’’ ایس آرآئی‘‘: بھارت میں ووٹرلسٹ نظرثانی کے نام پر کیا ہورہاہے؟

بھارت میں دنیاکی طویل ترین ووٹر لسٹ پرنظرثانی کی بہت بڑی مہم کے ذریعے مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرنے کاخدشہ زور پکڑچکاہے۔50 کروڑ لوگوں کی تصدیق پرمشتمل اس مشق نے اقلیتوں اور ہندوتواکے مخالفین سمیت حزب اختلاف میں شدید تشویش پیداکردی۔2029 کے عام انتخابات اور اس سے پہلے 2026 میں کئی ریاستی انتخابات کے لیے ووٹروں کی چھان بین کا آغاز نومبر کے اوائل سے ہواتھا۔12ریاستوں بشمول اترپردیش، تمل ناڈو ،یرالا اور مغربی بنگال ،اور 3 وفاقی علاقے اس مشق میں زیرعمل ہیں۔

اسے اسپیشل انٹینسو ریویژن(ایس آئی آر)کا نام دیاگیاہے۔

ایس آرآئی پر 5 لاکھ سرکاری اساتذہ مامورہیں جو ڈیڈلائن تک بہت کم وقت میں دن رات کام کرتے ہیں۔ڈیڈلائن دسمبر کے آخر کی ہے۔امریکی میڈیانے اسے بھارت کابے ہنگم اور بکھراسیاسی نظام قراردیاہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت اقلیتوں کے خلاف اسے ایک ہتھکنڈے کے طورپر استعمال کر رہی ہے۔
مغربی بنگال میں 16 دسمبر کو شائع مسودےکے مطابق58 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو ووٹرلسٹ سے حذف کر دیا گیا ہے۔دسمبرکے شروع میں شائع مسودوں کے مطابق، تمل ناڈو، مدھیہ پردیش اور گجرات جیسی ریاستوں کی ووٹر لسٹوں سے بھی لاکھوں ناموں کو نکالاجاچکا ہے۔

حزب اختلاف کی جماعتوں اور کارکنوں کے مطابق اس عمل کے دوران ووٹرز سے ووٹر آئی ڈی کے بجائے جو دستاویزات جمع کرانے کو کہہ رہے ہیں، وہ عام طور پر شہریت کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے ایس آئی آر کو زیر استعمال شہریت کے سروےکے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔اپوزیشن رہنماؤں نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کا استعمال غریب اور اقلیتی ووٹروں،خاص طور پر مسلمانوں کو غیر قانونی تارکین وطن کے طور پر مسترد کرنے اور مودی حکومت کو فائدہ پہنچانے کے لیے انتخابی فہرست میں ہیرا پھیری کے لیے ہو رہا ہے۔

مغربی بنگال میںیہ سلسلہ سب سے زیادہ متنازع ہے۔مغربی بنگال میں، الزام لگایا گیاہے کہ یہ بنیادی طور پر مسلمانوں کو SIR کی آڑمیں حق رائے دہی سے محروم اور ملک بدر کیے جانے کے خطرے کا سامنا ہے، دوسری طرف بھارت میں غیر قانونی مقیم بنگلہ دیشی ہندو کہتے ہیں کہ انہیں شہریت کی یقین دہانی کرائی جا رہی ہے۔
بنگال پر حکمراں ترنمول کانگریس پارٹی (TMC) حکومت، جس کی وزیر اعلیٰ، ممتا بنرجی ہیں، نے ایس آئی آرکو ریاست پر پر دھوکہ دہی سے قبضہ کرنےکاسیاسی محرک عمل اور مغربی بنگالیوں سے ان کی شہریت چھیننے کا طریقہ قراردیا ہے۔ ایس آئی آر کے بعدحراستی کیمپوں جیسی افواہیں بکثرت ہیں۔

مغربی بنگال ان چند ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں بی جے پی اب تک سیاسی نفوذ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔وہاں ریاستی انتخابات اگلے سال ہونے والے ہیں۔بنرجی نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ ایس آئی آر کے ذریعہ خوف اور غیر یقینی پیدا ہونے سے لوگوں میں خوف و ہراس اور پریشانی پھیلی ہوئی ہے، خصوصاً ریاست کے مسلمانوں میں یہ خوف پیدا ہوا ہے کہ وہ اپنی شہریت کھو دیں گے۔ترنمول کانگریس نے ایس آئی آر کے تناؤ کو حالیہ ہفتوں میں ریاست کے اندر متعدد اموات اور خودکشیوں سے جوڑا ہے، اور بنرجی نے اس عمل کو روکنے کے لیے الیکشن کمیشن کو خط بھی لکھا۔

پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے، قائدحزب اختلاف راہول گاندھی نے الزام لگایا کہایس آئی آردراصل بی جے پی کے ایک وسیع منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد ووٹ چوری کرنااور بھارتی جمہوری انتخابات کی دیرینہ سالمیت کو تباہ کرنا ہے۔
اپوزیشن کا الزام ہے کہ ایس آئی آرکو شہریوں کے خفیہ قومی رجسٹر (NRC) کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، جیسا کہ کچھ سال قبل شمالی ہندوستان کی ریاست آسام میں ہوا تھا۔ وہاں، این آرسی کی وجہ سے سیکڑوں ہزاروں، بنیادی طور پر مسلمان، پکڑے گئے،حراستی مراکز میں نظر بند کیے گئے یا شہریت کے ٹربیونلز کا سامنا کرنے پر مجبور ہوئے، کچھ کو بنگلہ دیش جلاوطن کر دیا گیا۔

