ایک حضرت سلطان نظام ا لدین قدس سرہ (پاک ہوا بھید اس کا، یہ لفظ مرحوم بزرگان دین کے نام کے ساتھ علیہ الرحمۃ کی جگہ مستعمل ہے) کے زمانے میں ایک ہندو جوگی (تارک دنیا ہندو) تھا۔ اس نے یہ مشق کی ہوئی تھی کہ ہر قسم کے مریض پر صرف اپنی نظر ڈال کر مرض کو سلب اور جذب کر لیتا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت پر ایک بیماری کا دورہ پڑا۔ جس میں آپ بے ہوش ہوگئے۔ ہوش آنے پر خدام نے عرض کیا کہ حضرت اگر اجازت ہو تو فلاں جوگی کے پاس، جو مرض فقط دیکھ کر ہی سلب کر لیتا ہے، آپ کا پلنگ لے چلیں۔
آپ نے فرمایا کہ خبردار ایسا مت کرنا، کیونکہ اندیشہ ہے کہ لوگوں کے عقائد میں خرابی پیدا ہو جائے گی۔ (یعنی ہندو جوگی اور اس کے ماننے والے کہیں گے کہ جوگی کی کوئی حیثیت ہے وغیرہ) اتفاق سے ایک دن پھر حضرت کو دورہ پڑا اور بے ہوش ہو گئے۔ مریدین کو اپنے پیر و مرشد سے بے حد محبت و احترام کا درجہ ہوتا ہے۔ خلوص ہوتا ہے۔ وہ اپنے پیر و مرشد کی تکلیف برداشت نہیں کر سکتے۔ آپس میں مشورہ کر کے اسی بے ہوشی کے عالم میں اپنے شیخ کا پلنگ اٹھا کر اس جوگی کے مکان پر جا رکھا اور حضرت کے فرمان کے خلاف کرنے اور آپ کی ناراضی کا تدارک معافی چاہنے سے سوچ لیا کہ اپنے پیر و مرشد سے دل و جان سے بعد میں معافی مانگ لیں گے۔ جب حضرت کو اس ہندو جوگی نے دیکھا کہ اتنی بڑی ہستی میرے پاس آئی ہے وہ تو پھولے نہ سمایا (دل میںسوچا کہ اب میری دکان خوب چمکے گی) جوگی نے حضرت کو دیکھا اور دیکھتے ہی اپنا تصور ڈالا۔ فوراً حضرت کے مرض کو سلب کر لیا۔ آپ ایک دم اٹھ کر بیٹھ گئے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ کوئی مرض ہوا ہی نہیں تھا۔
حضرت نے دیکھا کہ اس جوگی کا مکان ہے۔ آپ سمجھ گئے کہ یہ لوگ محبت کی وجہ سے میری تکلیف برداشت نہیں کر سکے۔ اس لئے ازراہ شفقت کسی کو کچھ نہیں کہا، بلکہ اس جوگی کی طرف متوجہ ہوئے اور دریافت فرمایا کہ یہ بتلائو کہ یہ تاثیر جو تمہارے اندر ہے، یہ کیا ہے اور کس عمل کی بدولت ہے؟ اس نے دست بستہ (ہاتھ جوڑ کر) عرض کیا کہ میرے پاس صرف ایک چیز ہے۔ وہ میرے گرو (استاد) نے مجھ کو تعلیم دی ہے اور وہ یہ کہ اس نے یہ کہا کہ ہمیشہ نفس کے خلاف کرنا، مطلب یہ کہ نفس کا چاہا ہرگز نہ کرنا، بس میرے پاس صرف یہی ایک عمل ہے۔ اسی کی بدولت یہ تصرف و تغیر و تبدل کرتا ہوں اور مرض کو فوراً سلب کر لیتا ہوں۔ یہ سن کر خدا کے ولی نے اس سے دریافت فرمایا کہ اچھا یہ بتلائو کہ تمہارا نفس مسلمان ہونے کو چاہتا ہے؟ عرض کیا کہ ہر گز نہیں۔ حضرت شیخ نے فرمایا کہ پھر اپنے گرو کی تعلیم پر کہاں عمل رہا۔ ادھر تو حضرت نے یہ فرمایا اور ساتھ ساتھ اپنی باطنی توجہ فرمائی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس ہندو جوگی نے ایک دم کلمہ طیبہ پڑھا اور صدق دل سے مسلمان ہو گیا۔ درحقیقت آپؒ نے اس پر بھی اپنا نورانی و روحانی اثر ڈالا۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ترجمہ ’’احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے؟‘‘ (پ 27 س الرحمن آیت 60)
اس جوگی نے آپ کے مرض جسمانی کو ختم کیا تھا۔ حضرت نے اس کے باطنی مرض یعنی کفر و شرک کو سلب فرمایا اور اسلام میں داخل فرما کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نار جہنم سے بچا لیا۔ اس طرح احسان کا بدلہ احسان ہو گیا۔ یوں برصغیر میں ان عظیم با عمل و باکرامت ہستیوں نے دین محمدیؐ کی شمعیں روشن فرمائیں (ملفوظات حضرت تھانویؒ حصہ چہارم)
احترام مرشد:
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ (جن کا تذکرہ اوپر کیا گیا ہے) نے بادشاہوں کی صحبت سے ہمیشہ کنارہ کشی اختیار فرمائی۔ ان سے کسی حال میں ملنا پسند نہیں فرماتے تھے۔ بادشاہ جلال الدین فیروز شاہ خلجی کو حضرت سے ملاقات کی بڑی تمنا تھی۔ اس لئے اپنے ندیم (دوست) خاص امیر خسرو سے اپنی اس تمنا کا اظہار کیا۔ حضرت شیخ امیر خسرو کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ انہوں نے سلطان سے وعدہ کیا کہ اجازت کے بغیر ان کی خدمت میں آپ کو لے جائیں گے۔ بادشاہ خوش تھا کہ اس طرح کی تمنا پوری ہو جائے گی۔
امیر خسرو نے بادشاہ سے وعدہ کرنے کو تو کر لیا۔ لیکن ان کے دل میں ایک خیال پیدا ہوا کہ کہیں ان کے مرشد کو یہ ناگوار نہ ہو۔ اس لئے انہوں نے اپنے مرشد کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ کی خدمت میں بادشاہ آنا چاہتے ہیں۔ حضرت اسی وقت دہلی چھوڑ کر اپنے پیرو مرشد خواجہ فرید الدین گنج شکر کے مزار کی زیارت کے لئے اجودھن (پاک پتن) روانہ ہو گئے۔
بادشاہ کو جب یہ خبر ملی تو امیر خسرو سے باز پرس کی کہ حضرت کے پاس میری حاضری کا راز کیوں فاش کیا۔ امیر خسرو نے عرض کیا بادشاہ سلامت ، اگر آپ رنجیدہ ہوتے ہیں تو زیادہ سے زیادہ میری جان کا خطرہ ہے۔ لیکن میرے مرشد آزردہ و ناراض ہوتے تو میرے ایمان کا خطرہ تھا۔ کیا خوب جواب تھا۔ بادشاہ کو یہ جواب بہت پسند آیا (سیرۃ الاولیاء)