1947 میں صرف 3 تجارتی جہازوں سے آغاز کرتے ہوئے، پاکستان نے بتدریج اپنی قومی شپنگ فلیٹ کو وسعت دی، جو 1960 کی دہائی تک بڑھ کر 41 جہازوں تک جا پہنچی۔ 1979 میں پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن تقریباً 20 جہازوں پر مشتمل فلیٹ آپریٹ کر رہی تھی۔ 1982 میں کارپوریشن نے اپنی بلند ترین سطح حاصل کی، جب فلیٹ میں 45 جہاز شامل تھے، جن میں آئل ٹینکرز، بلک کیریئرز اور جنرل کارگو جہاز شامل تھے۔
اس بیڑے نے پاکستان کو نہ صرف اہم درآمدات و برآمدات کی ترسیل کے قابل بنایا بلکہ منافع کما کر قومی خزانے میں منافع کی صورت میں بھی حصہ ڈالا۔
آج یہ ترقی تنزلی میں تبدیل ہو چکی تیزی ہے۔ 45 جہازوں کی جگہ کارپوریشن اب صرف 13 جہاز چلا رہی ہے، جن میں سے زیادہ تر پرانے ہیں (تقریباً 50 فیصد فلیٹ کی عمر 20 سال سے زائد ہے)۔ اگرچہ کارپوریشن نے مالی سال 2024ـ25 میں تکنیکی طور پر خالص منافع ظاہر کیا ہے، تاہم یہ اعداد و شمار گہری structural کمزوریوں کو چھپاتے ہیں۔ آمدن میں سال بہ سال تقریباً 19 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، مجموعی منافع کی شرح گھٹ کر 29.8 فیصد رہ گئی ہے، مالی سال 25/26 کے نتائج کے مطابق خالص منافع 34 فیصد کمی سے 3.71 ارب روپے رہ گیا۔
اس منافع کا بڑا حصہ اثاثہ جات کی فروخت یا چارٹرنگ سے حاصل ہوا، نہ کہ پائیدار شپنگ آپریشنز سے۔
بدانتظامی، سیاسی مداخلت اور مفاداتی عناصر کے علاوہ، نمایاں وجوہات درج ذیل ہیں۔
جہاز عالمی معیار کے مطابق ڈیڈ ویٹ ٹنّیج میں پیچھے رہ گئے، خاص طور پر ڈرائی بلک اور کنٹینر سیگمنٹس میں، جس سے مسابقت اور آمدنی کی صلاحیت محدود ہوئی۔ ماضی میں چارٹرنگ فیصلے منافع کے درست تخمینے کے بغیر کیے گئے، جس کے نتیجے میں نقصانات اور اثاثوں کا غیر مؤثر استعمال ہوا۔ملکی شپنگ پاکستان کی مجموعی تجارت کاایک محدود حصہ سنبھالتی ہے، جبکہ زیادہ تر کارگو غیر ملکی جہاز بردار کمپنیاں منتقل کرتی ہیں۔
شپنگ کارپوریشن صرف تقریباً 11 فیصد کارگو حجم اور 4 فیصد قدر کے لحاظ سے ہینڈل کرتی ہے۔ 90 فیصد کارگو غیر ملکی کیریئرز کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔ فلیٹ کے محدود حجم اور گنجائش کی وجہ سے زیادہ مارکیٹ شیئر حاصل کرنے سے قاصر ہے۔زیادہ مرمت و دیکھ بھال کے اخراجات اور غیر فعال دن (Idle Days) کارکردگی اور منافع کو متاثر کرتے ہیں۔
نیشنل شپنگ کارپوریشن میں زوال کے وسیع تر معاشی اثرات ہیں۔
غیر ملکی شپنگ پر انحصار کے باعث پاکستان کو سالانہ 4 سے 8 ارب امریکی ڈالر کا زرِمبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اہم درآمدات پر قومی کنٹرول کی کمی پاکستان کی اسٹریٹجک کمزوری میں اضافہ کرتی ہے۔ فلیٹ کی محدود سرگرمی سے سی فیررز، میری ٹائم انجینئرز اور لاجسٹکس پروفیشنلز کے لیے روزگار کے مواقع کم ہو گئے ہیں۔ میری ٹائم ایکو سسٹم جس میں شپ ریپیئر، تربیت، انشورنس اور بندرگاہوں سے منسلک خدمات شامل ہیں، ترقی نہیں کر سکا۔ زیادہ فریٹ لاگت عالمی منڈیوں میں پاکستانی برآمدات کی مسابقت کو کمزور کرتی ہے۔
علاقائی و بین الاقوامی موازنہ
انڈیا کی شپنگ کارپوریشن (SCI) کے پاس 57 سے 64 جہاز ہیں، جو PNSC کے مقابلے میں کہیں زیادہ اور عالمی سطح پر مربوط فلیٹ ہے۔سری لنکا کے تقریباً 95 جہاز رجسٹرڈ ہیں۔ 1960 کی دہائی میں جنوبی کوریا کے پاس صرف 10 سے 15 جہاز تھے، جو پاکستان سے کہیں کم تھے۔ 1990 کی دہائی تک جنوبی کوریا کے رجسٹرڈ جہازوں کی تعداد 461 ہو گئی، آج اس کا فلیٹ 2,100 سے زائد جہازوں پر مشتمل ہے۔ انڈونیشیا، جس کا 1990 کی دہائی میں ایک محدود بین الاقوامی فلیٹ تھا، آج 11,400 سے زائد رجسٹرڈ جہازوں کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا شپنگ فلیٹ رکھتا ہے۔
کارپوریشن کی مینجمنٹ این ایل سی کو سونپنے کا منصوبہ
درپیش چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے نیشنل لاجسٹکس سیل (NLC) کو، جو اپنی مؤثر مینجمنٹ اور اسٹریٹجک وژن کے لیے جانا جاتا ہے، شپنگ کارپوریشن کی
ذمہ داری سونپنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس انتظام کے تحت این ایل سی ، کارپوریشن کو پیشہ ورانہ نظم و نسق اور آپریشنل کارکردگی کی جانب لے جائے گا۔
ری اسٹرکچرنگ کے طور پر 30 فیصد حصص کی مارکیٹ ویلیو پر جانچ کی جائے گی، این ایل سی ضروری سرمایہ پیدا کر کے فلیٹ کی مضبوطی اور توسیع میں سرمایہ کاری کرے گا۔
این ایل سی اور پی این ایس سی کے انضمام سے ممکنہ فوائدیہ ہوں گے۔
مالی بنیاد مضبوط ، سرمایہ کاری آئے گی اور لاجسٹکس انفراسٹرکچر کو میری ٹائم آپریشنز سے ہم آہنگ کیا جائے گا۔وسیع تر شیئر ہولڈنگ کے ذریعے زیادہ فنڈنگ دستیاب ہو گی، جس سے فلیٹ کی تجدید اور اثاثوں کے بہتر استعمال میں تیزی آئے گی۔ زمینی اور بحری لاجسٹکس کے انضمام سے ٹرانزٹ ٹائم اور غیر فعال دنوں میں کمی آئے گی، جس سے منافع میں اضافہ ہو گا۔ بہتر آپریشنل کارکردگی کے نتیجے میں زیادہ ڈیوڈنڈ اور کارپوریٹ ٹیکس کی صورت میں قومی خزانے کو فائدہ ہو گا۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos