ڈائون سائزنگ- پہلے مرحلے میں 26 کرکٹرز فارغ کردیئے گئے

قیصر چوہان
کرکٹ کے محکمہ جاتی کھلاڑیوں اور کوچنگ اسٹاف میں ڈائون سائزنگ کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں 26 کرکٹرز ملازمت سے فارغ کئے جا چکے۔ جبکہ مستقل ملازمت سے ہاتھ دھونے والوں میں قومی کھاڑی بھی شامل ہیں۔ پی سی بی پیٹرن انچیف وزیراعظم عمران خان کے حکم پر پہلا وار کرکٹ کے سب سے بڑے ڈونر بینک نے کیا ہے۔ جس نے ادارے کی پوری ٹیم ہی ختم کردی ہے۔ دیگر محکموں نے بھی ہٹ لسٹ تیارکرلی ہے۔ یوں مختلف ڈپارٹمنٹس کی نمائندگی کرنے والے 1359 کھلاڑی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ اس بدترین صورتحال پر مقامی کرکٹرز کے اہلخانہ پالیسی سازوں کو بدعائیں دینے لگے ہیں۔ سابق کرکٹرز بھی بے رحمانہ پالیسی پر پی سی بی اور عمران خان پر برس پڑے۔
’’امت‘‘ کو دسیتاب اطلاعات کے مطابق مہنگائی اور بے روزگاری نے جہاں پاکستان کے عوام کا جینا دو بھر رکھا ہے۔ وہیں حکومت کی جانب سے تعینات کی جانے والی پی سی بی کی نئی انتظامیہ نے ڈومیسٹک کرکٹ میں بھی بحرانی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ڈپارٹمنٹل کرکٹ کو ختم کرنے میں پی سی بی پیٹرن انچیف وزیر اعظم عمران خان کا ہاتھ ہے۔ جن کی سخت گیر پالیسی نے تقربیاً 2000 کھلاڑیوں کا مستقبل دائو پر لگا دیا ہے۔ اس ضمن میں کرکٹ کے سب سے بڑے ڈونر حبیب بینک نے وزیر اعظم کے حکم کی تکمیل کرتے ہوئے ٹیم میں شامل 26 کھلاڑیوں کو ملازمت سے فارغ کر دیا ہے۔ ان 26 کھلاڑیوں میں ڈومیسٹک پلیئرز سمیت قومی کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کرنے والے فخر زمان، حسن علی، شان مسعود، امام الحق، عابد علی اور فہیم اشرف بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کرکٹ میں چار دہائیوں سے اہم کردار ادا کرنے والے ادارے حبیب بینک نے ’’محدود وسائل‘‘ کے سبب فرسٹ کلاس کرکٹ میں اپنی ٹیم ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ حبیب بینک کے چیف کارپوریٹ کمیونیکشنز آفیسر علی حبیب نے تصدیق کی ہے کہ 26 کھلاڑیوں اور کوچ سلیم جعفر سمیت کوچنگ اسٹاف کے چھ ارکان جو کنٹریکٹ پر تھے، فارغ کر دیئے گئے ہیں۔ بینک کے قوانین کے مطابق جلد ان کے تمام واجبات ادا کردئیے جائیں گے۔ علی حبیب کے مطابق حبیب بینک نے اپنے وسائل اور وقت کو اب پاکستان سپر لیگ پر صرف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو اس کے خیال میں پاکستان کی کرکٹ کا ایک اہم پلیٹ فارم ہے۔ حبیب بینک کی کرکٹ ٹیم ختم کیے جانے کا فیصلہ حیران کن اس لیے نہیں ہے، کیونکہ پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ کو علاقائی سطح پر استوار کرنے کی باتیں ہوتی رہی ہیں۔ جس میں ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کا دائرہ کار برائے نام کیا جانا شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق حبیب بینک کی کرکٹ ٹیم اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے فرسٹ کلاس ٹورنامنٹ قائد اعظم ٹرافی کی فاتح ہے۔ اس نے اس ایونٹ کے فائنل میں سوئی نادرن گیس کی ٹیم کو شکست دی تھی۔ ستّر کے عشرے میں جب پاکستان کرکٹ بورڈ کے اس وقت کے سربراہ عبدالحفیظ کاردار نے پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ میں اداروں کی ٹیموں کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو حبیب بینک ان اولین اداروں میں سے ایک تھا، جس نے اپنی کرکٹ ٹیم بنائی۔ حبیب بینک کی ٹیم کو ہر دور میں بہترین کھلاڑیوں کی خدمات حاصل رہی ہیں۔ ان کرکٹرز میں جاوید میانداد، محسن خان، عبدالقادر، سلطان رانا لیاقت علی، عبدالرقیب، سلیم ملک، اعجاز احمد، شاہد آفریدی اور عمرگل نمایاں رہے ہیں۔ حبیب بینک کی کرکٹ ٹیم ختم کیے جانے کے ساتھ ہی ادارے کا اسپورٹس ڈویژن بھی عملاً ختم ہوگیا ہے۔ کیونکہ بینک نے فٹبال، ٹیبل ٹینس، والی بال، ہاکی اور دیگر کھیلوں کی ٹیمیں پہلے ہی ختم کر دی تھیں۔ اس محمکے کی نمائندگی کرنے والے سابق کپتان جاوید میانداد کا کہنا ہے کہ ڈپارٹمنٹل کرکٹ ختم کی گئی تو کرکٹ کا حشر بھی ہاکی والا ہوجائے گا۔ ڈپارٹمنٹل کرکٹ سے ٹیلنٹ پالش ہوکر پاکستان کرکٹ ٹیم کو ملتا تھا۔ جس کی وجہ سے پاکستان کی ٹیم دنیا کی بہترین ٹیموں میں شمار ہوتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اداروں کی کرکٹ ٹیمیں ہی پاکستان کرکٹ کو دوبارہ اوپر لاسکتی ہیں۔ لہذا ڈپارٹمنٹل کرکٹ کو بند نہ کیا جائے۔ ماضی میں اسی سسٹم نے پاکستان کو بڑے بڑے کھلاڑی دیئے اور کھلاڑیوں کے معاشی مسائل بھی حل کیے۔ حبیب بینک کا حصہ رہنے والے یونس خان نے بھی ایچ بی ایل کی جانب سے کھلاڑیوں سے ہونے والی زیادتی کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح ٹیم کو ختم کر دینے سے کھلاڑیوں کا مستقبل تباہ ہوگیا ہے۔ اس معاملے پر قانون سازی کی ضرورت ہے۔ سابق کرکٹر یاسر عرفات کا کہنا ہے کہ نئی حکومت تو نوجوانوں کو روزگار دینے آئی تھی۔ یہ کس طرز کے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر علاقائی کرکٹ کو پروان چڑھانا ہے تو محکمہ جاتی کرکٹ کو ختم کئے بغیر بھی اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔ دوسری جانب ایک معروف ڈپارمنٹ کی نمائندگی کرنے والے کرکٹر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط میں ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’ہمیں علم نہیں تھا کہ ایک کرکٹر ہی کھلاڑیوں سے کھلواڑ کرجائے گا۔ دس برس سے ڈومیسٹک کرکٹ کھیل کر اپنے گھر کا خرچہ چلا رہا ہوں۔ یہی امید رہتی ہے کہ میری بیٹنگ اوسط دیکھ کر شاید سلیکٹرز مجھ پر مہربان ہوجائیں۔ لیکن اب نوکری کے بھی لالے پڑگئے ہیں۔ مجھ سمیت بہت سارے کھلاڑیوں کے اہل خانہ پالیسی سازوں کو بدعائیں دے رہے ہیں‘‘۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment