منی بجٹ سے غریبوں کو روٹی کے بھی لالے پڑسکتے ہیں

وجیہ احمد صدیقی
نگراں حکومت کی جانب سے تجویز کردہ منی بجٹ سے غریبوں کو روٹی کے بھی لالے پڑسکتے ہیں۔ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ افراط زر میں اضافے سے کوکنگ آئل، بچوں کے دودھ سمیت کئی اشیا مہنگی ہوجائیں گی۔ جبکہ آٹا، چینی اور دالوں کی ذخیرہ اندوزی بھی شروع ہوسکتی ہے۔ نگران حکومت نے ایک سال میں بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کو روکنے کیلئے مجوزہ منی بجٹ میں کہا ہے کہ تمام درآمدی اشیا پر ایک فیصد کسٹم ڈیوٹی یا 1550 اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کردی جائے۔ اس خسارے کو دور کرنے کے اقدامات کے نتیجے میں پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات، خوردنی تیل، بچوں کا دودھ، کھاد اور کیمیکلز کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوگا۔ خسارے میں اضافے کی وجہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی ہونا ہے۔ ماہرین کے مطابق نگراں حکومت قانونی طور پر کوئی نیا بجٹ نہیں پیش کرسکتی۔ 2013ء میں بھی اس وقت کے صدر پاکستان آصف زرداری نے اس آرڈی ننس پر دستخط نہیں کئے تھے، جو ایف بی آر نے تجویز کیا تھا اور نگراں وزیراعظم نے بھیجا تھا۔ اس کے مطابق فوری طور پر 152 ارب روپے کے نئے ٹیکس تجویز کئے گئے تھے۔ سیاست دانوں نے اس آرڈی ننس کو خلاف آئین و قانون قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ نگران حکومت کو ٹیکس لگانے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں شدید ترین افراط زر کے مندرجہ ذیل اسباب ہیں:
حکومت کے اندرونی اور بیرونی ممالک سے قرضے۔ روزانہ 5 ارب روپے سے زیادہ کرنسی نوٹوں کا اجرا۔ موجودہ مالی سال میں تیرہ سو ارب روپے کی خسارے کی سرمایہ کاری۔ بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار۔ پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ۔ اشیائے ضروریات مثلاً آٹا، چینی اور دالوں کی ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ میں اضافہ۔ سامان تعیش کی بڑھتی ہوئی درآمد۔ توانائی کا بحران۔ تخفیف قدر زر۔ پیداوار میں کمی۔ سیاسی عدم استحکام۔ زراعت اور صنعت کی پسماندگی۔کرپشن۔ اسٹیٹ بینک کا حکومت پر غیر موثر کنٹرول اور حکومت کے شاہانہ غیر پیداواری اخراجات۔
ان تمام عوامل کے علاوہ اقوام متحدہ کے ادارے FAD کے مطابق ایشیا میں خوراک کی قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ پاکستان میں دیکھنے میں آیا ہے، جو 20 فیصد ہے۔ جبکہ ایشیا کے بیشتر ممالک میں یہ اضافہ 9 فیصد سے زیادہ نہیں بڑھا۔ ہفتے کو بھی اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 130 روپے 70 پیسے ہو کر ملک کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے جاری روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ کے باعث ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور ہفتے 70 پیسے کے اضافے کے ساتھ ڈالر کی قیمت 130 روپے 70 پیسے تک جا پہنچی ہے۔ معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اکمل حسین کا اس حوالے سے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’روپے کی قدر تیزی سے کم ہونے کی وجہ سے یہ بوجھ پاکستان پر بڑھا ہے۔ اس بوجھ کے بڑھنے کے نتیجے میں ضرورت کی وہ تمام اشیا مہنگی ہوں گی جن کا تعلق بڑی حد تک ہماری خوراک اور نقل و حمل سے ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری درآمدات ہماری برامدات سے کم ہیں۔ ہماری پیداواری صلاحیت روز بروز کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ محاصل بڑھانے سے مسائل بڑھیں گے اور افراط زر میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ آنے والی حکومت کو طویل المدت منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ قومی معیشت کوکم از کم 5 سے 6 ارب ڈالر کا انجکشن دینا ہوگا۔ اس کے بعد معیشت کی بحالی کیلئے طویل المدت علاج کرنا ہوگا۔ یہ اقتصادی بحران ماضی قریب میں برازیل پر آیا تھا جہاں تجارتی توازن بہت خراب ہوگیا تھا۔ مصر بھی اسی صورت حال سے دوچار ہوا تھا۔ اس وقت ملک میں اکانومک ایمرجنسی کی صورت حال ہے۔ اسے سنبھالنے کیلئے فوری طور پر پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرنا ضروری ہے۔ پاکستان میں جولائی کے مہینے میںافراط زر کی شرح میں 4.30 فیصد اضافے کی پیش گوئی کی گئی تھی لیکن اس ماہ زرمبادلہ میںاصل اضافہ1 5.2 فیصد ہوا ہے۔ جبکہ اکتوبر 2018ء میں افراط زر کی شرح میں 5.3 فیصد اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ جبکہ جولائی میں ہی افراط زر کی شرح غیر معمولی ہوگئی ہے۔‘‘
ڈاکٹر اکمل حسین کے تجزیے کے بعد ’’امت‘‘ نے وفاقی وزارت خزانہ کے ایک اہم عہدے دار سے بات کی تو ان کا دعویٰ تھا کہ ’’نگراں وزیر خزانہ شمشاد اختر آئی ایم ایف سے نئی شرائط کے تحت معاہدے کرنا چاہتی ہیں۔ وزارت خزانہ کا طریقہ کار یہ ہے کہ جب بھی آئی ایم ایف نے قرضہ لینے کا فیصلہ کر لیا جاتا ہے تو ان کی متوقع شرائط پر عمل شروع کر دیا جاتا ہے۔ 2008ء میں یہی ہوا تھا، 2013ء میں بھی یہی ہوا اور اب بھی یہی ہو رہا ہے۔ نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر مالیاتی امور کی ماہر اور کافی تجربہ کار ہیں ، مگر وہ مغربی سوچ کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ڈاکٹر شمشاد اختر آئی ایم ایف سے مشاورت کے دوران غیر رسمی طور پر قرضے کی بات کریں گی، جس کی شرائط پر پہلے سے عمل شروع کر دیا گیا ہے، جن میں روپے کی قدر میں کمی، شرح سود میں اضافہ اور بجلی، گیس اور پٹرول کے نرخ بڑھانا شامل ہیں۔ اس سے نئی آنے والی حکومت کیلئے مسائل میں اضافہ ہوگا۔ 2008ء میں ڈاکٹر شمشاد اختر نے بطور گورنر اسٹیٹ بینک ایک خط آئی ایم ایف کو بھیجا تھا، جس میں قرضہ مانگتے ہوئے کہا گیا کہ اس حوالے سے روپے کی قدر پہلے سے گرا دی گئی ہے۔ پیٹرول وغیرہ کے نرخوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اس خط میں کئی اعداد و شمار اور حقائق غلط بیان کئے گئے تھے۔ پھر جو شرائط تسلیم کی گئیں، ان کے نتیجے میں اگلے سال پاکستان کی شرح نمو 0.4 فیصد رہی جوکہ ملکی تاریخ کی سب سے کم شرح نمو تھی۔ اس وقت نگران جو کچھ کر رہے ہیں، اس سے اگلے سال شرح نمو گرے گی۔ یہی دکھائی دے رہا ہے کہ نگران فیصلہ کر چکے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ نیو گریٹ گیم کے تحت چاہتا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف سے قرضہ لے کیونکہ اس طرح وہ اپنی سیاسی شرائط منوا سکتا ہے۔ نواز حکومت نے کچھ مزاحمت کی تھی، مگر اب لگتا ہے کہ سیاسی معاملات میں برف پگھل گئی ہے۔ امریکہ گریٹ گیم کے تحت چاہتا ہے کہ ہم قرضہ لیں۔ اگر ہم نے قرضہ لیا تو وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے پاکستانی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ شرح نمو سست ہو گی، بے روزگاری بڑھے گی، برامدات کم ہونگی، مجموعی طور پر پاکستان کو نقصان پہنچے گا۔ ملکی سلامتی کیلئے بھی خطرات بہت بڑھ جائیںگے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’اس کے نتیجے میں پاکستانیوں کی اکثریت کیلئے کھانے پینے کی اشیا مہنگی ہوجائیں گی۔ عالمی بینک نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ غذائی افراط زر سے 80 فیصد پاکستانی متاثر ہوتے ہیں۔ 80 فیصد سے زائد آبادی کی یومیہ آمدنی 2 ڈالر سے بھی کم ہے۔ رپورٹ کے مطابق معاشرے کے امیر ترین طبقات اپنی آمدنی کا 10 تا 15فیصد حصہ خوراک پر خرچ کرتے ہیں۔ متوسط طبقہ اس حوالے سے 30 تا 40 فیصد اخراجات کرتا ہے، لیکن معاشرے کے غریب طبقات اپنی مجموعی آمدنی کے 70 تا 80 فیصد کے مساوی غذا اور خوراک پر خرچ کرتے ہیں۔ کم آمدنی والے غریب طبقات غذائی اجناس اور خوراک کی قیمت کے بڑھنے سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ 80 فیصد کے قریب پاکستانیوں کی یومیہ آمدنی 2 ڈالر سے بھی کم ہے اس لئے انہیں اپنی غذائی ضروریات کی تکمیل کیلئے اپنی تمام ترآمدنی خرچ کرنا پڑتی ہے۔‘‘

Comments (0)
Add Comment