خلاصۂ تفسیر
سماء (آسمان) کی قسم میں اشارہ ہو گیا کہ جنت ایسی ہی رفعت کا مکان ہے، جیسے آسمان اور بحر مسجور کی قسم میں اشارہ ہو گیا کہ دوزخ بھی ایسی ہی خوفناک چیز ہے، جیسے سمندر، یہ وجہ تخصیص تقسیم اقسام کی ہو سکتی ہے اور نفس قسم کی توجیہ سورئہ حجر کی آیت لعمرک کے ذیل میں اور غایت و غرض کی شروع سورئہ صافات میں گزر چکی ہے، آگے اس یوم کے بعض واقعات ارشاد فرماتے ہیں کہ جب یہ ثابت ہوا کہ مستحقین عذاب کے لئے عذاب ضرور واقع ہوگا) تو جو لوگ (قیامت کے اور دیگر امور حقہ توحید و رسالت کے) جھٹلانے والے ہیں (اور) جو تکذیب کے مشغلے میں بے ہودگی کے ساتھ لگ رہے ہیں (جس سے وہ مستحق عذاب ہوگئے ہیں) ان کی اس روز بڑی کم بختی آوے گی، جس روز کہ ان کو آتش دوزخ کی طرف دھکے دے دے کر لاویں گے (کیونکہ خوشی سے ایسی جگہ کون
آتا ہے، پھر جب ان کے ڈالنے کا وقت ہوگا تو اس حالت سے پکڑ کے ڈال دیئے جاویں گے اور ان کو دوزخ دکھلا کر زجراً کہا جاوے گا کہ) یہ وہی دوزخ ہے جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے (یعنی جن آیتوں میں اس کی خبر تھی ان کو جھٹلاتے تھے اور نیز ان آیات کو سحر کہا کرتے تھے، خیر وہ تو تمہارے نزدیک سحر تھا) تو کیا یہ (بھی) سحر ہے (دیکھ کر بتلاؤ) یا یہ کہ تم کو (اب بھی) نظر نہیں آتا (جیسا دنیا میں نظر نہ آنے کی وجہ سے منکر ہوگئے تھے اچھا تو اب) اس میں داخل ہو، پھر خواہ (اس کو) سہار کرنا یا سہار نہ کرنا تمہارے حق میں دونوں برابر ہیں (نہ یہی ہوگا کہ تمہاری ہائے واویلا سے نجات ہو جاوے اور نہ یہی ہوگا کہ تمہاری تسلیم و انقیاد و سکوت پر رحم کر کے نکال دیا جاوے، بلکہ ہمیشہ اسی میں رہنا ہوگا اور) جیسا تم کرتے تھے ویسا ہی بدلہ تم کو دیا جائے گا ( تم کفر کیا کرتے تھے جو سب سے بڑی نافرمانی اور حق تعالیٰ کے حقوق اور کمالات غیر متناہیہ کی ناشکری ہے، پس بدلے میں دوزخ کا خلود نصیب ہوگا، جو کہ عذاب اشد و غیر متناہی ہے، آگے ان کے اضداد کا بیان ہے) (جاری ہے)