زیادتی کے بعد 3 بچیوں کا قتل پولیس نے حادثہ قرار دیا

محمد زبیر خان
ضلع بہاولنگر کی تحصیل فورٹ عباس میں پولیس اور انتظامیہ کی بدترین نا اہلی سامنے آگئی۔ چولستان کے صحرا سے برآمد تین بچیوں کی لاشوں کی میڈیکل رپورٹ میں لیڈی ڈاکٹر نے واقعے کو زیادتی کے بعد قتل قرار دیا تھا۔ یہ میڈیکل رپورٹ 17 جون کو پولیس کو فراہم کردی تھی۔ تاہم پولیس نے واقعے کو صحرا میں راستہ بھٹک کر بھوک و پیاس سے ہلاکت قرار دے کر کوئی مقدمہ درج نہیں کیا۔ واضح رہے کہ گزشتہ ماہ 13جون کو ضلع بہاولنگر کی تحصیل فورٹ میں سے تین کم عمر بچیاں ثریا بی بی عمر 13سال، طاہرہ بی بی (8 سال) اور اللہ معافی (7 سال) اپنی گھر سے نکلیں تو لاپتہ ہوگئیں اور پھر 14، 15 جون کی درمیانی شب ان کے گھر سے دس کلو میٹر دور صحرا میں نعشیں دستیاب ہوئیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق ان کا پوسٹ مارٹم پندرہ جون کو کیا گیا اور مذکورہ لیڈی ڈاکٹر نے پوسٹ مارٹم رپورٹ سترہ جون کو جمع کرائی تھی۔ نعشیں دستاب ہونے کے فوری بعد کہا گیا کہ بچیاں تیرہ جون کو آنے والے گرد و غبار کے طوفان میں راستہ بھٹک کر دور پہنچ گئیں اور بھوک پیاس سے جاں بحق ہوگئیں۔ اسی طرح پولیس نے موقف اختیار کیا تھا کہ رپورٹ میں بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کی تصدیق نہیں ہوئی ہے جس کے بعد کیس کی تفتیش کو ختم کردیا گیا تھا۔ تاہم گزشتہ روز ملک رحمان کی سربراہی میں سینیٹ کی داخلہ کمیٹی کے اجلاس میں مذکورہ لیڈی ڈاکٹر نے بیان دیا کہ اس نے اپنی پہلی رپورٹ جس میں نمونے بھی منسلک تھے، میں بتایا تھا کہ زیادتی اور قتل کی علامات ملی ہیں۔ جس کے بعد اسٹیڈنگ کمیٹی سنیٹ برائے داخلہ نے پولیس کو واقعے کا مقدمہ درج کرنے اور تفتیش شروع کرنے کا حکم دے دیا۔
سینیٹ کی اسٹیڈنگ کمیٹی نے کیس کی تفتیش پر نظر رکھنے کیلئے رانا مقبول احمد کی سربراہی میں سب کمیٹی قائم کی ہے۔ رانا مقبول احمد کا ’’امت‘‘ کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’جب یہ واقعہ رونما ہوا تو اسی وقت سے یہ شکوک و شہبات پیدا ہوگئے تھے کہ بچیاں اس طرح جاں بحق نہیں ہوسکتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ بھوک پیاس سے مرنے کیلئے بھی کچھ ٹائم فریم ہوتا ہے اور اسی طرح کچھ دیگر معاملات بھی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے فیصلہ کیا گیا کہ ہم خود اس معاملے کو دیکھیں گے اور کسی نتیجے پر پہنچیں گے۔ اس کے بعد ڈاکٹر اور دیگر افراد کو سینیٹ کی داخلہ کمیٹی میں طلب کیا گیا جس میں لیڈی ڈاکٹر نے بتایا کہ انہوں نے اپنی سترہ جون ہی کی رپورٹ میں لکھ دیا تھا کہ اس طرح کی علامات موجود ہیں کہ بچیوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور ان کو قتل کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ مزید ٹیسٹوں کیلئے نمونے بھی منسلک کئے گئے تھے۔ جب ہم نے مذکورہ پوسٹ مارٹم رپورٹ منگوائی اور اس کا مطالعہ کیا تو اس میں ڈاکٹر نے واقعی یہ لکھا ہوا تھا کہ یہ معاملہ مشکوک ہے اور بھوک، پیاس سے موت کا خدشہ کم ہے۔ جبکہ کچھ ایسی علامات ملی ہیں جس سے زیادتی اور قتل ممکن ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’اس کے بعد پنجاب پولیس کو واضح حکم دے دیا گیا ہے کہ وہ اس واقعہ کا فی الفور نہ صرف مقدمہ درج کرے بلکہ اس کے ساتھ اس کی تفتیش کیلئے ایس پی لیول کا افسر مقرر کیا جائے اور ڈی آئی جی شعبہ تفیش اس کی خود نگرانی کریں اور کمیٹی کو تفتیش سے آگاہ رکھا جائے۔ فارنسک لیبارٹری کو بھی ہدایات دی ہیں کہ وہ فی الفور فورٹ عباس میں اپنے عارضی مراکز قائم کرے اور انتہائی جدید پیمانوں پر تفتیش کو شروع کیا جائے۔‘‘
کیس کے تفتیشی افسر سید رزاق شاہ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے احکامات کے بعد بچیوں کے لواحقین شام کو کسی وقت تھانہ کوٹ عباس پہنچیں گے اور ان سے درخواست لے کر مقدمہ درج کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کے لواحقین نے کسی پر شک و شبہ کا اظہار نہیں کیا ہے اور نہ ہی جب واقعہ ہوا تو کسی قسم کا مقدمہ درج کرایا۔ حلانکہ اس وقت پولیس نے ان کو پیش کش بھی کی تھی کہ اس واقعہ کا مقدمہ درج کرائیں مگر انہوں نے مقدمہ درج کرانے میں دلچسپی نہیں لی تھی۔‘‘
واقعہ سے متعلق سوشل میڈیا پر خدشے کا اظہار کیا جارہا ہے کہ بچیوں سے زیادتی کے معاملے کو دبایا جارہا ہے اور اس کے پیچھے انتہائی با اثر عناصر موجود ہیں۔ سوشل میڈیا پر بعض صارفین کا کہنا ہے کہ فورٹ عباس کے صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن بچیوں کے معاملے کو دبانے کا نوٹس لیں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل پر آواز اٹھائیں۔ ’’امت‘‘ کے رابطہ کرنے پر بچیوں کے خاندان کے قریبی افراد نے بتایا کہ واقعے والے روز بچیاں اپنے پھوپھا کے گھر جانے کیلئے نکلی تھیں اور یہ روز کا معمول تھا۔ مگر جب کافی دیر تک بچیاں واپس نہ آئیں اور پتا کیا گیا تو معلوم ہوا کہ بچیاں تو پھوپھا کے گھر میں پہنچی ہی نہیں تھیں۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ بچیوں کو وڈیروں کے ڈیرے کے راستے پر بھی دیکھا گیا تھا۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ اگر پولیس مناسب تفتیش کرے تو اس کیس کی تفتیش زیادہ مشکل نہیں ہوگی۔ مقامی ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق بچیوں کے والدین کئی سال قبل میاں چنوں سے آکر چولستان میں آباد ہوئے تھے۔ وہ مقامی وڈیروں کے مزارع ہیں اور مقامی وڈیروں کی مرضی کے بغیر کوئی بات نہیں کرسکتے ہیں۔

Comments (0)
Add Comment