امت رپورٹ
تحریک انصاف کے مسلسل فلاپ ہونے والے جلسوں نے عمران خان کی ڈپریشن بڑھا دی ہے۔ ملتان اور بہاولپور کے تازہ جلسوں میں بھی ویرانی کے ڈیرے تھے۔ تاہم پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق ’’خان صاحب‘‘ کو سب سے زیادہ سبکی جہلم کے جلسے میں ہوئی، جو سپر فلاپ تھا۔ اس حوالے سے چیئرمین پی ٹی آئی نے فواد چوہدری کو آڑے ہاتھوں لیا اور ان کا سیکریٹری انفارمیشن کا عہدہ خطرے میں پڑ گیا ہے۔ شنید ہے کہ الیکشن کے بعد فواد چوہدری کو اس عہدے سے ہٹا دیا جائے گا۔ اس موقع پر موجود پی ٹی آئی کے ایک مقامی عہدیدار نے بتایا کہ جہلم کے جلسے کے لئے جب اسٹیج سج گیا تھا تو عمران خان کا ہیلی کاپٹر فضا میں نمودار ہوا تاہم چیئرمین پی ٹی آئی نے دیکھا کہ پنڈال میں برائے نام لوگ ہیں اور بڑی تعداد میں کرسیاں خالی پڑی ہیں تو انہوں نے فضا سے ہی واپسی کا فیصلہ کر لیا تھا۔ تاہم نیچے اسٹیج پر بیٹھے فواد چوہدری نے انہیں فون کیا اور کہا کہ اگر وہ واپس چلے گئے تو ان کی بڑی سبکی ہو گی اور یہ کہ لوگوں کی بڑی تعداد راستے میں ہے اور جلد ہی پنڈال بھر جائے گا۔ عہدیدار کے بقول اس یقین دہانی اور منت سماجت پر عمران خان نے فیصلہ تبدیل کیا اور ان کا ہیلی کاپٹر نیچے اتر آیا۔ تاہم توقع کے برعکس آخر تک جلسہ گاہ کی کرسیاں بڑی تعداد میں خالی پڑی رہیں، جس پر عمران خان نے اپنی تقریر مختصر کر کے واپسی کی راہ لی۔ اور موقع پر ہی فواد چوہدری کی سرزنش بھی کی۔
اسلام آباد میں موجود پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع نے بتایا کہ وہمی طبیعت رکھنے والے عمران خان جہلم جلسے کی بدترین ناکامی کو ایک سازش کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں۔ اس ناکام جلسے کے بعد ہی پی ٹی آئی قیادت نے پارٹی جلسوں میں لوگوں کے نہ آنے کے اسباب تلاش کرنے کے لئے سر جوڑے۔ ذرائع کے مطابق اس وقت پارٹی کی ٹاپ قیادت اپنی انتخابی مہم میں مصروف ہے۔ تاہم اسلام آباد دفتر میں اسد عمر اور نعیم الحق باقاعدگی سے آ رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان دونوں سمیت دیگر رہنمائوں نے پارٹی کے سات سے آٹھ انتخابی جلسوں کی ناکامی کے تین بنیادی اسباب قرار دیئے ہیں۔ اس سے پارٹی چیئرمین کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔ ان اسباب میں ٹکٹوں کی تقسیم پر باغی کارکنوں کا گھر میں بیٹھ جانا سرفہرست قرار دیا گیا ہے۔ سینئر پارٹی قیادت کے مطابق ٹکٹوں کی متنازعہ تقسیم کے نتیجے میں نچلی سطح کا بیشتر ورکر، تنظیمی ڈھانچے سے نکل گیا ہے جس نے لوگوں کو جلسوں میں لانا ہوتا ہے۔ پارٹی چیئرمین کو بتایا گیا کہ ٹکٹوں کے معاملے پر ہونے والا شور شرابہ اگرچہ تھم گیا ہے لیکن اس کے ردعمل میں پارٹی کی ورک فورس بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ناراض کارکنوں کی اکثریت اپنے ہی امیدواروں کے خلاف کام کر رہی ہے اور ایک تعداد گھروں میں بیٹھ چکی ہے۔ پارٹی ذرائع کے مطابق انتخابی مہم میں اب محض دو دن باقی ہیں لہٰذا پارٹی کے بڑوں کا موقف ہے کہ الیکشن کے آخری دنوں میں ناکام جلسوں سے پارٹی کو جو نقصان پہنچنا تھا وہ پہنچ چکا لیکن اب اصل توجہ اس پر دینی چاہئے کہ اگر لوگوں کو گھروں سے نکالنے والا یہ نظریاتی ورکر الیکشن والے روز بھی گھر سے باہر نہیں نکلا تو پی ٹی آئی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس متوقع سچویشن نے چیئرمین عمران خان کی ڈپریشن آخری سطح پر پہنچا دی ہے۔ اور انہوں نے پارٹی ضلعی عہدیداروں کو ٹاسک دیا ہے کہ وہ ناراض ورکرز کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں واپس لانے کی کوشش کریں بصورت دیگر تنظیمی ڈھانچے کے جو دستیاب وسائل ہیں انہیں اس کمی کو پورا کرنے کے لئے بروئے کار لایا جائے تاکہ الیکشن والے روز متوقع صورت حال سے بچا جائے۔ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ کمروں میں بیٹھ کر ٹوئٹس کرنے کے بجائے انتخابات والے روز میدان عمل میں بھی اتریں۔ ذرائع کے مطابق پارٹی قیادت نے فلاپ جلسوں کا دوسرا سبب نواز شریف کی غیر متوقع واپسی کو قرار دیا ہے۔ عمران خان کو یہ یقین تھا یا دلایا گیا تھا کہ سابق وزیراعظم کسی صورت واپس نہیں آئیں گے۔ جبکہ ناکام جلسوں کی تیسری وجہ عمران خان کی جانب سے نون لیگ کے ووٹروں کو ’’گدھا‘‘ قرار دینا بتایا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پارٹی کے چند سینئر رہنمائوں نے عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ نون لیگ کی قیادت ان الفاظ کو ایکسپلائٹ کر کے پنجاب کے عوام کے جذبات سے کھیل رہی ہے اور اسے اپنے مقصد میں کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔ لہٰذا پارٹی چیئرمین کسی انتخابی جلسے میں ان الفاظ کی وضاحت کر کے مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی حکمت عملی کو غیر موثر بنا دیں۔ تاہم ذرائع کے بقول عمران خان نے اس تجویز کو سختی سے رد کر دیا۔ بلکہ وہ یہ تسلیم کرنے سے ہی انکاری ہیں کہ ان کے اس لفظ کی وجہ سے پی ٹی آئی کے جلسوں میں لوگوں کی تعداد کم ہوئی ہے۔ لاہور میں پی ٹی آئی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبائی دارالحکومت سے عمران خان کو جو تازہ فیڈ بیک دیا گیا، وہ بھی بڑا مایوس کن ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف کو زمینی حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ لاہور میں صرف دو سیٹیں ایسی ہیں، جہاں مسلم لیگ ’’ن‘‘ اور تحریک انصاف کے امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ان میں سے ایک حلقہ وہ جہاں سے عمران خان میدان میں اتر رہے ہیں اور دوسرا ڈاکٹر یاسمین راشد کا حلقہ۔ جبکہ بدلتے سنیاریو میں باقی نشستوں پر نون لیگ کی پوزیشن مضبوط ہو گئی ہے۔ پارٹی چیئرمین کو دی جانے والی رپورٹ میں حال ہی میں اکبر چوک لاہور میں اعجاز چوہدری کے ناکام جلسے پر بھی مایوسی کا اظہار کیا گیا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے شفقت محمود کے خلاف لگائے جانے والے مورچے نے ان کی کامیابی کو بھی تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔ یاد رہے کہ تحفظ ناموس رسالت قانون میں انتخابی اصلاحات کی آڑ میں منفی کردار ادا کرنے والے شفقت محمود کو نااہل قرار دلانے کے لئے تحریک لبیک پاکستان قانونی کارروائی کا اعلان کر چکی ہے۔ عمران خان کو بتایا گیا ہے کہ لاہور کے حلقے این اے 130 میں شفقت محمود کی پوزیشن پہلے ہی نون لیگ کے امیدوار کے مقابلے میں کمزور تھی تاہم نئی ڈویلپمنٹ کے بعد اس حلقے سے میدان میں اترنے والے تحریک لبیک کے پاکستان کے امیدوار حافظ حفیظ الرحمان بھی شفقت محمود کے لئے خطرہ بن گئے ہیں۔ پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو صرف لاہور ہی نہیں بلکہ پنجاب بھر اور ملک کے دیگر صوبوں سے بھی یہ فیڈ بیک مل رہا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار اب مسلم لیگ ’’ن‘‘ سے زیادہ تحریک انصاف کے امیدواروں کے ووٹ کاٹیں گے۔ کیونکہ ختم نبوت کے معاملے پر کسی قسم کا کمپرومائز نہ کرنے والے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد تحریک انصاف میں بھی موجود ہے۔ اور یہ کہ ناموس رسالت قانون میں ترمیم سے متعلق شفقت محمود کا کردار منکشف ہونے کے بعد ان ووٹروں کی ایک بڑی تعداد کا رجحان تحریک لبیک پاکستان کی طرف ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
ادھر جنوبی پنجاب سے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے والے الیکٹ ایبلز میں بھی عمران کے ناعاقبت اندیش رویئے نے تشویش کی لہر دوڑا دی ہے اور انہیں اپنی کامیابی خطرے میں محسوس ہو رہی ہے۔ راجن پور سے تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈر ایک الیکٹ ایبل کی انتخابی مہم چلانے والے مقامی عہدیدار نے بتایا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے جنوبی پنجاب کے مختلف حلقوں سے الیکشن لڑنے والے بیشتر الیکٹ ایبلز نے نون لیگی کارکنوں کو ’’گدھا‘‘ قرار دیئے جانے کو عمران خان کی سیاسی ناپختگی قرار دیا ہے۔ جبکہ تحریک انصاف کے مسلسل ناکام جلسوں کے بعد ان الیکٹ ایبلز کو اپنی کشتی ڈوبتی دکھائی دے رہی ہے اور بند کمروں کے اجلاسوں میں وہ ایک دوسرے سے ان خدشات کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