احمد خلیل جازم/ نعیم خان
ڈیرہ اسماعیل خان صوبہ خیبر پختون میں دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر واقع ہے۔ یہ جنوبی خیبرپختون کا آخری اہم شہر ہے۔ یہاں سرائیکی، پٹھان اور بلوچی رہائشیوں کے ساتھ ساتھ اردو بولنے والے بھی موجود ہیں۔ اگرچہ سرائیکی غالب زبان ہے، لیکن پشتو اور اردو بھی آبادی کے ایک بڑے حصے میں بولی جاتی ہے۔ ضلع ڈیرہ میں اس بار قومی کی 2 اور صوبائی کی5 نشستوں پر مقابلہ ہوگا، جس میں بڑی قومی سیاسی جماعتوں کے امیدواروں سمیت آزاد امیدواروں میں پنجہ آزمائی کی امید کی جارہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ڈیرہ میں ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی اصل مقابلہ مذہبی اور سیکولر طبقے میں ہی ہے۔ یہاں کے بنیادی مسائل میں پینے کا صاف پانی، دور دراز دیہات میں سڑکوں کی تعمیر، شدت پسندی اور بے روزگاری شامل ہیں۔ خیبر پختون میں پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے باوجود یہاں کے منتخب پی ٹی آئی نمائندے اور اس کی مقامی قیادت کے درمیان اختلافات نے ڈیرہ کے مسائل بڑھا دئیے ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں کے تحت ڈیرہ کی نشستوں کا نمبر این اے38، این اے 39 اور پی کے 95 سے99 تک ہے۔ ضلع ڈیرہ کی 5 تحصیلیں ڈیرہ، کلاچی، پہاڑ پور، درابن اور پروآ ہیں۔ کلاچی کو ملک کی سب سے بڑی تحصیل ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ حالیہ حلقہ بندیوں سے قبل یہ نشستیں این اے24، 25 اور پی کے 64 سے 68 تک شمار ہوتی تھیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام روایتی حریف رہے ہیں۔ مولانا مفتی محمودؒ نے ذوالفقار علی بھٹو کو قومی اسمبلی ڈیرہ کی نشست پر شکست سے دوچار کیا تھا۔ کہا جاسکتا ہے کہ ڈیرہ کی سیاست پر مفتی محمودؒ کی شخصیت کے گہرے نقوش آج بھی ہیں۔ کھیتی باڑی اور مویشی پالنا ڈیرہ کے دیہی علاقوںکا مشغلہ ہے، جبکہ دریائے سندھ کا کردار بھی ڈیرہ اسماعیل پر مثبت اثر رکھتا ہے، جو ڈیرہ کی زمینیں آباد کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں کنڈی، گنڈہ پور، سید، برکی، گیلانی، میانخیل، ملک، شیخ، آفریدی، علی زئی، سپل، ڈیال اور استرانہ وغیرہ شامل ہیں۔ ڈی آئی خان اپنی دستکاریوں جیسا کہ شیشے اور ہاتھی دانت کی اشیا، روغن کی ہوئی لکڑی کا کام اور لُنگیوں (تہبند) کے لیے مشہور ہے۔ ڈی آئی خان کی صنعتوں میں صابن بنانے کی صنعتیں، ٹیکسٹائل اور تیل بنانے کے کارخانے شامل ہیں۔ ڈیرہ کے عوام باشعور ہیں۔ قبائلی علاقوں کے لوگ بھی یہاں بڑی تعداد میں ہیں۔ روایات بتاتی ہیں کہ قبائلی بہرحال اپنا فیصلہ کرتے ہوئے مذہب سے تعلق کو ترجیح دیتے ہیں۔ ڈیرہ میں گزشتہ3 انتخابات میں ووٹر ٹرن آئوٹ 40 سے 42 فیصد تک رہا ہے۔ اس بار مقامی تجزیہ نگار ووٹر ٹرن آئوٹ بہت زیادہ بڑھنے کی امید نہیں کر رہے۔ اس کا سبب گرم موسم اور حالات بتائے جاتے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق این اے 38 ڈیرہ ون کی کل آبادی 818254، جبکہ این اے 39 ڈیرہ ٹوکی کل آبادی808878 نفوس پر مشتمل ہے۔
