آگ لگا دو:
قرآن پاک سے شاہ جی (عطاء اللہ شاہ بخاریؒ) کی شیفتگی اور والہانہ محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ استثنائی صورتوں میں قرآن کے علاوہ کسی دوسری کتاب کے پڑھنے کی ضرورت بھی محسوس نہ کرتے۔ آپ کا عقیدہ تھا کہ میرے لئے جو کچھ ہے قرآن مجید میں موجود ہے۔ اس سے باہر جو بھی ہے باطل ہے اور ایک باطل شے کے مطالعے کے لیے میرے پاس وقت نہیں۔ اگر آج دنیا قرآن کو چھوڑ کر دوسری کتابوں پر نگاہ کرسکتی ہے تو میں دوسری کتابوں سے روگردانی کر کے صرف آخری کتاب الٰہی پر اپنی توجہ کیوں نہ مر تکز کردوں؟ میں تو قرآن کا مبلغ ہوں، میری باتوں میں اگر کوئی تاثیر ہے تو وہ صرف قرآن کی۔ جو چیز مجھے قرآن سے الگ کرے، اسے آگ لگا دو۔ (امیر شریعت نمبر:184/11) (
خدا کے لیے بس کرو:
آپ (حضرت شاہ بخاری صاحبؒ) نے فرمایا:
سیدنا یوسفؑ کے ذکر سے مجھے ڈم ڈم جیل یاد آگئی۔ 1930ء کے ایام اسیری میں ایک رات سورئہ یوسف کی تلاوت کر رہا تھا، چودھویں رات کی چاندنی، رات کا سناٹا، فضا خاموش اور ماحول دم بخود، تلاوت قرآن میں کچھ وقت گزر گیا، اتنے میں پنڈت رانجھی لال سپرنٹنڈٹ جیل نے مجھے پیچھے سے پکارا دیکھا تو اس کی آنکھوں سے آنسووؤں کی بارش ہو رہی تھی، کہنے لگا:
’’شاہ جی ! خدا کے لئے بس کرو، میرا دل قابو سے باہر ہو رہا ہے اور مجھ میں رونے کی سکت نہیں رہی۔‘‘ (پھر فرمایا:) بھائی! قرآن پڑھا جائے تو آج بھی اس کے اعجاز دکھائی دیتے ہیں۔ (امیر شریعت نمبر: 191)
تہجد میں چھ پارے:
حضرت قاری رحیم بخشؒ کا تہجد کی نماز میں پانچ پارے پڑھنے کا معمول رہا، آخری عمر میں سورئہ یٰسین، قرآن پاک کی تمام دعائیہ آیات کریمہ پرھنے کا بھی معمول بن گیا تھا۔ رمضان المبارک کی تراویح میں چند برسوں کے علاوہ مدۃ العمر خود ہی قرآن کریم سنایا۔ آپؒ نے جن برسوں میں قرآن تراویح میں نہیں سنایا، ان میں سحری سے قبل تہجد میں پانچ چھ پارے پڑھنا روزانہ کا معمول رہا۔ ایک قرأت میں ختم ہونے پر دوسری اور تیسری قرأت میں ختم فرماتے تھے۔ رمضان المبارک میں دیگر مصروفیات کے ساتھ تقریباً اٹھارہ انیس پارے روزانہ کی تلاوت تھی۔ (بینات صفحہ:16)(جاری ہے)