این اے238 میں اورنگزیب فاروقی کی پوزیشن مستحکم ہوگی

عظمت علی رحمانی
صوبائی حکومت کی عدم توجہی کے شکار ملیر کے حلقہ این اے 238 میں پاکستان راہ حق پارٹی کے علامہ اورنگزیب فاروقی کی پوزیشن مستحکم ہوگئی۔ وہ صوبائی حلقوں پر نواز لیگ، پی پی اور پی ٹی آئی امیدواروں کی حمایت بھی کریں گے۔ جبکہ تحریک انصاف قومی نشست پر تاحال امیدوار کا فیصلہ نہیں کر سکی۔
ملیر این اے 238 میں پاکستان راہ حق پارٹی کے علامہ اورنگزیب فاروقی اور پیپلز پارٹی کے سید رفیع اللہ کے مابین مقابلہ ہو گا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما حاجی مظفر علی شجرہ نے عوامی خدمت پینل بنا کر الیکشن مہم شروع کررکھی ہے۔ ملیر میں تحریک انصاف 4 بار ٹکٹ تبدیل کرنے کے بعد بھی حتمی فیصلہ نہیں کرسکی ہے۔ اورنگزیب فاروقی نے صوبائی حلقہ 89 سے مسلم لیگ ن کے جاوید ارسلا خان، پی ایس 90 سے تحریک انصاف کے اعجاز خان سواتی اور پی ایس 91 سے پیپلز پارٹی کے رہنما حاجی مظفر علی شجرہ کی حمایت کا اعلان کر رکھا ہے۔ نئی انتخابی حلقہ بندیوں سے قبل یہ حلقہ ملیر این اے 258 تھا۔ این اے 238کی کل آبادی 6 لاکھ 62 ہزار 499 ہے۔ اس حلقے میں ووٹر کی کل تعداد تقریبا ڈھائی سے زائد ہے۔ ملیر میں 2013ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار حکیم بلوچ ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔ جبکہ بلدیاتی الیکشن میں ملیر کی ضلع کونسل اور یونین کمیٹی دونوں میں پیپلز پارٹی کے ہی امیدواروں کی اکثریت نے انتخابی میدان مارا تھا۔ ملیر سے بلدیاتی الیکشن میں پیپلز پارٹی کے جان محمد بلوچ کو چیئرمین منتخب کیا گیا تھا۔ این اے 238 میں ساحلی علاقے، ابراہیم حیدری، بھینس کالونی، مجید کالونی، مظفر آباد اور مسلم آباد اور معین آباد، اسپتال چورنگی، مسلم آباد کالونی، شیر پاؤ، گل احمد، علی گوٹھ، داؤد چورنگی سے یونس ٹیکسٹائل، بھینس کالونی، گلستان سوسائٹی، قائد آباد، ریڈیو پاکستان، لیبر اسکوائر، ریڑھی گوٹھ، منزل پمپ، لالہ گوٹھ، کراسنگ کینٹ و دیگر شامل ہیں۔ ملیر دیہی اور شہری دونوں علاقوں پر مشتمل ہے، جہاں مہاجر، پختون، سندھی اور ہزارہ وال آبادیاں ہیں۔ اسپتال چورنگی سے بھینس کالونی تک روڈ انتہائی خستہ حالی کا شکار ہے اور علاقے میں پانی کا بھی شدید بحران ہے۔ جبکہ پولیس کی سرپرستی میں شیر پاو ،اسپتال چورنگی، مسلم آباد کالونی، گل احمد اور علی گوٹھ میں منشیات فروش سرگرم ہیں۔ یہاں تک کہ خستہ حال سرکاری اسکولوں میں بھی منشیات فروشوں کے اڈے بنے ہوئے ہیں۔ ملیر میں شہر کی نسبت دلچسپ سیاسی صورتحال دیکھنے میں آرہی ہے۔ قومی اور صوبائی سطح پر ایک دوسری کی حریف جماعتیں اس حلقے میں حریف بنی ہوئی ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر الیکشن مہم چلا رہی ہیں۔ حلقہ این اے 238 سے مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر سید شاہ محمد شاہ، پیپلز پارٹی کے سید رفیع اللہ، عوامی نیشنل پارٹی کے شاہی سید، تحریک انصاف کی خاتون زنیرہ رحمان، پاک سر زمین پارٹی کے راؤ محمد زبیر، تحریک صوبہ ہزارہ کے خورشید علی ہزاروی، پاکستان راہ حق پارٹی کے علامہ اورنگزیب فاروقی، پاکستان مسلم الائنس کے اکرام اللہ، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے گل فراز خان، متحدہ مجلس عمل کے محمد اسلام، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس محمد علی شاہ اور جسٹس ڈیموکریٹک پارٹی کے نواز علی جت سمیت 20 امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس حلقہ میں پاکستان راہ پارٹی کے امیدوار علامہ اورنگزیب فاروقی، پی ایس 89 سے مسلم لیگ ن کے امیدوار جاوید ارسلا خان، پی ایس 90 سے تحریک انصاف کے امیدوار اعجاز خان سواتی، پی ایس 91 سے پیپلز پارٹی کے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے والے رہنما حاجی مظفر علی شجرہ نے مشترکہ طور پر عوامی خدمت پینل تشکیل دیا، جس میں مسلم لیگ کے امیدوار اور تحریک انصاف کے امیدوار نے قومی اسمبلی کی نشست سے علامہ اورنگزیب فاروقی کو قومی نشست پر تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ جبکہ اورنگزیب فاروقی نے صوبائی نشستوں کیلئے ان کو حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے۔ پاکستان راہ حق پارٹی نے پی ایس 89 سے اپنے ہی امیدوار مولانا طارق مسعود کو بٹھا کر مسلم لیگ ن کے جاوید ارسلا خان کی حمایت کر دی ہے۔ صوبائی حلقہ 90 میں بھی اپنے امیدوار مولانا محمد عمر مجاہد شازلی نقشبندی کو بٹھا کر ان کی جگہ تحریک انصاف کے اعجاز خان سواتی کی حمایت کی ہے۔ صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی ایس 91 سے علامہ اورنگزیب فاروقی نے آزاد امیدوار حاجی مظفر علی شجرہ کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ جمعیت علمائے اسلام (س)، جمعیت علمائے اسلام (نظریاتی)، جماعت اشاعت التوحید والسنہ، پاکستان علماء کونسل، گرینڈ ڈیموکرٹیک الائنس، پاکستان ینگ علما کونسل کے مفتی محمد علی، قاضی عبدالصمد اور مفتی نسیم ثاقب رحمانی سمیت دیگر علما، پی ٹی آئی باغی گروپ سمیت آزاد امیدوار، PS-91 سے ممبر ڈسٹرکٹ کونسل ضلع ملیر نذیر احمد بھٹوکی جانب سے بھی قومی اسمبلی کی اس نشست پر علامہ اورنگزیب فاروقی کی حمایت کا اعلان کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ پیپلز پارٹی برسوں سے ملیر کی نشستوں پر انتخابی معرکے سر کرتی آئی ہے، تاہم انہوں نے علاقہ کی تعمیر و ترقی کیلئے کوئی بھی خاطر خواہ ترقیاتی کام نہیں کرائے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں علاقے میں عوام کی جانب سے مزاحمت اور سخت سوالوں کا سامنا کرنا پڑا رہا ہے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کے امیدوار سید رفیع اللہ نے سیاست کا آغاز مسلم لیگ (ق) سے شرو ع کیا، جس کے بعد وہ پاکستان تحریک انصاف میں چلے گئے تھے۔ جن کو بعد ازاں بدنام زمانہ راؤ انوار پیپلز پارٹی میں لے کر آیا تھا۔ یہی وجہ ہے نقیب اللہ قتل کیس میں پیپلز پارٹی کے مذکورہ امیدوار کو راؤ انوار کی وجہ سے علاقے میں پہلے ہی پذیرائی نہیں مل رہی۔ جبکہ مد مقابل علامہ اورنگزیب فاروقی کے مقابلے میں پاکستان مسلم الائنس کے اکرام اللہ دست بردار ہو گئے ہیں۔ جن کا الیاس گوٹھ ،جمعہ گوٹھ،علی اکبر شاہ گوٹھ اور ابراہیم حیدری میں برمی اور بنگالی برادری کا بڑا ووٹ بینک ہے۔گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے شاہ ولی شاہ بھی علامہ اورنگزیب فاروقی کے حق میں دستبردار ہو گئے ہیں۔ آزاد امیدوار مفتی رفیع اللہ، پنجابی پختون اتحاد (پی پی آئی )کے امداد شاہ بھی علامہ اورنگذیب کے حق میں دستبردار ہو گئے ہیں۔
واضح رہے کہ تحریک انصاف کو حلقہ میں اندرونی اختلافات کاسامنا ہے۔ پی ٹی آئی نے ابتدا میں ملیر سے علیم عادل شیخ کوامیدوار بنایا تھا، جن کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے بعد جمال ناصر کو ٹکٹ جاری کیا گیا۔ تاہم ان سے ٹکٹ واپس لے کر خواتین کا کوٹا پورا کرنے کیلئے زنیرہ رحمان کو ٹکٹ جاری کیا گیا۔ بعدازاں تحریک صوبہ ہزارہ کے بابا حیدر زمان نے پی ٹی آئی کے این اے 247 سے عارف علوی کی حمایت کو این اے 237 سے خورشید علی ہزاروی کی حمایت سے مشروط کردیا، جس کے بعد پی ٹی آئی کا ووٹ منتشر ہو گیا ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی کی حمایت لینے سے ہزارہ وال ووٹ بھی علامہ اورنگزیب فاروقی کو ملنے کی توقع کی جارہی ہے۔ حلقے سے مسلم لیگ ن کے امیدوار شاہ محمد شاہ کا ووٹ بینک بھینس کالونی، مجید کالونی، مظفر آباد اور مسلم آباد اور معین آباد میں موجود ہے۔ جبکہ سید امداد حسین شاہ آزاد امیدوار کے طور پر این اے 238 اور پی ایس 91سے امیدوار ہیں، جنہوں نے سانحہ 12 مئی کے حوالے سے متاثرین کیلئے عملی جدو جہد کی ہے۔

Comments (0)
Add Comment