قومی اسمبلی کی نشست این اے 38 ڈیرہ ون سے 17 امیدوارں محمد نعیم خان، سید حسین محی الدین، حمیداللہ، سینیٹر وقاراحمد خان، سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی فیصل کریم کنڈی، احمد کنڈی، اختر سعید ایڈووکیٹ، مخدوم زادہ محمد علی رضا شاہ، داور خان کنڈی، حفیظ اللہ، ایزد نواز، سید اسد علی زیدی، محمد زبیر، سراج الدین، سابق صوبائی وزیر سردار علی امین گنڈا پور، فضل الرحمن اور محمد اکرم نے ریٹرننگ افسر سید عارف شاہ کے پاس کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے، لیکن الیکشن میں اس وقت پندرہ امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق ایم ایم اے کے امیدوار مولانا فضل الرحمن، پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی، تحریک انصاف کے علی امین گنڈا پور، مسلم لیگ (ن) کے اختر سعید اہم امیدوار ہیں۔ جبکہ مقابلہ 2 روایتی حریف ایم ایم اے اور پیپلز پارٹی کے امیدواروں سمیت پی ٹی آئی کے درمیان ہی ہو گا۔ جبکہ ضلع کی دوسری نشست این اے39 پر بھی ایم ایم اے امیدوار مولانا فضل الرحمن ہیں۔ این اے 39 ڈیرہ ٹو سے 15 امیدواروں شیخ محمد یعقوب، سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی فیصل کریم کنڈی، سردار نورنگ خان گنڈا پور، سابق سینیٹر وقار احمدخان، محمد عامر، ایم آفتاب عنایت، عبیدالرحمن، محمد مقبول، عرفان اللہ خان، سردارعمر فاروق میانخیل، سردار قیضار میانخیل، عصمت اللہ، اکبر خان گنڈا پور، مولانا فضل الرحمن اور احتشام ا للہ نے ریٹرننگ آفیسر شاکر اللہ خان کے پاس کاغذات جمع کرائے تھے۔ جبکہ مولانا فضل الرحمان کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے نارنگ خان، تحریک انصاف کے یعقوب شیخ سے ہوگا۔ مقامی تجزیہ نگار اس نشست پر بھی ایم ایم اے، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے امیدواروں کے درمیان مقابلہ دیکھ رہے ہیں۔ اگر گزشتہ 3 انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو 2013 ء میں ضلع ڈیرہ کی 2 قومی نشستوں میں سے ایک پر مولانا فضل الرحمن نے کامیابی حاصل کی تھی، جبکہ دوسری نشست پر داور خان کنڈی کامیاب ہوئے تھے۔ صوبائی کی 5 میں سے 3 نشستیں تحریک انصاف، ایک جمعیت (ف) اور ایک پر آزاد امیدوار کا میاب قرار پائے تھے۔2008ء میں پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی نے 83560 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی تھی، جبکہ مولانا فضل الرحمن کو صرف 45990 ووٹ ملے تھے۔ تیسری پوزیشن آزاد امیدوار نے لی تھی۔ 2002ء میں ایم ایم اے کے مولانا فضل الرحمن نے یہ نشست 43124 ووٹ لے کر جیتی تھی۔ رنر اپ پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی رہے تھے۔ انہوں نے 36891 ووٹ لئے تھے۔ تیسری پوزیشن پر مسلم لیگ (ق) کے الحاج ثناء اللہ میاں خیل تھے۔ جبکہ ڈیرہ ٹو جس میں ٹانک بھی شامل تھا، سے 2002ء اور 2008ء میں مولانا فضل الرحمن اور پھر ان کے بھائی مولانا عطاء الرحمن کامیاب قرار پائے تھے۔ جبکہ 2013ء میں تحریک انصاف کے داور خان کنڈی کامیاب ہوئے اور رنر اپ پر 2002ء میں پیپلز پارٹی، 2008ء میں مسلم لیگ (ق) اور2013ء میں جمعیت (ف) تھی۔ 2002ء سے قبل ہونے والے انتخابات میں ڈیرہ اور ٹانک کی ایک ہی نشست ہوا کرتی تھی، جس پر 1997ء میں نواز لیگ کے الحاج سردار عمر فاروق میانخیل کامیاب ہوئے تھے۔ ان کے قریب ترین حریف جمعیت کے امیدوار تھے۔ 1993ء میں اس نشست پر مولانا فضل الرحمن نے کامیابی حاصل کی تھی ۔1990ء میں پیپلز پارٹی کے فضل کریم کنڈی، 1988ء میں مولانا فضل الرحمن کامیاب ہوئے تھے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں پیر صابر شاہ کامیاب ہوئے، جبکہ1970ء اور1977ء میں اس نشست سے مولانا مفتی محمودؒ نے مسلسل دو بار کامیابی حاصل کی تھی اور اس نشست پر پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو شکست دی تھی۔ مولانا فضل الرحمن کو ڈیرہ کی دونوں نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس بار بھی وہ دونوں نشستوں سے انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔ مولانا کے قومی کی دونوں نشستوں پر کامیابی کے باوجود صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر عوام کا مختلف رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ایک معروف تجزیہ نگار سعیداللہ مروت کا کہنا ہے کہ ’’ڈیرہ اسماعیل خان ہمیشہ دو طبقوں میں تقسیم رہا۔ ایک طبقہ جسے آپ ترقی پسند یا روشن خیال کہہ لیں اور دوسرا مذہبی حلقہ۔ یہ تقسیم مولانا مفتی محمودؒ اور ذوالفقار علی بھٹو کے الیکشن سے لے کر 2013 ء کے الیکشن تک دکھائی دیتی ہے۔ پہلے پی پی اور جمعیت علمائے اسلام کا مقابلہ رہتا تھا۔ اب منظر نامہ اس حد تک تبدیل ہوا کہ پی پی کی جگہ تحریک انصاف نے لے لی، لیکن ایسا نہیں کہ پیپلز پارٹی ختم ہوگئی، وہ بھی بہرحال موجود ہے۔ لیکن ذاتی تجزیہ اور ڈیرہ کے حالات بتارہے ہیں کہ اصل مقابلہ جمعیت علمائے اسلام اور تحریک انصاف کے درمیان ہوگا۔ یہاں سے ایم ایم اے کے مولانا فضل الرحمان کا پلڑا اس لیے بھاری نظر آتا ہے کہ اینٹی مولانا ووٹ پانچ یا چھ جگہوں پر تقسیم ہوگیا ہے‘‘۔ اگرچہ مولانا فضل الرحمن کی شخصیت بھاری بھر کم ہے، لیکن دونوں حلقوں این اے 38 اور 39 کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہاں سے مولانا فضل الرحمن کا مقابلہ سرمایہ دار شیخ یعقوب اور وقار خان سے ہے۔ ان کے روایتی حریف کنڈی برادران بھی میدان میں ہیں۔ شیخ یعقوب جے یو آئی کے پلیٹ سے سینیٹ کا انتخاب ہار چکے ہیں، جبکہ وقار خان سینیٹ کا انتخاب جیت چکے ہیں۔ اس بار شیخ یعقوب پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم پر انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔ وہ بھی اپنی شخصیت کے بل بوتے پر مضبوط امیدوار ہیں۔ تاہم مولانا فضل الرحمان بھر پور طریقے سے اپنی انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔ انہیں جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کی بھی حمایت حاصل ہے۔ مقامی تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’مولانا فضل الرحمن کی ان کی آبائی نشست پر کامیابی کے امکانات دوسری نشست سے زیادہ ہیں‘‘۔
صوبائی اسمبلی کی نشست پی کے 95 تحصیل پہاڑ پور کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس کی آبادی دیگر صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں سب سے زیادہ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کل آبادی 337865 ہے اور اس نشست کے لیے نعیم منصوری، مخدوم مجتبیٰ الحسن شاہ، مخدوم مرید کاظم شاہ، احتشام جاوید اکبر، نعمان اکبر، سلیمان اکبر اور مخدوم آفتاب شاہ نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ جبکہ پی کے 96 کی کل آبادی 333260بتائی جاتی ہے اور یہ نشست تحصیل ڈیرہ کے دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس نشست پر عبدالحلیم