میرے اس دوست نے مجھے بتایا کہ: ’’وہ مقتولہ میری بہن تھی اور اسی آدمی نے اس کو ذبح کیا ہے۔‘‘ میں نے اپنی بہن کو کسی بات پر ناراض ہو کر گھر سے نکال دیا تھا، سو وہ اس شخص کے پاس چلی گئی اور میں نہیں جانتا کہ ان دونوں کے درمیان ایسی کیا بات ہوئی کہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اس نے میری بہن کو قتل کر دیا اور جب میں نے آپ کے ہاتھ میں پازیبوں کو دیکھا تو پہچان لیا کہ یہ تو میری بہن کے پازیب ہیں، تو میں گیا اور لوگوں سے اپنی بہن کے بارے میں دریافت کیا کہ وہ کہاں ہے؟
لوگوں نے مجھ سے کہا وہ فلاں کے پاس ہے۔
میں نے کہا: ’’میں اپنی بہن سے راضی ہو گیا ہوں، تم لوگ جائو اور اسے میرے پاس بھیج دو، تو وہ لوگ بات کرنے میں ذرا ہچکچائے تو مجھے یقین ہو گیا کہ اس آدمی نے میری بہن کو قتل کر دیا ہے، جیسا کہ تم نے بتایا، سو میں نے بھی اسے قتل کر دیا، اب تم کھڑے ہو، تاکہ ہم اسے دفنا دیں۔‘‘
پھر ہم دونوں نے رات کو اس کو دفنایا۔ اس کے بعد میں بصرہ سے بھاگتا ہوا آیا یہاں تک کہ میں بغداد پہنچ گیا۔ اب میں نے قسم کھائی ہے کہ نہ میں کسی دعوت میں شرکت کروں گا اور نہ کبھی کسی کے پاس امانت رکھوائوں گا۔
رہا جنازہ والا قصہ تو وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ میں کسی کام سے زوال کے وقت گرمی کے موسم میں بغداد سے نکلا۔ میرے سامنے سے ایک جنازہ گزرا، جس کو دو آدمی کندھا دیئے ہوئے تھے، میں نے سوچا کہ کسی اجنبی مسافر کا جنازہ ہے، میں بھی اس کو کندھا دوں گا تو مجھے اجر ملے گا۔ سو میں نے ان دو کندھا دینے والوں میں سے ایک کے بدلے میں اس کو کندھا دیا، جب جنازہ میرے کندھے پر رکھ دیا گیا تو میں نے اس ایک کندھا دینے والے کو ادھر ادھر تلاش کیا، مگر وہ مجھے کہیں نظر نہ آیا، میں چلایا: ’’اے کندھا دینے والے! اے کندھا دینے والے!‘‘
دوسرے نے کہا: ’’چپ کر کے چلو، وہ چلا گیا ہے۔‘‘
میں نے کہا: ’’خدا کی قسم! میں ابھی اس جنازے کو رکھ دوں گا۔‘‘ اس نے کہا: ’’اگر تم نے ایسا کیا تو خدا کی قسم! میں بھی چلا جائوں گا۔‘‘ سو میں خاموش ہو گیا اور دل میں کہا: ’’چلو، ثواب کا کام ہے۔‘‘
پھر ہم دونوں جنازہ کو قبرستان لے گئے، جب ہم نے اسے قبرستان میں رکھا تو جو دوسرا کندھا دینے والا تھا، وہ بھی بھاگ گیا۔ میں نے کہا: ’’ان دونوں احمقوں کو کیا ہو گیا؟ خدا کی قسم! یہ تو ثواب کا کام ہے، میں نے اپنی جیب سے دراہم نکالے اور آواز لگائی: ’’اے گورکن! اس میت کی قبر کہاں ہے؟‘‘
اس نے کہا: ’’مجھے نہیں پتہ۔‘‘
’’میں نے کہا: ’’قبر کھودو۔‘‘
