحت مقدمہ درج کرایا گیا تھا لیکن مارچ 2009 میں مذکورہ مقدمہ خارج کردیا گیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