رضویہ دھماکہ- مدرسے کے ملازمین سے تحقیقات جاری

امت رپورٹ
کراچی کے علاقے اولڈ رضویہ سوسائٹی میں ہونے والے دھماکے کے حوالے سے سی ٹی ڈی کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ مذکورہ دھماکہ علامہ رضی جعفر کے تنظیم المکاتب نامی مدرسہ میں ہوا، جہاں پر طویل عرصہ سے نہ صرف مذہبی کتابوں اور لٹریچر کے حوالے سے کام ہورہا تھا بلکہ کچھ عرصہ سے یہاں پر مدرسہ بھی قائم تھا۔ تحقیقات میں مزید معلوم ہوا ہے کہ اس مدرسے میں مجموعی طور پر پانچ افراد ملازم تھے تاہم دھماکے میں زخمی ہونے والا یاور عباس یہاں کا چوکیدار بتایا گیا ہے۔ زخمی ہونے والا شخص خود کو ذہنی طور پر متاثر ظاہر کررہا ہے۔
اولڈ رضویہ سوسائٹی میں معروف اہل تشیع عالم دین کے مکتب اور مدرسے میں ہونے والا دھماکہ تحقیقاتی اداروں کیلئے معمہ بن گیا۔ کائونٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) سندھ کی جانب سے دھماکے کے واقعے پر دہشت گردی سمیت دیگر پہلوئوں پر متعلقہ تھانے کی پولیس کے ہمراہ مشترکہ تحقیقات کی جا رہی ہیں جس کیلئے بم ڈسپوزل اسکواڈ اور فارنسک ماہرین کی جانب سے جائے وقوعہ سے جمع کئے گئے ثبوت اور شواہد کے لیبارٹری ٹیسٹ کے بعد رپورٹس کا انتظار کیا جارہا ہے تاکہ تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا جاسکے۔
کائونٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ اور پولیس افسران اس پہلو پر بھی تحقیقات کر رہے ہیں کہ دھماکے کے بعد کس کے کہنے پر جائے وقوعہ کو پانی سے دھو کر صاف کیا گیا تھا، کیونکہ اس طرح سے نہ صرف جائے وقوعہ سے اہم ثبوت اور شواہد ضائع ہوجاتے ہیں جو فارنسک تحقیقات میں اہم ترین ثابت ہوتے ہیں۔ بلکہ تحقیقات کو آگے بڑھانے میں بھی شدید مشکلات پیش آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس معاملے کو اہمیت دے کر مدرسہ تنظیم المکاتب کے ملازمین اور انتظامیہ سے تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔ کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کے اہم ذرائع نے اب تک ہونے والی تحقیقات کے حوالے سے بتاتے ہوئے کہا ہے کہ جمعہ کے روز دوپہر کے وقت رضویہ سوسائٹی تھانے کی حدود رضویہ ٹاؤن میں واقعہ مدرسہ تنظیم المکاتب میں معلم کے کمرے کے باہر دھماکہ خیز مواد زور دار دھماکے سے پھٹ گیا جس کی آواز دور دور تک سنی گئی۔ تاہم دھماکے کی اطلاع سکیورٹی اداروں کو کچھ تاخیر سے موصول ہوئی جس کی وجہ سے یہ ادارے دیر سے جائے وقوعہ پر پہنچ پائے اس سے قبل ہی دھماکے کی جگہ پر اہل علاقہ اور مدرسہ کی انتظامیہ نے اپنی مدد آپ کے تحت امدادی کارروائی شروع کردی تھی جس میں نہ صرف متاثر ہونے والے سامان کو درست کیا گیا بلکہ زخمی ہونے والے شخص جس کا نام یاور عباس معلوم ہوا، اس کو فوری طور پر ایمبولینس کے ذریعے اسپتال منتقل کیا گیا۔ بعد ازاں دھماکہ کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور رینجرز کی نفری موقع پر پہنچ گئی اور قانونی کارروائی کا آغاز کیا گیا، اسی دوران انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) سندھ نے بھی واقعہ کا نوٹس لیا اورڈی آئی جی ویسٹ سے رپورٹ طلب کی جبکہ انچارج کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) راجہ عمرخطاب نے بھی اپنی ٹیم اور فارنسک ماہرین کے ساتھ اولڈ رضویہ میں جائے وقوع کا دورہ کیا اور ثبوت وشواہد جمع کئے گئے۔ سی ٹی ڈی ذرائع کے بقول ابتدائی اطلاعات میں سامنے آیا تھا کہ یہاں پر موجود مدرسے پر دستی بم سے حملہ یا دھماکہ کیا گیا تھا جس سے ایک شخص زخمی ہوگیا تھا۔ اسی لئے معاملے پر انتہائی تیزی اور سنجیدگی سے تحقیقات کو آگے بڑھایا گیا۔ تاہم شام تک مختلف صورتحال سامنے آنے لگی تھی کیونکہ جس زخمی شخص کو مدرسے کا چوکیدار بتایا گیا اس نے اپنے بیان میں تحقیقاتی اداروں کو بتایا کہ اسے باہر سے کوئی چیز ملی جسے وہ اندر لایا اور جب اس نے اسے کھولنا چاہا تو دھماکے کے ساتھ پھٹ گئی جس سے وہ زخمی ہوگیا تھا۔ تحقیقات کے حوالے سے انچارج سی ٹی ڈی راجہ عمر خطاب کا کہنا تھا کہ دھماکے سے پھٹنے والا بم دیسی ساختہ نہیں تھا۔ تاہم مدرسہ سے کسی اور قسم کی کوئی مشکوک چیز بھی بر آمد نہیں ہوئی جبکہ تنظیم المکاتب کے مدرسے میں کچھ ماہ سے تدریسی عمل معطل ہے۔
اس دھماکہ کے حوالے سے پولیس ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسی اطلاعات پرعلیحدہ سے تحقیقات کی گئیں کہ جس مقام پر دھماکہ ہوا ہے کہ اسی جگہ کو ایک کالعدم تنظیم کے ٹریننگ سینٹر کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا تھا اور یہاں پر ذہن سازی کیلئے میٹریل بھی موجود رہتا تھا جس کے بعد یہاں سے تلاشی کے دوران کچھ دھماکہ خیز مواد اور نقلی پستول بھی بر آمد ہوئے جسے مدرسہ کے حوالے سے تحقیقات کے ساتھ منسلک کردیا گیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق یہ علاقہ ماضی میں بھی فرقہ وارانہ قتل و غارت گری اور دہشت گردی کے حوالے سے انتہائی حساس رہا ہے۔ جبکہ حالیہ انتخابات کے عمل کے دوران کسی بھی قسم کے دہشت گردی کے واقعہ کے پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اس ضمن میں انچارج سی ٹی ڈی انویسٹی گیشن مظہر مشوانی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ مدرسے میں مجموعی طور پر پانچ ملازمین کام کر رہے تھے جن سے تحقیقات جاری ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ زخمی ہونے والے شخص یاور عباس کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ایک ذہنی طور پر متاثر شخص ہے اسی لئے وہ باہر سے کوئی چیز اٹھا کر لایا جو اس کے مطابق سیگریٹ سلگانے والے لائٹر جیسی لگ رہی تھی۔ اس نے اسے کھولنے کی کوشش کی، جس کے دوران دھماکہ ہوگیا۔ تاہم ابھی تک کی تحقیقات میں ثابت ہورہا ہے کہ یہ دستی بم نہیں تھا کیونکہ اگر یہ دستی بم ہوتا تو جانی نقصان ہوسکتا تھا۔ ذرائع کے مطابق اب تک اس واقعہ کی تحقیقات میں پانچ افراد سے پوچھ گچھ کا سلسلہ جاری ہے اور امید ہے کہ جلد ہی تحقیقات کرنے والے افسران حتمی نتیجے تک پہنچ جائیں گے۔

Comments (0)
Add Comment