پی ٹی آئی جو اپنے پورے دور میں کرتی رہی اس پر ندامت کے بجائے نئے نظام میں کیڑے نکالے گئے، فائل فوٹو
 پی ٹی آئی جو اپنے پورے دور میں کرتی رہی اس پر ندامت کے بجائے نئے نظام میں کیڑے نکالے گئے، فائل فوٹو

انوکھے لاڈلے کھیلن کو مانگیں چاند

امت رپورٹ :
پی ٹی آئی اور اس کے زیر اثر چند چھوٹی پارٹیوں کی جانب سے بلائی جانے والی قومی مشاورتی کانفرنس کا اعلامیہ تضادات سے بھرا ہوا ہے۔ دھاندلی کو بنیاد بناکر نئے انتخابات کا مطالبہ کرنے والے گزشتہ الیکشن میں ہونے والی تاریخی دھاندلی کا ذکر گول کر گئے۔ عمران خان حکومت جو اپنے پورے دور حکومت میں کرتی رہی، اس پر ندامت کے بجائے نئے نظام میں کیڑے نکالے گئے۔ آٹھ فروری کو پہیہ جام ہڑتال کا اعلان پی ٹی آئی کے ووٹرز و سپورٹرز کو ٹرک کی ایک اور بتی کے پیچھے لگانے کے مترادف ہے۔ قومی کانفرنس میں جو مطالبات کیے گئے، وہ ’’انوکھے لاڈلے کھیلن کو مانگیں چاند‘‘ کے مترادف ہے۔ جبکہ اعلامیہ کے نکات کا ایک ایک کرکے پوسٹ مارٹم کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کس قدر تضادات سے بھرا ہوا ہے۔

نام نہاد قومی کانفرنس میں چھبیسویں اور ستائیسویں ترامیم پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا گیا کہ عدلیہ کی آزادی چھین لی گئی ہے۔ شاید شرکا کو ہم خیال ججوں کا وہ ٹولہ ہی چاہیے، جو فیض حمید اور عمران خان کے ساتھ مل کر ’’آزادی‘‘ کی تمام حدود بند کر گیا تھا۔ اس ہم خیال ٹولے کے ایک رکن مظاہر اکبر نقوی کو کرپشن پر برطرف کیا گیا۔ ’’مظاہر ٹرکاں والا‘‘ کی عرفیت سے مشہور سپریم کورٹ کے اس نورتن کے خلاف بدعنوانی کی نو شکایات جوڈیشل کونسل میں آئی تھیں۔ وہ استعفیٰ دے کر جان بچانا چاہتا تھا تاکہ ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن اور لگژری مراعات سے مستفید ہو سکے۔ لیکن اس کا یہ خواب پورا نہ ہو سکا اور برطرف کر دیا گیا۔

اسی ٹولے کے ایک اور نورتن جسٹس اعجازالاحسن پر بھی برطرفی کی تلوار لٹک رہی تھی۔ لیکن انہوں نے مستعفی ہوکر پنشن بچالی۔ اب سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا ذکر ہو جائے، جو اس ٹولے کے سربراہ تھے۔ کیا قومی کانفرنس کے شرکا کو ایسا چیف جسٹس چاہیے، جو چوری یا چھینی گئی قیمتی کاریں اپنے اور اپنے بیٹے کے استعمال میں رکھتا ہو۔ یہ اب ریکارڈ کا حصہ ہے کہ مشہور ٹاپ سٹی اسکینڈل میں فیض حمید نے اس ہائوسنگ سوسائٹی کے مالک کے گھر پر لوٹ مار کرائی تو دو انتہائی قیمتی گاڑیاں بھی اٹھا لی تھیں۔ یہ مہنگی اور نان کسٹم گاڑیاں اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کو گفٹ کر دی گئیں۔ ایک گاڑی انہوں نے اپنے استعمال میں رکھی اور دوسری اپنے بیٹے کو دے دی۔تفتیش کے دوران ایک گاڑی ثاقب نثار کے بیٹے سے برآمد بھی کی گئی۔

اعلامیہ میں حال ہی میں مستعفی ہونے والے جسٹس اطہر من اللہ کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ انہیں جمہوریت کا چیمئپن قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ حالانکہ موصوف مشرف دور میں اس کی کابینہ میں وزیر رہ چکے ہیں اور اس کے زبردست حامی تھے۔ پھر جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے فیض حمید کی عدلیہ میں مداخلت کے ناقابل تردید شواہد پیش کیے تو آج ایسی مداخلت پر آنسو بہانے والے ججز کا ایک ٹولہ اس وقت خاموش رہا، بلکہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی سے لاتعلقی اختیار کر لی۔ اس کے سب سے بڑے بینیفشری یہی حضرت جسٹس اطہر من اللہ تھے، جو شوکت عزیز صدیقی کا کانٹا درمیان میں سے نکل جانے کے بعد اگلے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ بنے۔

