ایک مرتبہ شفیا اصبحیؒ مدینہ منورہ آئے، دیکھا کہ ایک شخص کے گرد بھیڑ لگی ہوئی ہے، پوچھا کون ہیں، لوگوں نے کہا: حضرت ابو ہریرہؓ۔ یہ سن کر شفیا اصبحی ان کے پاس جا کر بیٹھ گئے، اس وقت ابو ہریرہؓ لوگوں سے حدیث بیان کر رہے تھے، جب حدیث سنا چکے اور مجمع چھٹ گیا تو شفیا نے ان سے کہا: رسول اکرمؐ کی کوئی حدیث سنائیے، جس کو آپ نے خود سنا ہو اور سمجھا ہو۔ سیدنا ابو ہریرہؓ نے کہا: ایسی ہی حدیث سنائوں گا، یہ کہا اور چیخ مار کر بے ہوش ہوگئے، تھوڑی دیر کے بعد ہوش آیا تو کہا: میں تم سے ایک ایسی حدیث بیان کروں گا جو آپؐ نے اس گھر میں بیان فرمائی تھی اور اس وقت میرے اور آپؐ کے سوا کوئی تیسرا شخص نہ تھا، اتنا کہہ کر زور سے چلائے اور پھر بیہوش ہوگئے، افاقہ ہوا تو منہ پر ہاتھ پھیر کر کہا: میں تم سے ایسی حدیث بیان کروں گا، جو رسول اکرمؐ نے اس گھر میں بیان فرمائی تھی اور وہاں میرے اور آپؐ کے سوا کوئی شخص نہ تھا، یہ کہا اور پھر چیخ مار کر غش کھا کر منہ کے بل گر پڑے۔ شفیا اصبحی نے تھام لیا اور دیر تک سنبھالے رہے، ہوش آیا تو کہا: رسول اقدسؐ نے فرمایا تھا کہ قیامت کے دن جب خدا بندوں کے فیصلے کیلئے اترے گا تو سب سے پہلے تین آدمی طلب کئے جائیں گے: عالم قرآن، راہ خدا میں شہید ہونے والا اور دولت مند۔ پھر خدا عالم سے پوچھے گا: کیا میں نے تجھ کو قرآن کی تعلیم نہیں دی، وہ کہے گا: ہاں، خدا فرمائے گا تو نے اس پر عمل کیا؟ وہ کہے گا: میں رات دن اس کی تلاوت کرتا تھا۔ خدا فرمائے گا تو جھوٹا ہے تو اس لئے تلاوت کرتا تھا کہ لوگ تجھ کو قاری کا خطاب دیں، چنانچہ خطاب دیا گیا، پھردولت مند سے پوچھے گا، کیا میں نے تجھ کو صاحب مقدرت کرکے لوگوں کی احتیاج سے بے نیاز نہیں کردیا! وہ کہے گا: ہاں خدایا، فرمائے گا تو نے کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں صلہ رحمی کرتا تھا، صدقہ دیتا تھا، خدا فرمائے گا تو جھوٹ بولتا ہے، بلکہ اس سے تیرا مقصد یہ تھا کہ تو فیاض اور سخی کہلائے اور کہلایا، پھر وہ جسے راہ خدا میں جان دینے کا دعویٰ تھا، پیش ہوگا، اس سے سوال ہوگا تو کیوں مار ڈالا گیا؟ وہ کہے گا تو نے اپنی راہ میں جہاد کرنے کا حکم دیا تھا، میں تیری راہ میں لڑا اور مارا گیا، خدا فرمائے گا تو جھوٹ کہتا ہے تو چاہتا تھا کہ دنیا میں جری اور بہادر کہلائے تو یہ کہا جا چکا۔ یہ حدیث بیان کرکے رسول اقدسؐ نے میرے زانو پر ہاتھ مار کر فرمایا: ابو ہریرہ! پہلے ان ہی تینوں سے جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی۔ امیر معاویہؓ نے یہ حدیث سنی تو کہا: جب ان لوگوں کے ساتھ ایسا کیا گیا تو اور لوگوں کا کیا حال ہوگا؟ یہ کہہ کر ایسا زار و قطار روئے کہ معلوم ہوتا تھا کہ مر جائیں گے، جب ذرا سنبھلے تو منہ پر ہاتھ پھیرکر فرمایا: خدا اور اس کے رسولؐ نے سچ فرمایا ہے کہ: ترجمہ ’’جو شخص دنیا اور اس کے سازوسامان کو چاہتا ہے، ہم اس کے اعمال کا بدلہ دنیا میں ہی دیدیتے ہیں اور اس میں اس کا کچھ نقصان نہیں ہوتا، لیکن آخرت میں ان کا حصہ آگ کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا اور انہوں نے جو کچھ کیا تھا، وہ برباد ہو جاتا ہے اور جو کام کئے تھے وہ بے کار جاتے ہیں۔‘‘ (سورئہ ہود) (صحیح اسلامی واقعات ص 118 تا 120)