ایس آئی آ رکی بنیادپر بہار کے حالیہ انتخابات میں بھی کانگریس اور حزب اختلاف نے گڑبڑکے ذریعے الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگایاتھا۔بہار میں 65لاکھ سے زیادہ افرادووٹرلسٹ سے نکالے گئے تھے۔الیکشن کمیشن کا دعویٰ تھا کہ وہ مر چکے تھے یا چلے گئے ، لیکن بہت سے زندہ نکلے، اور لاکھوں شکایات سامنے آئیں۔حزب اختلاف کے مطابق ووٹرلسٹ سے ہٹائے جانے والوں میں سے بہت سے مسلمان تھے یا ان برادریوں سے تعلق رکھتے تھے جو ہندو قوم پرست بی جے پی کا ووٹ بینک نہیں۔

برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق حزب اختلاف نے خبردار کیا ہے کہ ووٹر رجسٹر پر نظر ثانی کی ایک متنازع مشق سےجمہوریت خطرے میں ہے،اس کے ذریعے اقلیتی ووٹروں کو حق رائے دہی سے محروم کر دیا جائے گا اور حکمران نریندر مودی حکومت کی طاقت میں اضافہ ہو گا۔

بھارتی حکومت نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ایس آئی آرکا عمل مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں کہا کہ ووٹر لسٹوں کی نظرثانی جائز ووٹرز کی تصدیق کے سوا کچھ نہیں،تاہم ناقدین نے بی جے پی کے مقامی رہنماؤں جیسے سویندو ادھیکاری کے اشتعال انگیز تبصروں کی طرف اشارہ کیا ہے، جنہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش میں ظلم و ستم سے بھاگنے والے ہندو خوش آمدید جو 2019 میں بی جے پی کے منظور کردہ ایک متنازع ایکٹ کے تحت شہریت حاصل کریں گے، اسی ملک کے مسلمان دراندازتھے جن کے ناموں کا پتہ لگا کر حذف کر دیا جائے گا۔

بغیر دستاویزات کے بھارت میں مقیم بنگلہ دیشی ہندو میڈیا کو تصدیق کرچکے ہیں کہ انہیں بی جے پی کے مقامی رہنماؤں نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ایس آئی آرکے نتیجے میں ان کی غیر قانونی حیثیت کے باوجود انہیں دراندازوں کے طور پر حراست میں یا ملک بدر نہیں کیا جائے گا۔بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ایک ہندو، بیکاش داس کے مطابق وہ 10 سال پہلے ہندوستان آیا تھا، اور بھارتی شہری نہ ہونے کے باوجود گزشتہ دو انتخابات میں بھارتی شناخت اور ووٹ ڈالنے کی اہلیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ۔ انہوں نے کہا کہ ابتدائی طور پر ایس آئی آر نے انہیں اس تشویش کا باعث بنایا تھا کہ انہیں اور ان کے خاندان کو ملک بدر کر دیا جائے گالیکن کچھ مقامی بی جے پی رہنماؤں نے یقین دلایا کہ ہمیں یقینی طور پر ہندوستانی شہریت دی جائے گی۔

تمل ناڈو میں حکمران پارٹی نے اس مشق کی باضابطہ مخالفت کی ہے۔ کیرالہ میں، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کی زیرقیادت حکومت نے ایس آئی آرکے خلاف ایک قرارداد منظور کی، جس میں اسے شہریت کے خفیہ سروے قراردے کرمذمت کی گئی۔

بھارتی پارلیمان نے دسمبر 2019ء میں شہریت ترمیمی ایکٹ کی منظوری دی تھی، جس کے تحت یکم جنوری 2015ء سے قبل بھارت میں موجود پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے ہندو، جین، سکھ، پارسی، مسیحی اور بدھ شہریوں کو بھارتی شہریت دینے کی بات کی گئی ہے۔ تاہم اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا۔ قانونی ماہرین اسے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور بھارتی آئین کے سیکولر اصولوں کے منافی قرار دیتے ہیں۔یہ قانون اس تصور کی بنیاد پر مذہبی اقلیتی باشندوں کو بھارتی شہریت دیتا ہے کہ انہیں ان تینوں مسلم اکثریتی ممالک میں اپنے مذہبی اقلیت ہونے کی وجہ سے ظلم و ستم کا سامنا رہتا ہے۔ابتدا سے ہی اس قانون پر سخت تنقید ہوتی رہی ہے اور اسے جانبدارانہ قرار دیا گیا۔ اس قانون کے خلاف پورے ملک میں زبردست مظاہرے بھی ہوئے تھے۔ حکومت نے تاہم ان مظاہرین کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں جیلوں میں ڈال دیا تھا۔

شہریت قانون بل بھارت کی پارلیمانی تاریخ کے متنازع ترین قوانین میں سے ایک ہے۔ اس کے خلاف مظاہروں اور فرقہ وارانہ تشدد پھوٹنے کے بعد،جس کے نتیجے میں درجنوں مسلمانوں کو قتل بھی کردیا گیا،اس قانون پر عمل درآمد میں تاخیر کردی گئی تھی۔2024 میں عام انتخابات سے چند ہفتے قبل بھارت نے اس ایکٹ کو مارچ میں نافذ کیا تھا۔بھارت کے مسلم حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون، شہریوں کی ایک مجوزہ قومی رجسٹریشن کے ساتھ مل کر، بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کے ساتھ، جو دنیا کی تیسری سب سے بڑی مسلم آبادی ہے، تعصبانہ سلوک کر سکتا ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ حکومت کچھ سرحدی ریاستوں میں ان مسلمانوں کی شہریت ختم کر سکتی ہے جن کے پاس قانونی دستاویزات موجود نہیں ۔

https://edition.cnn.com/2025/12/24/india/india-voter-registration-intl-hnk-dst
https://www.theguardian.com/world/2025/dec/16/india-electoral-roll-special-intensive-revision-threatens-democracy-muslims

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