سو اس نے مجھ سے دو درہم لے کر ایک قبر کھود دی۔ جب میں نے جنازہ اٹھا کر گورکن کی طرف نیچے کیا، تاکہ وہ میت کو اٹھائے اور اسے دفن کر دے۔ تو ایک دم گورکن نے قبر سے چھلانگ لگائی اور مجھ کر تھپڑ مارا اور میری پگڑی میری گردن پر لپیٹ دی اور پکارنے لگا: ’’اے قاتل! اے قاتل! سو لوگ جمع ہو گئے اور اس بارے میں دریافت کرنے لگے۔‘‘
گورکن نے لوگوں سے کہا: ’’یہ آدمی اس میت کو دفنانے کے لیے آیا ہے، جبکہ میت کا سر نہیں ہے، پھر اس نے کفن کھولا تو لوگوں نے میت کو سر کٹا ہوا پایا، جیسا کہ گورکن نے کہا تھا، سو میں حیران ہو گیا، ڈر گیا اور تمام لوگ مجھے غصے سے دیکھنے لگے، قریب تھا کہ میں اس میت کے ساتھ ہی مر جاتا۔
پھر لوگ مجھے پولیس کے پاس لے گئے، چنانچہ پولیس افسر نے میرے لیے کوئی گواہ طلب نہ کیا اور کوڑے مارنے کے لیے میرے کپڑے اتار دیئے، میں بالکل خاموش ہکا بکا کھڑا رہا۔
اس پولیس والے کا ایک عقل مند منشی تھا، جب اس نے مجھے اس قدر حیران و پریشان دیکھا تو اس نے پولیس والے سے کہا: ’’مجھے ذرا اجازت دیجئے، میں اس آدمی کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں، کیونکہ مجھے یہ آدمی مظلوم لگتا ہے۔‘‘ اس نے منشی کو اجازت دے دی۔
منشی کھڑا ہوا اور مجھے تنہائی میں لے جاکر اس بارے میں سوال کرنے لگا۔ میں نے بغیر کسی کمی و بیشی کے اس کو سارا قصہ سنا دیا۔ اس نے میت کو جنازہ سے الگ ایک گوشہ میں رکھ کر کھولا تو اس میں یہ لکھا ہوا پایا: ’’یہ فلاں مسجد سے آیا ہے، جو کہ فلاں جگہ پر ہے۔‘‘
منشی نے پولیس کے کچھ آدمی ساتھ لیے اور بھیس بدل کر مسجد میں پہنچا، وہاں ایک درزی کو دیکھا تو اس سے اس جنازہ کے بارے میں پوچھا، جو وہاں تھا۔
درزی نے کہا: ’’ایک جنازہ مسجد میں تھا، جوکہ کل مسجد سے اٹھا لیا گیا اور اب تک واپس نہیں آیا۔‘‘
منشی نے کہا: ’’جنازہ کن لوگوں نے اٹھایا تھا؟‘‘
درزی نے کہا: ’’اس گھر کے افراد نے اور گھر کی طرف اشارہ کیا۔‘‘
منشی نے پولیس والوں کے ذریعے اس گھر کا محاصرہ کر لیا۔ وہاں کچھ کنوارے لڑکوں کو پایا تو ان کو پکڑ کر پولیس افسر کے پاس لے آیا اور اس کو ساری بات بتائی۔ پولیس افسر نے ان لوگوں سے قتل کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اقرار کیا کہ یہ لڑکا ہمارے ساتھ رہتا تھا، ہماری اس سے کسی بات پر ناچاقی ہو گئی تو ہم نے اس کو قتل کر دیا اور اس کا سر اس کنویں میں پھینک دیا، جو ہم نے اپنے گھر میں کھودا تھا اور وہ دو کندھا دینے والے بھی ہم ہی میں سے تھے، جو بعد میں آپس میں متفق ہو کر بھاگے تھے۔‘‘
چنانچہ پولیس نے ان لڑکوں کی گردنیں اڑا دیں اور مجھے چھوڑ دیا، یہی سبب ہے میری اس قسم کھانے کا کہ اب میں کسی جنازہ میں شرکت نہیں کروں گا۔ (راحت پانے والے)