قومی کانفرنس کے شرکا کے نزدیک فروری دو ہزار چوبیس کے الیکشن میں بدترین دھاندلی ہوئی تو کیا دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن سرف سے دھلے ہوئے تھے؟ جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کو عوام پر تھوپا گیا۔ اعلامیہ میں گزشتہ الیکشن میں تاریخی دھاندلی کا ذکر نہ کرکے منافقت کی مثال قائم کی گئی۔ قومی کانفرنس کے شرکا نے بظاہر خود کو سپریم کورٹ اور آئینی عدالت سے بھی بڑی عدالت ثابت کرنے کی کوشش کی۔ قرار دیا کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی پر جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے۔ کیسے؟ اگر مجرموں کو دی جانے والی سزائوں کے درست اور غلط ہونے کے فیصلے نام نہاد قومی کانفرنسوں میں ہونے ہیں تو پھر ملک بھر کی جیلوں میں قید ہزاروں مجرموں کو بھی یہ حق دیا جائے کہ وہ بھی اپنا ایک پلیٹ فارم بناکر اس کے ذریعے خود کو بے گناہ قرار دلوائیں اور ساری عدالتیں بند کر دی جائیں۔

اعلامیہ میں عمران خان کی فیملی کے ساتھ بدسلوکی کا بھی ذکر کیا گیا۔ بے شک کسی کی فیملی کے ساتھ بھی ایسی بدسلوکی نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن کانفرنس کے شرکا اس پر دہائی دینے سے پہلے اس پر بھی نظر ڈال لیتے کہ عمران خان کی حکومت اپنی مخالف سیاسی پارٹیوں کی قیادت اور ان کی خواتین کے ساتھ کیا سلوک کرتی رہی۔ اسی طرح صحافیوں سے کسی صورت زیادتی نہیں ہونی چاہیے۔ چاہے یہ آج ہو رہا ہو یا کل ہوا تھا۔ اعلامیہ میں موجودہ دور میں صحافت کا گلا گھونٹنے کا رونا تو رویا گیا۔ لیکن جب انہی صحافیوں کو عمران خان حکومت کے دوران اٹھایا جارہا تھا اور گولیاں ماری جارہی تھیں تو تب یہ کیسے جائز تھا؟ کیونکہ اعلامیہ میں ماضی میں صحافت کی شہ رگ پر تلوار رکھنے پر مکمل خاموشی اختیار کی گئی۔

اعلامیہ میں یہ بھی فرمایا گیا کہ حکومت غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمے میں ناکام ہو چکی ہے۔ تو کیا پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں؟ یہ پی ٹی آئی حکومت کا وزیر خزانہ ہی تھا، جس نے کھلے عام کہا تھا کہ ملک دیوالیہ ہونے کے کنارے پر پہنچ چکا۔ موجودہ حکمرانوں نے ملک کو دیوالیہ سے بچایا یا ہونے دیا؟ اعلامیہ میں آئی ایم ایف کی اس رپورٹ کا ذکر کیا گیا کہ اس سسٹم میں تریپن سو ارب کی کرپشن ہو رہی ہے۔ لیکن اس سے اگلے ہی روز اسی آئی ایم ایف کی اس رپورٹ کا ذکر گول کر دیا گیا، جس میں کہا گیا کہ حکومت معاشی اصلاحات میں درست سمت میں جارہی ہے۔ یاد رہے کہ آئی ایم ایف نے تریپن سو ارب روپے کی کرپشن کی نشاندہی سسٹم میں کی ہے، جو دہائیوں سے چلا آرہا ہے اور پی ٹی آئی کے دور حکومت میں بھی چل رہا تھا۔

یہ بھی کہا گیا کہ خیبرپختونخوا بدترین دہشت گردی کا شکار ہے۔ اس میں دو رائے نہیں ہے۔ تاہم اس کے بنیادی اسباب کا ذکر بھی اعلامیہ سے غائب ہے۔ وہ کس کی حکومت تھی؟ جس میں سیکڑوں دہشت گردوں کو جیلوں سے رہا کر دیا گیا اور افغانستان سے ٹی ٹی پی کے ہزاروں مسلح دہشت گردوں کو واپس آنے دیا گیا۔ قصہ مختصر، یہ قومی کانفرنس اور اس کا اعلامیہ تضادات کا مجموعہ تھا۔ جب تک پی ٹی آئی اپنے ماضی کی غلطیوں پر ندامت کا اظہار اور معافی نہیں مانگتی، اسے حال کی زیادتیوں پر رونا زیب نہیں دیتا۔ مشہور قول ہے کہ ’’بے شک میرے عیبوں کے بدلے مجھے سنگسار کر دو۔ مگر پہلا پتھر وہ مارے جس میں کوئی عیب نہ ہو‘‘۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