قصوریہ، طاہر وسیم، شیراللہ، احمد کنڈی، فیصل کنڈی، ارشداللہ، سمیع اللہ، گل ملوک، گل دین، ریحان ملک، شاہجہان، محمد وسیم، حفیظ اللہ، نور ساتھ خان، نجیب اللہ خان اور محمد شفیق الحق نے کاغذات نامزدگی جمع کرا ئے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ’’پی کے 96 سٹی ٹو میں جے یو آئی کے عبدالحلیم قصوریہ اور سینٹ کا ووٹ فروخت کرنے کی پاداش میں پی ٹی آئی سے نکالے گئے آزاد امیدوار سمیع اللہ علی زئی میں کاٹنے کا مقابلہ متوقع ہے۔ لیکن اسی حلقہ سے کنڈی خاندان کے دو نمایاں افراد طارق رحیم کنڈی پی ٹی آئی، جبکہ احمد کریم کنڈی پی پی کے ٹکٹ پر ہیں۔ پی کے 97 میونسپل کمیٹی یعنی ڈیرہ شہر کے ووٹرز کیلئے مختص کی گئی ہے۔ اس کی کل آبادی 307264 ہے۔ یہاں ملک قیوم نواز حسام، تیمور علی ایڈووکیٹ، نوابزادہ ایزد نواز، مشتاق احمد، ریحان ملک، محمد خان، جاوید عمران، خرم شہزاد، سراج الدین، محمد رمضان، عبد الرحمن، اسلام الدین، قیضار میانخیل، سردار علی امین گنڈا پور، ارشد نواز، عبداللطیف، مولانا اظہر ندیم، ہارون احمد، نثار خان اور عاطف خان نے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرا ئے ہیں۔ اسی طرح پی کے 98 تحصیل پروآ کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ تحصیل ڈیرہ کے کچھ دیہی علاقے بھی اس میں شامل ہیں۔ اس کی آبادی 329174 ہے۔ اس نشست کیلئے خالد سلیم خان استرانہ، اللہ داد خان استرانہ، نظام الدین، فخراللہ خان میانخیل، امیر احمد، مفتی فضل الرحمن، محمد امیر، ملک رضا، سلطان محمد دین، مولانا لطف الرحمان، عمر فاروق میاں خیل، سید احمد مشتاق، خورشید بی بی اور عبدالرئوف نے کاغذات نامزدگی جمع کرا ئے ہیں۔ ڈیرہ کی پانچویں نشست تحصیل کلاچی اور درابن کی مشترکہ نشست ہے۔ جبکہ اس میں کچھ علاقے تحصیل پروآ کے بھی شامل ہیں۔ پی کے 98 پروآ میں مولانا لطف الرحمن کا مقابلہ میاں خیل گروپ کے فخرالدین اور پی ٹی آئی کے خالد سلیم استرانہ کریں گے۔ یہاں ابھی تک مولانا لطف الرحمن کی پوزیشن مستحکم ہے۔ پی کے 99 کی آبادی 319569 نفوس پر مشتمل ہے۔ اس نشست کیلئے فریدون خان گنڈا پور، اکرام خان گنڈا پور، آغاز خان، سردار اکبرخان گنڈا پور، مجیب گنڈا پور، رنگین گنڈا پور، غلام عباس خان، فتح اللہ خان میانخیل، عمر فاروق میانخیل، دائود خان کنڈی اور شیخ فضل الحق نے کاغذات نامزدگی جمع کرا ئے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت نے ضلع میں ہر نشست پر صوبائی اسمبلی میں اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں۔ تاہم مقابلہ ایم ایم اے، پی ٹی آئی اور پی پی کے امیدواروں کے درمیان ہی ہوگا۔ قومی اسمبلی کے امیدوار کی شخصیت کا اثر صوبائی اسمبلی کی نشست پر کسی حد تک ہوگا، لیکن ڈیرہ کی روایات بتاتی ہیں کہ قومی اور صوبائی اسمبلی میں ووٹرز کا رجحان مختلف رہا ہے۔ مذہبی تعلق کی بنیاد پر اہم فیصلے کئے جائیں گے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ’’پی کے 99 کلاچی جو اس خطہ کا سب زیادہ پسماندہ اور نظرانداز کردہ حلقہ ہے، جہاں آج بھی انسان اور جانور ایک ہی جوہڑ سے پانی پینے پہ مجبور ہیں اور جہاں پچھلے پچاس برسوں سے روایتی طور پہ منتخب ہونے والے گنڈا پور اور میانخیل خاندانوں سے اکتائے ہوئے لوگ جوق در جوق ایم ایم اے کے مولانا عبیدالرحمٰن کے گرد جمع ہونے لگے ہیں‘‘۔