ندیم بلوچ :
اسرائیل کا تعلیم یافتہ طبقہ ملک سے فرار ہونے لگا۔ عبرانی میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ جنگ کے آغاز سے اب تک تقریباً 2 لاکھ شہری ملک چھوڑ چکے ہیں۔ اس میں سب سے پریشان کن بات پڑھے لکھے یہودی اور ماہرین کا ملک چھوڑنا ہے۔ جو اسرائیلی معیشت اور سائنسی تحقیق کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے۔
گریجویٹ سے لے کر پی ایچ ڈی تک کی ڈگریاں رکھنے والے تقریباً 55 ہزار افراد اس وقت مستقل طور پر بیرون ملک مقیم ہیں۔ جن میں نوجوان محققین کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ یہ ‘‘برین ڈرین‘‘ خاص طور پر تل ابیب اور وسطی علاقوں میں زیادہ نمایاں ہے۔ جہاں کے باصلاحیت اور قابل نوجوان حکومت کی تعلیم دشمن پالیسیوں سے تنگ آکر ملک چھوڑنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 2024ء میں اسرائیل واپس آنے والے ماہرین کے مقابلے میں ملک چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ حساس اور کلیدی شعبوں جیسے ریاضی کے 25.4 فیصد، کمپیوٹر سائنس کے 21.7 فیصد اور جینیات (Genetics) کے 19.4 فیصد پی ایچ ڈی ہولڈرز ملک چھوڑ چکے ہیں۔
وائز مین انسٹی ٹیوٹ کے 23 فیصد اور ٹیکنین کے تقریباً 18 فیصد فارغ التحصیل طلبہ بھی اب بیرون ملک مقیم ہیں۔ بڑے پیمانے پر اس نقل مکانی کی بنیادی وجوہات میں سیاسی عدم استحکام اور سائنسی تحقیق کیلئے نامساعد حالات سرِفہرست ہیں۔ تعلیمی اداروں پر حکومتی کنٹرول کی کوششوں اور ماہرین سے ناروا سلوک نے شدید بے چینی پیدا کردی ہے۔
گزشتہ پانچ برس میں تحقیق کے بجٹ سے 700 ملین شیکل کاٹ کر سیاسی امور اور اشتہاری مہمات پر لگائے گئے۔ غزہ جنگ کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر ہونے والے بائیکاٹ اور یورپی امداد میں کمی نے اسرائیلی یونیورسٹیوں کی مالی حالت کو مزید کمزورکر دیا ہے۔ موجودہ صورتحال کے حوالے سے عبرانی تجزیہ کار ایزک شمون کا کہنا ہے کہ اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو اسرائیل کی عالمی سطح پر ’’اسٹارٹ اپ نیشن‘‘ کی حیثیت ختم ہو جائے گی اور ہائی ٹیک صنعت میں سرمایہ کاری کو شدید دھچکا لگے گا۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ طبی ماہرین کی بڑی تعداد امریکہ اور یورپ کا رخ کر رہی ہے۔ جہاں انہیں اسرائیل کے مقابلے میں زیادہ آزادی اور مواقع میسر ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos