حضرت سری سقطیؒ دکان کرتے تھے۔ آپؒ نے اپنے لیے یہ بات مقرر کر رکھی تھی کہ پانچ فیصد سے زیادہ منافع نہیں لیں گے۔ ایک مرتبہ آپؒ نے ساٹھ دینار کے بادام خریدے۔ بعد میں باداموں کا بھاؤ بڑھ گیا۔ جس سے آپؒ نے خریدے تھے، اس نے کہا:
’’باداموں کا ریٹ بڑھ گیا اور آپ کے بادام نوے دینار میں فروخت ہو سکتے ہیں، وہ مجھے بھیج دیں۔‘‘
آپؒ نے فرمایا: ’’میں وہ بادام تریسٹھ دینار سے زیادہ میں نہیں فروخت کروں گا…‘‘
اس شخص نے کہا: ’’میں ان کو 90 دینار سے کم نہیں دوں گا۔‘‘
اس طرح حضرت سری سقطیؒ نے وہ بادام فروخت نہ کیے۔
حضرت محمد بن منکدرؒ کپڑے کی دکان کرتے تھے، ان کے پاس مختلف بھاؤ والے کپڑے تھے۔ ایک دن ان کی غیر موجودگی میں ان کے ایک شاگرد نے پانچ دینار والا کپڑا ایک دیہاتی کے ہاتھ دس دینار میں فروخت کردیا۔ جب آپ واپس آئے تو اس بات کا پتا چلا۔ آپ فوراً اس کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ دن بھر اس اعرابی کو ڈھونڈتے پھرے۔ آخر وہ مل ہی گیا۔ آپ نے اس سے کہا:
’’تم نے جو کپڑا دس دینار میں خریدا ہے، وہ پانچ دینار سے زیادہ کا نہیں، لہٰذا کپڑا دوسرا لے لو یا اپنے پیسے واپس لے کر کپڑا مجھے دے دو۔‘‘
دیہاتی نے کہا: ’’میں نے اپنی مرضی سے خریدا ہے…‘‘
آپ نے فرمایا: ’’ٹھیک ہے، تم نے اپنی مرضی سے خریدا ہے، لیکن جو چیز میں اپنے لیے پسند نہیں کرتا، وہ دوسروں کے لیے بھی پسند نہیں کرتا۔ آپ میرے ساتھ دکان تک چلیں۔ میں اس سے بہتر کپڑا آپ کو دوں گا یا اپنے پانچ دینار واپس لے لو۔‘‘
دیہاتی نے پانچ دینار واپس لے لیے۔ آپ کے جانے کے بعد دیہاتی نے لوگوں سے پوچھا:
’’یہ مرد خدا کون ہے۔‘‘
لوگوں نے بتایا: ’’یہ محمد بن منکدر (مشہور محدث) ہیں۔‘‘
دیہاتی نے سن کر کہا: ’’واہ! یہ تو ایسے مرد ہیں کہ اگر کبھی بارش نہ آئے تو بارش کے لیے ان کا نام لے کر دعا کی جائے تو بارش ہونے لگے۔‘‘
حضرت ابراہیم نخعیؒ تلاوت کے بہت شوقین تھے، لیکن کوئی ملنے کے لیے آجاتا تو فوراً تلاوت بند کر دیتے اور قرآن کریم کو لپیٹ کر رکھ دیتے، پھر آنے والے سے کہتے:
’’یہ بھی کیا بات ہوئی کہ جب بھی کوئی ملنے کے لیے آئے تو مجھے تلاوت ہی میں محو پائے۔‘‘
مطلب یہ کہ اپنی تلاوت کے چرچے سے بچنے کے لیے وہ یہ بات کہتے تھے، تاکہ شہرت سے بچے رہیں۔
(جاری ہے)